ناول کوفہ کے مسافر- متن کی پہلی قرآت اور اوّلین تاثر /عامر حسینی

میں نے کل رات علی اکبر کے ناول “کوفہ کے مسافر ” پہلی قرآت ختم کی اور ظاہر ہے اس قرآت کے دوران میں کئی بار خون کے آنسو رویا اور کئی مقامات پر ظلم و جبر کے خلاف میرے جذبات امڈ امڈ کر آئے۔

اس ناول کی لینڈ اسکیپ حجاز ، عراق اور شام تک پھیلی ہوئی ہے اگرچہ کوفہ اس ناول کی کسی نہ کسی طرح مرکزی لینڈ اسکیپ ہے ۔ مرکزی کرداروں کے جلو میں درجنوں اور کردار بھی ہیں جن کی کردار نگاری میں علی اکبر ناطق نے جہاں تاریخی کتب سے مدد لی ،وہیں اس نے اپنے تخیل کی جولانیوں کو بھی خوب خوب استعمال کیا ہے ۔

میں نے اردو ادب میں فکشن کے باب میں اس واقعے کے گرد بنے جانے والا فکشن بھی پڑھ رکھا ہے ۔ اردو ادب میں اس موضوع پر پہلا ناول راشد الخیری نے لکھا تھا جس کا عنوان تھا “ذکر حسین ” ۔ یہ ناول 1928ء میں شایع ہوا تھا ۔ بعد میں ہمارے ناقدین ادب نے ان کی اس کاوش کا ذکر کم ہی کیا۔

فکشن کے باب میں 1930ء کے لگ بھگ اس موضوع پر دوسرا تخلیقی کام اردو میں پریم چند نے کیا ۔ پریم چند نے “کربلاء” کے عنوان سے یہ ڈرامہ 1923ء کے آخری مہینوں میں اس وقت لکھنا شروع کیا تھا جب وہ “چوگان ہستی ” کے نام سے ایک ہندی ناول لکھ رہے تھے جو 1924ء میں “رنگ بھومی” کے نام سے شائع ہوا اور پھر سن 1927ء میں یہ اردو میں شائع ہوا ۔

پریم چند کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ کربلاء ایک ایسا واقعہ ہے جس کے راستے سے ہندوستان میں پھیلی کمیونل سیاست اور تقسیم کو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن پریم چند نے جب اس ڈرامے کا اسکرپٹ لکھ لیا اور وہ چاہتے تھے کہ دیا نارائن نگم ایڈیٹر رسالہ زمانہ کانپور اسے سلسلہ وار شائع کریں۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے معذرت کی اور عذر یہ پیش کیا کہ ہوسکتا ہے کہ امامیہ شیعہ اس طرح کی ڈرامائی تشکیل کربلا کی پسند نہ کریں۔ انھوں نے نگم کو دو بار لکھا لیکن ان کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ ان کو پورا یقین تھا کہ امام حسین کا نام یقینی طور پر (ہندو۔مسلم) تناؤ کو کم کردے گا اور حالات کو ٹھیک کردے گا۔ نگم کے انکار کے باوجود ،انہوں نے دل چھوٹا نہ کیا۔ پریم چند کربلا کے کمیونل تقسیم کے حل کے طور پر دیکھنے کے اتنے زیادہ قائل تھے کہ وہ اپنی معاشی مشکلات کے باوجود اسے اپنے خرچے پر چھپوانا چاہتے تھے

اور آخر کار ان کا یہ ڈراما لالہ لاجپت رائے نے اپنے مکتبہ سے لاہور سے شایع کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو فکشن میں پریم چند کا یہ ڈرامہ مقتل ادب میں پہلی کاوش تھا جبکہ راشد الخیری فکشن میں اس موضوع پر لکھنے والے پہلے ناول نگار تھے ۔

پھر ایک لمبا وقفہ آتا ہے اور ہمیں فکشن میں اس موضوع پر اردو ادب میں کوئی ناول یا ڈرامہ نظر نہیں آتا ۔ 1972ء میں عصمت چغتائی کربلاء کے موضوع کو لیکر ایک ناول “ایک قطرہ خوں ” لکھتی ہیں ۔ اور ان کا ناول یہ ناول چھپ کر جب آیا تو ایک طرف تو کئی ایک ملاوں نے اس پر فرقہ پرستی کا الزام لگایا تو دوسری جانب اردو کے ناقدین نے بھی اس پر ناگواری کا اظہار کیا ۔

اس ناول کے چھپنے کے چھے سال بعد 1978ء میں اردو کی معروف ادیبہ قرتہ العین حیدر نے “سفر مقتل ” کے نام سے ناول لکھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قرتہ العین حیدر پر اکثر وبیشتر لکھنے والوں نے اگر ان کے کسی ناول کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا تو وہ یہی ناول تھا ۔ حالانکہ ان کا یہ ناول تاریخی تنازعات سے بالکل بھی معاملہ نہیں کرتا ۔ فنی اعتبار سے بھی یہ ناول بہت جاندار ہے ۔ عام طور پر ان کے ناولوں اور کہانیوں پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ وہ طبقہ اشراف اور بالائی متوسط طبقے کے کرداروں کو زیادہ فوکس کرتی ہیں اس ناول کے کردار اور موضوعات اس اعتراض کی زد میں بھی نہیں آتے ۔

میں نے جب یہ ناول پڑھا تو میرے اولین تاثرات کچھ یوں بنے :
“سفر مقتل” قرۃ العین حیدر کی ایک اہم تخلیق ہے، جو تاریخی اور استعاراتی موضوعات کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کا پلاٹ مذہبی، تاریخی، اور انسانی جذبات پر مبنی ہے، جس میں کربلاء کے واقعے کو مرکزیت دی گئی ہے، لیکن یہ صرف ایک تاریخی بیان نہیں بلکہ انسانی تجربات، سماجی تبدیلیوں، اور اخلاقی سوالات کا عکاس ہے۔
“سفر مقتل” میں کربلاء کے سانحے کو صرف ایک مذہبی واقعے کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ اسے انسانی ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ ناول میں کربلاء کا واقعہ اور امام حسینؑ کی شہادت کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ماضی کی کہانی رہتی ہے بلکہ آج کے دور کی سیاسی اور سماجی مشکلات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
قرۃ العین حیدر اس ناول میں تاریخی واقعات کو مختلف کرداروں اور مکالموں کے ذریعے بیان کرتی ہیں، جو اپنے وقت اور معاشرتی حالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ناول اس بات پر غور کرتا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ایک لازوال اصول ہے، چاہے وہ کسی بھی دور میں ہو۔ کربلاء کو یہاں استعاراتی طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں ہر زمانے میں حق و باطل کی جنگ جاری رہتی ہے اور مظلوم طبقے کے لیے امام حسینؑ کی قربانی ایک مشعل راہ ہے۔
“سفر مقتل” کا پلاٹ نہایت وسیع اور گہرائی میں جا کر انسانی فطرت، اخلاقی سوالات، اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے موضوعات کو سموئے ہوئے ہے۔ ناول میں فلسفیانہ اور استعاراتی انداز میں امام حسینؑ کی قربانی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ یہ ایک عالمگیر پیغام بن کر ابھرتا ہے، جو ہر زمانے اور معاشرت میں ظلم کے خلاف ایک آواز ہے۔

1- ظلم کے خلاف مزاحمت: ناول کا بنیادی موضوع ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اور حق و انصاف کی فتح ہے، جسے امام حسینؑ کی قربانی کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔
2-استعاراتی بیانیہ: ناول میں تاریخی واقعے کو استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، جہاں کربلاء کا پیغام ہر دور کے انسان کے لیے ہے۔
3- انسانی جذبات اور فلسفہ: ناول میں انسانی جذبات، محبت، قربانی، اور فلسفیانہ سوالات کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، جس سے یہ ایک گہری فکری تخلیق بن جاتی ہے۔
“سفر مقتل” ایک ادبی شاہکار ہے جو تاریخی واقعات کو فکری اور فلسفیانہ انداز میں بیان کرتا ہے، جس میں انسانی جدوجہد اور ظلم کے خلاف مسلسل جدو جہد کو نمایاں کیا گیا ہے۔

اس کے بعد ہمیں اردو ادب میں اس موضوع پر کوئی براہ راست یا علامتی ناول نہیں ملتا ۔ اس تناظر میں علی اکبر ناطق کا یہ ناول بڑی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ایک تو یہ اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ عربی ادب میں بھی اس موضوع پر لکھے جانے والے ناولوں میں سب سے ضخیم ناول ہے ۔ اور یہ اپنے مخصوص نکتہ نظر سے مابعد معاویہ ابن ابی سفیان دور کی سماجی، مذھبی اور سیاسی تاریخ کے تناظر میں لکھا جانے والا ناول ہے ۔

جب میں مخصوص نکتہ نظر کہتا ہوں تو میری مراد یہ ہے کہ ناول نگار نے کردار نگاری کے باب میں جہاں ابتدائی مسلم سماج میں جہاں انتہائی سخت اور کٹر پن سے بنو امیہ کے خلاف صرف ان ہی کرداروں کو اعتبار بخشا ہے جو ان کی نظر میں سختی سے صرف اور صرف شیعی امامیہ نظریہ پر قائم تھے ۔ انھوں نے پہلی صدی ہجری کے اندر کوفہ و بصرہ اور خود حجاز میں “شیعان علی ” کی جو اصطلاح مروج تھی اور اس میں جو “عمومیت” کا پہلو تھا اسے تنگ کرکے صرف اور صرف شیعہ امامیہ تک محدود کردیا ۔ حالانکہ خود شیعہ کے محقق اور نامور ماہرین تاریخ ہیں نے انھوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ ماڈرن تاریخ میں حسین محمد جعفری کی کتاب کا پہلا باب ہمیں اس ناول کی اس کمزوری بارے اچھے سے سمجھا سکتا ہے ۔ تاریخی فکشن میں ادیب کے پاس یہ تو آزادی ہوتی ہے کہ وہ تاریخ کی خالی جگہیں فکشن کے راستے سے پُر کرے لیکن اسے یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ پہلے سے موجود تاریخ کی جگہ اپنے تخیل کی جولانی سے اپنے مخصوص نکتہ نظر کو پروان چڑھانے کے لیے نئی تاریخ گڑھ لے یا کسی تاریخ کے جیتے جاگتے اور حقیقی کردار کے ساتھ فرضی واقعات گھڑ کر انھیں فکشن میں شامل کردے ۔ مدینہ میں انصار خاص طور پر خزرج کے باب میں تاریخ ان کی اکثریت کو شیعان علی میں شمار کرتی ہے ۔ اور ان کی بہت بڑی تعداد پھر کوفہ میں جاکر آباد ہوئی اور وہ حضرت علی ، امام حسن کے دست و بازو بنے ۔ شیعان علی میں شمار ہونے والے کوفہ کے نامور تاریخی شخصیات جن میں صحابہ اور تابعین کا بھی شمار ہوتا ہے ان کی اکثریت کے بارے میں شیعہ اور سنی مصادر تاریخ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ نظری اعتبار سے امامیہ شیعہ نہیں تھے جن میں خود عمار یاسر ، سلمان فارسی، عدی بن حاتم ، حجر الکندی، مالک الاشتر، حذیفہ الیمان، زید بن ارقم ، عبداللہ بن جابر ، سلیمان بن صرد الخزاعی الکوفی، قیس بن سعد بن عبادہ اور دیگر کے نام بھی شامل ہیں ۔ اور پہلی صدی ھجری کے اکثر صحابہ اور تابعین اول جنھوں نے مولا علی ، امام حسن اور امام حسین کا زمانہ پایا ان کے بارے میں کوئی ایک تاریخی روایت یا اثر ایسی نہیں ہے جس سے یہ قرینہ اور قیاس کرنے کی گنجائش بنے کہ وہ ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کی امارت اور یہاں تک کہ حضرت عثمان کے انتخاب کو اسلام سے بنیادی انحراف خیال کرتے تھے ۔ وہ تمام صحابہ اور تابعین جنھیں حضرت عثمان کا ناقد قرار دیا جاتا ہے یا آخری سال ان کے خلاف بغاوت میں شریک ہوئے ان کے بارے میں کمزور سے کمزور روایت بھی ایسی موجود نہیں ہے جو انھیں امامت منصوص من اللہ ہونے کا قائل بتاتی ہو ۔ اس کی گواہی خود شیعہ کتب الرجال بھی دیتی ہیں جو صحابہ کرام میں چھے کے سواء کسی اور کا نام ایسے شیعہ کی مد میں شمار نہیں کرتیں جن کے نزدیک امارت نص سے متعین ہوچکی تھی ۔ جبکہ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کو اس خیال کا حامی قرار دیا جاتا ہے کہ وہ بعد از وفات فضیلت و کمال کی بنیاد پر حضرت علی کو امارت کے لیے سب سے بہتر انتخاب قرار دیتے تھے وہ بھی ازروئے نص ہونے کے قائل نہ تھے ۔ ایسے میں کسی فکشن نگار کا یہ کام نہیں بنتا کہ وہ تاریخی ناول میں شیعان علی میں شمار ہونے والے ” صحابہ اور صحابہ زادوں ” ( یہ اصطلاح منفی معنوں میں علی اکبر ناطق نے بہت بار استعمال کی ہے ) کو زبردستی بنوامیہ کے کیمپ میں دھکیل دیں ۔

انھوں نے اپنے اس ناول میں کئی ایسے مناظر اور واقعات ازخود گھڑ کر شامل کر دیے ہیں جن کا تاریخ کی کتب اور خود شیعہ مصادر تاریخ میں نہیں ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر عبداللہ بن عمر ناطق ولید بن عتبہ اور پھر سعید اشدق سے اشرفیوں کی تھیلیاں لیتے دکھاتے ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں ہوس مال دکھاتے ہیں اور ان کے کمزور کردار کو جان بوجھ کر دنیا پرستی کا شکار دکھاتے ہیں جبکہ تاریخ میں ابن عمر کا کردار ایسے
Demonised way
میں ہمیں تاریخ کی سنی اور شیعی کتب میں نہیں ملتا۔ وہ بھول کر بھی یہ ذکر نہیں کرتے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے جب عبداللہ بن عمر ، سعد بن ابی وقاص سمیت مدینہ کے جن مہاجر صحابہ کو خط لکھ کر اپنے خلیفہ ہونے کا جو دعوا کیا تھا تو اس کا کتنا سخت جواب ان کی طرف سے دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ انھیں بطور طلیق اس معاملے پر رائے دینے کا اختیار بھی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ خود اس منصب کے دعوے دار ہوں ۔ ملوک کی اکراہ و جبر کے ساتھ بیعت کے معاملے میں عبداللہ بن عمر بھی اتنے ہی کمزور درجے پر تھے جتنے درجے پر عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر طیار تھے لیکن جو من گھڑت قصے اور مناظر ناطق نے ابن عمر کے ساتھ گھڑے وہ باقی دو کے ساتھ نہیں گڑھے ۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو امام حسن کی شہادت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں گھوڑے پر سوار امام حسن کے جنازے کے جلوس پر تیر چلاتے دکھا دیا حالانکہ تاریخ میں تو لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی قبر کے کیے مختص جگہ پر امام حسن کو دفن ہونے کی اجازت دے دی تھی ۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ انھیں امیر شام سے کس قدر نفرت اور ان پر غصہ تھا اور ان کا مکالمہ بھی تاریخ میں درج ہے ۔

اس ناول میں ناطق نے سلیمان بن صرد الخزاعی الکوفی کے کردار کو بھی اس قدر مسخ کیا ہے کہ انھوں نے کوفہ میں مسلم بن عقیل کی شہادت کا ذمہ دار بھی انھیں۔ ٹھہرایا ہے اور انھیں امام حسین تک کا مخالف بناکر پیش کیا ہے اور آخر تک ان کے کردار کو لیکر نہ صرف ان سے بلکہ امام حسین کے ساتھ شہید ہونے والے کوفیوں سے منسوب کرکے پورے پورے مکالمے گھڑ لیے ہیں جن کا مقاتل کی کمزور ترین روایات میں بھی ذکر نہیں ہے ۔ انھوں نے ہانی بن عروہ ، مسلم عوسجہ، قیس میسہراوی، حبیب ابن مظاہر سے انھیں برا بھلا کہلوایا ہے ۔ پھر مختار کو انھوں نے مسلم بن عقیل کی حمایت ترک کرکے اور جو لشکر ان کی حمایت میں اکٹھا کیا تھا اسے واپس بھیجنے اور پھر عبیداللہ ابن زیاد کے دربار میں ایک رشتے دار کے ذریعے سے امان کی لالچ میں پیش ہوتے دکھایا ہے۔ یہ اس ناول کی فاش غلطیاں ہیں اور تاریخ کا قتل بھی ہے ۔ انھوں نے سلیمان بن صرد الخزاعی کے بارے میں شیخ مفید ، الزرکلی، سید خوئی ، شیخ مظفر ، شیخ طوسی ، علامہ حلی ، نجاشی کی تحریروں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور انھیں ایک طرح سے قیام مسلم بن عقیل و امام حسین سے بہت بڑی غداری کرنے والا دکھایا ہے ۔

فکشن نگار جب کرداروں کو ایسے فکشنلائز کرے کہ جس سے تاریخ کے مسلمہ حقائق مسخ نہ ہو تو بات پھب جاتی ہے ۔ جیسے ناطق نے مسلمان کا روپ دھارے عبداللہ ابن اسحاق کا کردار گھڑا ، رام چند کا کردار تخلیق کیا۔ مسلم بن عقیل جس گھر میں ٹھہرے اس گھر کی عورت اور اس کے بیٹے کے کردار میں جو زیب داستاں کے لیے واقعات اور مناظر میں رنگ بھرے ۔ کوفہ کے اندر شیعہ قبائل کے محلوں میں بغاوتوں کے واقعات کی منظر نگاری کی ۔ خود واقعہ کربلاء میں لڑائی کے مناظر میں فکشنل مواد شامل کیا ۔ یہ سب تاریخ اور تاریخی کرداروں سے۔ جڑے مسلمہ حقائق پر اثر انداز نہیں ہوتے ۔

علی اکبر ناطق کا یہ ناول فنی اعتبار سے ایک اعلی پایہ کا ناول ہے ۔ اور ان کے گزشتہ ناول ” کماری والا” سے کہیں زیادہ بہتر اور خوب کسا ہوا ناول ہے ۔ اردو ادب میں کم از کم اس موضوع پر اس طرح کا ناول پہلے سے موجود نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں اپنے پیش رو ادیبوں سے سبقت لے گئے ہیں۔

بنو امیہ کی ملوکیت اور یزید ابن معاویہ کے باب میں جرات مندی اور بے باک موقف اپناتے ہوئے اس موضوع پر کھل کر فکشن کے باب میں لکھنے کی “گستاخی ” کم از کم پاک و ہند میں ان سے پہلے کسی ادیب نے نہیں کی ۔ سب ادبی اسٹبلشمنٹ کے طعنوں کے خوف سے ایسا کرنے سے گریزاں رہے ۔ جنھوں نے اس موضوع پر فکشن لکھا ان کے فکشن کو بھی تمام تر احتیاط اور نرمی برتنے کے باوجود فرقہ پرستی کے طعنے سہنے پڑے ۔

علی اکبر ناطق نے فکشن کے راستے سے حسین ابن علی کی تنہائی ، بے کسی اور مظلومیت کو ایسے مجسم کیا ہے کہ اس سے جو فرد جرم لگتی ہے وہ ایک طرح سے پہلی صدی ھجری کے تمام چھوٹے بڑے کرداروں پر عائد ہوتی ہے اور یہ اتنا بڑا تلخ اور کڑوا سچ ہے جس سے آنکھیں دوچار کرنے والوں کو تقدیس و بزرگی کے بہت سے بتوں کو توڑنا پڑے گا ۔

اردو ادب نے پریم چند کا اس موضوع پر ایک ڈراما بھی مشکل سے ہضم کیا تھا چہ جائیکہ وہ علی اکبر ناطق کے ناول کو ہضم کرسکے ۔ اس ناول کے تاریخی نقائص اپنی جگہ پر لیکن فکشن کے باب میں یہ ناول اپنی ہی نوعیت کا اہم ترین اور گراں قدر کارنامہ ہے ۔

julia rana solicitors

امید کرتا ہوں کہ میری تنقید کو تنقیص سمجھنے سے گریز کرتے ہوئے ناول کو زیر بحث لایا جائے گا ناکہ علی اکبر ناطق کی ذات کو ۔۔
پس نوشت
عربی ادب میں واقعہ کربلاء سے متعلق فکشن ( ناول ، کہانی ، ڈرامے ، قصیدے ، رثائی نظم ) “ادبُ المَقتل” ۔ “الأدبُ الحسيني” امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والا وسیع تر ادبی رجحان ہے۔
ان دونوں اصناف ادب میں فکشن مصر، لبنان اور عراق میں تخلیق کیا گیا ۔
ادب المقتل یا الأدب الحسيني میں بہت سے نامور ناول نگاروں اور ادیبوں نے نمایاں کام کیا ہے۔ ان میں کچھ اہم نام درج ذیل ہیں:
1. عبدالرحمن الشرقاوی ۔ مصری ناول نگار اور شاعر، جنہوں نے امام حسینؑ کی زندگی اور واقعہ کربلاء پر “الحسين ثائراً” اور “الحسين شهيداً” جیسے معروف ڈرامے لکھے۔
2. عباس محمود العقاد ۔ مصری ادیب اور فلسفی، جنہوں نے امام حسینؑ کی شخصیت اور کربلاء کے واقعہ کو اپنی مشہور کتاب “أبو الشهداء: الحسين بن علي” میں بیان کیا۔
3. محمد علی شمس الدین ۔ لبنانی شاعر اور ناول نگار، جنہوں نے امام حسینؑ اور کربلاء کی تاریخ کو اپنے شعری مجموعات اور نثری کاموں میں جگہ دی۔
4. باقر شریف القرشی ۔ عراقی مؤرخ اور ادیب، جنہوں نے امام حسینؑ کی سیرت اور واقعہ کربلاء پر “حياة الإمام الحسين” جیسے اہم کام لکھے۔
5. جعفر الیعقوبی ۔ عراقی ناول نگار جنہوں نے واقعہ کربلاء اور اس کے اثرات پر اہم ادبی کام تخلیق کیے۔
اس حوالے سے لبنان کے معروف ادیب جرجی زیدان کا نام بھی بہت اہم ہے۔
جرجی زیدان کا مشہور تاریخی ناول “غادة كربلاء” ہے۔ یہ ناول واقعہ کربلاء کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اور امام حسینؑ کی شہادت اور کربلاء کے سانحے کو افسانوی انداز میں بیان کرتا ہے۔
یہ ادباء اور ناول نگار اپنے ادبی کاموں کے ذریعے امام حسینؑ کی قربانی اور کربلاء کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
مصر کے معروف ناول نگار نجیب محفوظ نے تاریخ کربلاء اور اس سے جڑے واقعات کے ساتھ براہ راست معاملہ نہ کرتے ہوئے ادبُ المَقتل کے بنیادی تھیم کو اپناکر ایک نہایت زبردست ناول لکھا “ملحمةالحرافيش”
نجیب محفوظ کا ناول “ملحمة الحرافيش” ظلم کے حوالے سے اسی صنف سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ناول سماجی ناانصافی، ظلم، اور معاشرتی طبقات کی کشمکش کو بیان کرتا ہے۔ “ملحمة الحرافيش” میں محفوظ نے ظلم و جبر اور غریب طبقے کی جدوجہد کو بہت عمدگی سے پیش کیا ہے، جو ایک طرح سے ادب المقتل کے موضوعات کی طرح ہے، جہاں ظلم کے خلاف مزاحمت اور قربانی کے موضوعات نمایاں ہیں۔
“ملحمة الحرافيش” نجیب محفوظ کا ایک مشہور اور شاہکار ناول ہے جس کا پلاٹ ایک خاندان کی نسل در نسل داستان کو بیان کرتا ہے۔ اس ناول میں ظلم، جبر، اور معاشرتی ناہمواریوں کا مرکزی موضوع ہے۔ پلاٹ کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
ناول ایک گمنام ہیرو عاشور الناجی کی کہانی سے شروع ہوتا ہے، جو ایک عام آدمی ہے اور اپنے اخلاقی اصولوں اور انصاف پسندی کی وجہ سے ایک لیڈر بن جاتا ہے۔ عاشور اپنی طاقت اور مقبولیت کو ظلم کے خلاف استعمال کرتا ہے اور غریب لوگوں کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کی کہانی اس کے خاندان کی کئی نسلوں پر محیط ہے، جس میں طاقت اور اقتدار کے ساتھ آنے والی بدعنوانی اور اخلاقی زوال کا ذکر ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، عاشور کے بعد آنے والی نسلیں اس کے اخلاقی اصولوں سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو کر ظلم اور جبر کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ناول میں اس خاندان کی ہر نسل کی جدوجہد، ان کی کامیابیاں، اور ان کے زوال کو دکھایا گیا ہے، جہاں ظلم، طاقت، اور لالچ کا کھیل بار بار دہرایا جاتا ہے۔
“ملحمة الحرافيش” کا مرکزی موضوع طاقت اور ظلم کے مابین تعلق اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت ہے۔ محفوظ نے اس ناول میں انسانی فطرت، طاقت کی ہوس، اور اخلاقی اصولوں کی اہمیت کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
اس ناول کے مرکزی کردار کا نام ہمیں صاف بتاتا ہے کہ اس کا تعلق واقعہ کربلاء سے جڑا ہوا ہے ۔
“ملحمة الحرافيش” میں کئی نمایاں کردار ہیں، جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کہانی کے مرکزی موضوعات جیسے ظلم، انصاف، اور طاقت کی کشمکش کو آگے بڑھاتے ہیں۔ چند اہم کردار درج ذیل ہیں:
1. عاشور الناجی: عاشور کہانی کا مرکزی اور سب سے اہم کردار ہے، جو اپنی اخلاقی اصولوں، انصاف پسندی، اور عوام کی حمایت کے باعث غریب طبقے کا ہیرو بن جاتا ہے۔ وہ ناول کی ابتدائی نسل کا ایک اہم اور بااثر فرد ہے، اور اس کا کردار پورے ناول کی بنیاد رکھتا ہے۔ عاشور کے اصول اور فلسفہ بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک معیار بنتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان سے انحراف ہوتا ہے۔
2. جنڈی الناجی:
عاشور کا بیٹا، جو اپنے والد کے اخلاقی اصولوں سے دور ہو کر اقتدار اور طاقت کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جنڈی کا کردار ناول میں اخلاقی زوال اور طاقت کے غلط استعمال کی ایک مثال کے طور پر سامنے آتا ہے۔
3. شمس الدین:
عاشور کے بعد آنے والی ایک اور نسل کا اہم کردار، جو اپنے خاندان کی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بھی اقتدار کی ہوس میں گرفتار ہو کر اپنے آباؤ اجداد کے اصولوں سے بھٹک جاتا ہے۔
4. یونس الناجی:
ایک اور نسل کا نمائندہ کردار، جو اخلاقی اقدار کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے زندگی گزارتا ہے اور طاقت اور اقتدار کے لیے اپنی انسانیت کو قربان کر دیتا ہے۔
5. فاطمہ:
عاشور کی بیوی، جو کہانی کے آغاز میں ایک نمایاں کردار ہے۔ فاطمہ عاشور کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور اس کے اصولوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کی فلاح و بہبود اور انصاف کے لیے جدو جہد کرتی ہے۔
6. شیخ محروس:
ایک مذہبی اور روحانی کردار، جو عاشور کے قریبی دوستوں میں سے ہوتا ہے۔ وہ سماجی انصاف اور اخلاقی اقدار کا پرچار کرتا ہے اور عاشور کی قیادت کو سپورٹ کرتا ہے۔
یہ کردار ناول میں طاقت، ظلم، اور انصاف کی کشمکش کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہر کردار اپنی جگہ ایک علامت ہے، جو انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں، جیسے لالچ، اخلاقیات، اور مزاحمت کو ظاہر کرتا ہے۔
ادب المقتل یا الأدب الحسيني پر مختلف ناقدین نے اہم تبصرے اور آراء پیش کی ہیں، جن میں اس صنف کے فکری اور جذباتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چند معروف نقادوں کے اقوال درج ذیل ہیں:
1. الدکتور صلاح عبد الفتاح الخالدی ۔ “ادب المقتل میں ہمیں ایک ایسی داستان نظر آتی ہے جو نہ صرف تاریخ کو بیان کرتی ہے بلکہ انسانی جذبات اور فکری تحریک کو زندہ کرتی ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی اور مزاحمت، انسانی روح کی آزادنہ جدوجہد کی علامت ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔”
2. الدکتور حسین عطوان ۔ “کربلاء کا واقعہ ادب میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ واقعہ نہ صرف ایک تاریخی سانحہ ہے بلکہ یہ ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا استعارہ بن چکا ہے۔ الأدب الحسيني نے اس واقعے کو معاشرتی انصاف اور اخلاقی قدر کے میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔”
3. یحییٰ الجمل ۔ “الأدب الحسيني نے عربی ادبیات کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا، جہاں شہادت کا تصور صرف مذہبی عقائد تک محدود نہیں رہا بلکہ انسانی عظمت اور خودداری کی علامت بن چکا ہے۔ اس ادب میں اخلاقی جدوجہد اور انصاف کی محبت کو ایک منفرد طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔”
4. الدکتور مصطفی جمال الدین ۔ “امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی کو ادب میں جگہ دینا دراصل اخلاقی، فکری اور سماجی بیداری کی علامت ہے۔ ادب المقتل نے مسلمانوں کو اس بات کا شعور دیا کہ حق اور باطل کی جنگ میں غیر جانبداری ممکن نہیں۔”
5. الدکتور عبدالجبار الرفاعي ۔ “ادب المقتل عربی ادب میں ایک گہری فکری اور اخلاقی تحریک کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے صدیوں سے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں انصاف کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ یہ ادب، کربلاء کے پیغام کو نسل در نسل منتقل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔”
یہ اقوال ظاہر کرتے ہیں کہ ادب المقتل اور الأدب الحسيني کو صرف ایک ادبی صنف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اسے ایک فکری، سماجی، اور روحانی تحریک کے طور پر بھی اہمیت حاصل ہے۔
عربی میں مقتل ادب کی صنف میں ناول نگاری کرنے والے خوش قسمت تھے انھیں کسی نے “شیعہ ” قرار دے کر رد نہیں کیا اور ان کے فکشن کو بھلادیے جانے کی کوشش نہیں کی ۔ لیکن اردو کے ادیب اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply