میڈیا کی نئی سہولیات اور لیڈروں کے سطحی پن کی وجہ سے اب یہ تو سمجھ سے باہر ہے کہ میاں چنوں یا فیصل آباد یا اٹک کا کوئی نون لیگی یا عمرانی کارکن اپنے لیڈر کی تقریر کیوں سننے آئے گا۔ تقریر میں ایک ہی گھسی کیسٹ چلائی جاتی ہے۔ وہی نعرے، وہی بونگا پن، وہ چہرے اور وہی دعوے۔
سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر ’’اپنا احتجاج ریکارڈ‘‘ کرنے کا تصور بھی ہمارے معاشرے میں کبھی نہیں تھا۔ بس کمزور سے ترقی پسند گروپ ہی چھوٹے موٹے جلوس شرمندگی بھری تعداد کے ساتھ اور پُرامن سادگی سے کیا کرتے تھے، لیکن رینٹ اے کراؤڈ کا کام بھی ان ترقی پسند کارکنوں کی بنائی ہوئی این جی اوز نے شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ انسانی حقوق اور بھٹہ مزدوروں وغیرہ کی یونینز کے ’’مظاہرے‘‘ کی ویڈیو ضرور بنا کرتی تھی۔ اِسی بنیاد پر فنڈز ریلیز ہوتے تھے۔
اب یہ رینٹ اے کراؤڈ کا فارمولا بڑی بڑی جماعتوں نے پوری طرح اپنا لیا ہے۔ بس ماسوائے سندھ میں پیپلز پارٹی، اور مذہبی جماعتیں اِس سے کافی حد تک پاک ہیں، اور مہ رنگ کے ساتھی تو ہرگز ایسے نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے جلسے میں دس ہزار لوگ آئیں اور فی بندہ دو ہزار دیا جائے تو دو کروڑ خرچ آتا ہے۔ جلوس میں دو ارب مالیت کی تو گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں۔
سیاسی سرگرمی کی بنیاد مزدور انجمنیں، طلبہ تنظیمیں، پیشہ ورانہ محکمانہ تنظیمیں وغیرہ ہوا کرتی تھیں جو اب سب کی سب ختم یا غیر فعال ہو چکی ہیں۔ واپڈا اور ریلوے کی متعدد یونینز تھیں، کلرکوں کی یونین ایپکا ہوا کرتی تھی، ٹیچرز ایسوسی ایشن کے علاوہ پی ایس ایف، ایم ایس ایف وغیرہ سبھی فوت کر دی گئیں تاکہ رینٹ اے کراؤڈ کی ہی آپشن رہ جائے۔

اب جو طلبہ کے گروپ ہیں وہ بھی طلبہ کے مسائل (مثلاً ایچ ای سی کی تصدیق بازی) پر بات کرنے کی بجائے سیدھا آئین سے لڑنے نکل جاتے ہیں۔ جبکہ ترقی پسند گروپ اب ادبی اور ثقافتی میلوں کی بوریت تک ہی محدود ہیں۔ بات اُن کے بس سے باہر ہو چکی ہے۔ معاشروں کی وفات ایسے ہی ہوا کرتی ہے۔ یہ سب اُسی کی نشانیاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں