معلمِ اخلاق/حیدر جاوید سید

مجھے فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا، اتوار کے دن فلم دیکھنا واجب رہتا، پھر ایک دن لیرک سینما کراچی میں مجھے ایک بزرگ ( اکبر رضاصاحب ) ملے ،انہوں نے بہت شفقت سے دریافت کیا بیٹا آپ کیا کرتے ہو؟

عرض کیا نصرت الاسلام ہائی اسکول میں دہم کا طالبعلم ہوں اور ایک اخبار کے بچوں کے صفحہ میں کام کرتا ہوں
والدین ؟
عرض کیا ملتان میں رہتے ہیں
میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بیٹا گو میں خود بھی ہراتوار کو فلم دیکھتا ہوں آپ کو پہلے بھی کئی بار مختلف سینماؤں میں دیکھا ہے۔

طالبعلم ہو فلموں پر محنت کی کمائی برباد کرنے کی بجائے کتابیں پڑھا کرو، فلم دواڑھائی گھنٹوں میں  ختم اور 6 روپے ( تب گیلری کی ٹکٹ 6 روپے کی آتی تھی ) بھی ختم ۔

آپ ایسا کرو اگلی اتوار کو فلم دیکھنے کی بجائے مجھے بارہ بجے ریگل بس اسٹاپ پر ملنا،پتہ نہیں کس بات نے مجھے ان سے وعدہ کرنے اور ملاقات پر مجبور کردیا، میں اگلی اتوار کو دوپہر بارہ بجے ریگل بس اسٹاپ پر پہنچا ،بزرگ وہاں پہلے سے موجود تھے، مجھے دیکھتے ہی شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
یقین تھا کہ آپ آؤ گے ۔

عرض کیا وعدہ جو کیا تھا

اکبر صاحب نے دریافت کیا
آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں ؟
17 روپے ۔
کہنے لگے 7 روپے مجھے دے دو ۔

میں نے سات روپے ان کے ہاتھ پر رکھے وہ مجھے ساتھ لیے ریگل بس اسٹاپ پر قائم بک اسٹال کی طرف بڑھے اور انہوں نے وہاں سے آغاشورش کاشمیری کی کتاب ” شب جائے کہ من بودم ” اور “حکایاتِ سعدی ” خریدیں اور مجھے ہمراہ لیے کیفے جارج کی طرف بڑھے ۔

کیفے پہنچ کر انہوں نے کھانے کا آرڈر دیا اور پھر میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے وہ دونوں کتابیں عنایت کیں، میں نے کہا سر یہ کتابیں تو 16 روپے کی ہیں۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگے کتابوں کے باقی پیسے اور کھانا میری طرف سے اس بات کا انعام ہے کہ آپ نے وعدہ خلافی نہیں کی حسب وعدہ مقررہ وقت پر ملنے آگئے ، البتہ اب ایک وعدہ کرو ۔

جی حکم کریں۔۔
بولے حکم نہیں بس یہ کہنا چاہتا ہوں دو ہفتے فلمیں دیکھنے کی بجائے پیسے جمع کرکے کتاب خرید لیا کرو کتاب آپ کی ملکیت رہیگی جب دل کیا پڑھ لی ۔

نجانے ان کے لہجے میں ایسی کیا بات تھی کہ میں نے بے ساختہ کہا
سر وعدہ رہا آئندہ فلموں پر پیسے ضائع کرنے کی بجائے کتاب خریدا کروں گا۔

کھانہ کھانے کے بعد انہوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا سیدزادے ہو وعدہ پہ قائم رہنا ۔ عرض کیا انشااللہ سر

یہ بجا ہے کہ فلمیں اس کے بعد بھی دیکھیں دوستوں کے ساتھ یا کسی فلم ساز اور سینما مالک کی دعوت پر لیکن کتاب خریدنا اولین ترجیح رہی۔ مجھ سمیت بہت سارے دوستوں نے کتب بینی کے شوق میں ایک دو وقت کی بھوک برداشت کرلی مگر کتاب ضرور خریدی۔

میں جب بھی کتب خرید کر گھر واپس پہنچ کر کتاب پڑھنے لگتا ہوں تو مجھے میرے مربی و محسن جناب اکبر رضا یاد آجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تب بے اختیار آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے مجھ سے نالائق کو انسان بنانے میں ان کا بھی حصہ ہے، میں نے ہمیشہ انہیں معلم اخلاق کے طور پر یاد رکھا آج عالمی یوم معلمین کی مناسبت سے اپنے اس کتاب دوست اور علم پرور بزرگ جناب اکبر رضا مرحوم کی خدمت میں سر جھکا کر سلام و آداب پیش کرتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply