• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دھرنا، مینڈیٹ چوری اور مجوزہ آئینی ترامیم/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

دھرنا، مینڈیٹ چوری اور مجوزہ آئینی ترامیم/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

کیا واقعی عوام کا مینڈیٹ چوری کر کے حکمرانی کی جاتی ہے؟ کوئی صاحبِ ضمیر اور قانون کا پاسدار شخص ایسی حکومت کو جائز تصور کر سکتا ہے؟ باشعور اور باوقار حکمران ایسی حکومت پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن شرم و حیا سے عاری، نام نہاد حکمرانوں میں ان اقدار کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی بے ضمیر حرکتوں کو جواز فراہم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت مجوزہ ائینی ترامیم پر زور دے کر فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا راستہ ہموار کر رہے ہیں ۔اب پارلیمنٹ کے فلور پر انسانوں کے  ضمیروں کی   منڈی لگے گی۔

آج میڈیا پر شور مچایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی دھرنے دے رہی ہے، جلسے کر رہی ہے۔ لیکن کیا کبھی اس سوال کا جواب تلاش کیا گیا ہے کہ عوام کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیوں وہ اپنے حقوق کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر سڑکوں پر نکلتے ہیں؟ عوام کے پاس کیا دھرنے اور احتجاج کے علاوہ کوئی اور راستہ بچا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، جس کا جواب وہ لوگ دینے سے قاصر ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر قانون و آئین کو معطل کرنے کے  خواب دیکھتے ہیں۔

جب اس ملک کے اصل حکمران عوام ہیں، تو وہ کیوں نہ آواز بلند کریں؟ یہ ان کا آئینی حق ہے۔ یہ حق انہیں کسی نے بخشا نہیں، یہ ان کا  بنیادی آئینی حق ہے، جو کسی بھی طاقتور کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ جب ریاست کے وہ خادم جو خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں، عوام کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس ملک کی آزادی کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔ جب عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے، ان کے حقوق کو سلب کیا جاتا ہے، تو یہ سراسر ظلم و جبر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

مگر یاد رکھیں، جب تک اس ملک میں آئین اور قانون کا وجود باقی ہے، حق اور سچ کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔ یہ آواز عوام کی طاقت ہے، اور یہ وہی عوام ہیں جن کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکمرانوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کے خدمتگار بنیں، نہ کہ ان پر مسلط کردہ حکمران۔

آج، ملک کا ہر ادارہ، چاہے وہ حکمران اشرافیہ ہو، بیوروکریسی ہو، پولیس ہو یا کوئی اور  دراصل عوام کے خادم ہیں۔ ان کا اولین فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کریں۔ اگر وہ قانون سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھاتے ہیں، تو یہ صرف عوام کے حقوق کی پامالی ہے، اور یہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔

وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے حالیہ دھرنے کے دوران اسلام آباد اور راولپنڈی کے راستے بند کر دیے ہیں، اور مکینوں کو اپنے گھروں میں محصور کر دیا ہے۔ کیا یہ کسی جمہوری حکومت کا طرزِ عمل ہو سکتا ہے؟ عوام کو ان کے گھروں میں قید کرنا، ان کے بنیادی حقوق سلب کرنا، ایک حکومت کے فسطائی رجحانات کا مظہر ہے۔

دھرنے کے شرکاء پر آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور کیمیکل  سپرے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے جیسے ملک پر کوئی دشمن حملہ آور ہو رہا ہو۔ کیا عوام جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، حکومت کے لیے اتنے خطرناک ہو گئے ہیں کہ فوجی طاقت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے؟ حکومت کو کس بات کا خوف ہے؟ عوام کی آواز کا؟ یا ان کے آئینی مطالبات کا؟

عمران خان پر گھڑی چوری، سیکرٹ سائفر، عدت میں نکاح، اور القادر ٹرسٹ جیسے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں، جو بظاہر سیاسی انتقام کا حصہ ہیں۔ جو شخص ریاستِ مدینہ کے قیام کا نظریہ رکھتا ہو اور نبی کریم ﷺ کی محبت اور تعلیمات کا درس دیتا ہو، اس پر ایسے گھٹیا الزامات لگانا پوری قوم کی توہین ہے۔

آج عمران خان کی بہنیں، بھانجا اور اہلیہ بھی اسی بے گناہی کے جرم میں قید ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ حکومت نو مئی کے واقعات کو دہرانے کی سازش کر رہی ہے، اور دھرنے پر آپریشن کے پردے میں عوام کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ حکومت نے جھوٹا بیانیہ گھڑ لیا ہے کہ 120 افغان شہری دھرنے میں شامل تھے، لیکن یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس دوران، حکومت نے دھرنے کا میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا ہے تاکہ عوام کو حقائق سے محروم رکھا جا سکے۔

فسطائی حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا، بجلی کو بار بار بند کیا جا رہا ہے، اور میڈیا کو خاموش کروا دیا گیا ہے۔ حکومت کے ہر فیصلے میں جبر اور ظلم کی جھلک نظر آتی ہے، اور عوام کو حقائق کے برعکس معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ عوام کو سچائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔

کیا ہی بہتر ہوتا اگر عوام کو خود فیصلہ کرنے دیا جاتا، ان کے حقِ انتخاب کا احترام کیا جاتا۔ آج ہمیں یہ عالمی رسوائی نہ اٹھانی پڑتی۔ شنگھائی کانفرنس اور ملائیشیا کے وزیراعظم کے سامنے یہ حکومت شرمندہ نہ ہوتی۔

آخر حکومت آئینی ترامیم کی بات کیسے کر سکتی ہے جب کہ خود پر دھاندلی کا الزام ہے؟ جب کہ ان کے اپنے حامی ناکامی اور دھاندلی کی گواہی دے چکے ہیں؟ کیا یہی جمہوریت ہے کہ عوام کے حقوق سلب کر کے، ان کی آواز دبانے کے لیے فوج طلب کی جائے؟

یہاں معاملہ کسی ایک پارٹی کا نہیں، بلکہ عوام کے آئینی حقوق کا ہے۔ اگر علی امین گنڈا پور یا کوئی اور رہنما اپنے صوبے کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں، تو کیا یہ ان کا آئینی حق نہیں؟ دھرنا دینا، احتجاج کرنا عوام کا حق ہے، اور کسی بھی جمہوری معاشرے میں اس حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آزادی کی راہ میں جبر و ظلم کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ عوام کو بے وقوف بنا کر ان کے مستقبل کے فیصلے نہیں چھینے جا سکتے۔ کیا یہ جمہوریت ہے یا آمریت کی بدترین شکل؟

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply