موجودہ دور کے زیادہ تر محققین کی رائے کے مطابق ایرانی مذہب زرتشت مت نے اپنے بعد میں آنے والے مذاہب پر گہرے اثرات مرتب کیے، یہودی ، عیسائیت، مہایان بدھ مت مانی مت اور اسلام فریڈ رک نطشے کی زرتشت نے کہا’ نے بھی مغربی فکر پر بہت اثر ڈالا، اگر چہ اس کا زرتشت یا زرتشت مت سے کوئی تعلق نہیں۔
روایت کے مطابق سپتا ما خاندان میں جنم لینے والا زرتشت واحد ایسا بچہ تھا جو پیدا ہوتے ہی مسکرایا۔ اس کا دور 1400 تا 1200 قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور کا تعین کرنے کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ تب تک ایران میں فن تحریر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ بعد میں جب فن تحریر وجود میں آگیا تو زرتشت کے پیروکاروں نے اسے الوہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں زرتشت مت کی اولین تحریر یں کہیں 500 تا 400 ق ۔ م میں ہی جا کر وجود میں آئیں، جب مذہب ایک ہزار سال پرانا ہو چکا تھا۔ نیز ان تحریروں کی زبان اوستائی ( جسے بعد میں ژیند کا نام دیا گیا) کافی حد تک قدیم فارسی جیسی تھی ۔ یہ زبان 1500 سال پہلے متروک ہو چکی ہے۔
چنانچہ تفاسیر اور تراجم میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ محققین اور دانشوروں نے اپنے ایک خوف کے باعث اسے مزید بگاڑ ڈالا ۔ زرتشت مت کے مطابق کا ئنات میں خیر کے ساتھ ساتھ شر بھی ابتدائے آفرینش سے موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ تحریریں تقریباً 1200 ق ۔م کی ہیں اور کچھ دیگر 800 تا 600 قبل مسیح کی ۔ زرتشت مت دو عظیم سلطنتوں کا سرکاری مذہب تھا’اکیمینی (559) تا 323 ق م ) جس کا خاتمہ سکندر نے کیا ؛ اور ساسانی (226 ق ۔ م تا 650 ء ) جو اسلام کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوا۔
زرتشت مت کی عظیم لادینی کے پیروکار دیوتائے زماں زروان (Zurvan) کی عبادت کرتے تھے۔ ہمارے پاس موجود قدیم ترین مسوده 1323 عیسوی میں لکھا گیا تھا۔ زرتشت نے صرف گاتھا یعنی بھجن تصنیف کیے تھے جو خالصتاً شاعری ہیں ۔ اوستائی تحریریں دینیاتی حوالے سے زیادہ مستند ہیں، لیکن اس میں ساسانی دور کی پہلوی تحریروں سے بہت کچھ شامل کیا گیا۔ نویں اور دسویں صدی عیسوی کی تحریر میں اپنے سے پہلے کی تحریروں پر قابل قدر روشنی ڈالتی اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ مذہب نے کن خطوط پر ترقی کی ۔ مثلاً Dinkard اوستا کا ایک خلاصہ ہے؛ بنداہشن (Bundahishn) میں تخلیق کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ مقدس صحائف خالصتاً اوستا گاتھا (بھجن) ، کتاب عبادات ( کھوردا اوستا ) و سپراد اور قانونی وطبی ویندی داد پر مشتمل ہیں ۔ اعتقادات کا یہ عمیق اور پیچیدہ مجموعہ زرتشتیوں کی تعداد نہایت قلیل رہ جانے کے باوجود معدوم نہیں ہوا ۔ انہوں نے اسلام کی سرفرازی کے دور میں بہت بُرے دن دیکھے ۔ انجام کار انیسویں صدی کے وسط میں زرتشت مت کے سچے پیروکار Manekji Limji Hataria نے کچھ کامیابی حاصل کی اور اپنے ہم مذہبوں کو تحفظ دیا ۔ جدید زرتشتیوں کا بڑا حصہ پارسیوں (فارسیوں ) پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر ممبئی میں کافی وقار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن تقریباً 12,000 پارسی عراق اور کچھ مزید ایران میں ۔
اس وقت پارسیوں کی کُل تعداد ڈیڑھ لاکھ سے کم ہے اور ان کے زرتشت مت میں دوئی (خیر اور شر کی دوئی ) کا شائبہ تک بھی موجود نہیں۔ لیکن زرتشت نے یہودیت اور عیسائیت میں اپنی راہ نکالی۔ ان دونوں مذاہب میں شیطانی اور لادین قرار دیے گئے فرقے اس کے اثر کی پیداوار ہیں۔ عیسائیت میں ان کا قلع قمع کرنے کے لیے 1232ء میں پہلی مرتبہ عدالت احتساب سرکاری طور پر متعین کی گئی ۔
مشرقی ایران کے سیتپی علاقے کا مذہبی پیشوا ، شاعر، پیش بین اور پیغمبر زرتشت خود کو وراثت میں ملنے والے کثرت پرست مذہب کا ایک مصلح تھا۔ یہ نام نہاد قدیم ایرانی مذہب مبہم ہے اور ہم صرف قیاسی بنیادوں پر ہی اس کے خدو خال کا اندازہ کر سکتے ہیں، اگر چہ رگ وید اس کے بارے میں انمول رہنمائی کرتا ہے۔ زرتشت کی اپنی الہیات کو Zarathustrianism قرار دیا جاتا ہے تاکہ اسے Zoroastrianism سے تمیز کیا جا سکے ۔ موخر الذکر مذہب کو سیاستدانوں نے ایک ہزار سال تک اپنائے رکھا کیونکہ یہ ان کے مقاصد پورے کرتا تھا۔
دراصل مذاہب سیاسی کامیابی حاصل کرتے ہی اپنی عین اُلٹ صورت اختیار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ زرتشت کی الہیات مختصراً یوں ہے: دیوتا اہورا مزدا ( یہ نام ویدوں میں کہیں نہیں ملتا، لیکن غالباً یہ ویدک دیوتا ورونا کی ہی تبدیل شدہ صورت ہے ) ہمیشہ سے موجود اور غیر مخلوق اچھائی (خیر ) ہے جس نے کائنات تخلیق کی لہذا کائنات بھی سراسر خیر ہے ۔ دوسری طرف شرانگرا مینیو ( جسے بعد میں اہرمن کہا گیا ) بھی غیر مخلوق اور اہورا مزدا کی ازلیت میں شریک ہے۔ لیکن ہر انسان اپنے دل سے انگرا مینیو کے خلاف اہورا مزدا کی مدد کا فرض لازماً اختیار کرتا ہے۔ کافی پیچیدہ تفصیل کا حامل یہ اعتقاد اور ساتھ ہی اخلاقی نظریات متاثر کن نثر میں بیان کیے گئے ہیں۔ مسیح کے عہد کی دنیا میں یہ اعتقاد نہایت طاقتور تھا اور تقریباً 500 برس قبل کے ارسطو اور افلاطون بھی اس کے بارے میں آگاہ تھے۔
زرتشت نے بذات خود ایک ولی کے طور پر داستانی شہرت حاصل کی ۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے فیثا غورث کے ساتھ مطالعہ کیا تھا۔ زرتشت کے دعوؤں اور تحریری ریکارڈ کے درمیان تقریباً ڈیڑھ ہزار برس کا فاصلہ ہونے کے باوجود عمومی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کا پیغام حیران کن استناد کے ساتھ محفوظ رکھا گیا ۔ پیغمبر کہتا ہے، زمین کو ٹھہرائے رکھنے اور آسمان کو گرنے سے روکے رکھنے والا کون ہے؟ کس صناع نے دن اور راتیں بنائیں؟“ تاہم ؟ زرتشت کی وفات کے بعد متعدد پرانے ایرانی دیوتا دوبارہ ظاہر ہو گئے ۔ ان کی حیثیت اہورا مزدا والی نہیں بلکہ مذاہب عالم میں نمودار ہونے والے اولین فرشتوں کی تھی ۔
اس پر وہت کے پیروکاروں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اسی طرح مسیح کی بات بھی نہ سنی گئی ۔ اس نے سفر اور پر چار کیا ۔ اس حوالے سے کئی حکایات موجود ہیں۔ اور آخر کار اسے ایک اور ایرانی سلطنت میں ایک بادشاہ وشتاسپ مل گیا جس نے اس کی بات غور سے سنی ۔ قصے کے مطابق زرتشت نے وشتاسپ کے گھوڑے کا کامیاب علاج کر دیا تھا۔ کئی نشیب وفراز کے بعد زرتشت کے وحدانیت پرست مذہب نے سرکاری حیثیت اختیار کر لی اور تیزی سے پھیلنے لگا۔ زرتشت نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی تعلیمات اپنے دوست اہورا مزدا سے براہ راست وصول کی ہیں ۔ اس نے خوش امیدی کے ساتھ تبلیغ کی کہ زمانے کے اختتام پر نیکی فاتح ہوگی ۔ یوں اس نے پہلی مرتبہ نظریہ معادیات (Eschatology) یعنی قیامت کا تصور مذہبی فکر میں متعارف کروایا۔ لیکن دریں اثناء انسان خیر و شر میں سے ایک کو منتخب کرنے کو آزاد تھے اور ان کا حساب ان کی منتخب کردہ راہ کی نہایت داخلی نوعیت پر ہی منحصر تھا ۔ ( در حقیقت اختتام ایک آغاز ہے۔ آخر کار دنیا کو شر سے پاک کر دیا جائے گا ) مرضی یا انتخاب کی آزادی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آشا کے راست باز راستے پر چلنے کی آزادی جو زرتشت مت میں ہر جگہ موجود تصور ہے۔
ہندی، ایرانیوں کے دیوتاؤں کو زرتشت نے متشدد اور اخلاقیات سے عاری قرار دے کر مسترد کیا۔ اس نے اور اس کے پیروکاروں نے ان دیوتاؤں میں حملہ آوروں کی تباہ کن طاقتیں دیکھیں جو علاقے کے عوام کی پر امن خانہ بدوش زندگی کے لیے ہر وقت خطرہ بنے رہتے تھے۔
چنانچہ گھوڑے اور جو گائیں اہم تھیں، اور گائے کی آہ و زاری زرتشتی شریعت میں ایک مشہور اقتباس ہے ۔ گائے جھوٹ کی قوتوں کے باعث تکلیف اٹھا کر ڈکراتی ہے، اور اہورا مزدا اور اس کے معاونین ( امیشا اور سپینتا ) نے زرتشت کو اس کی حفاظت پر مامور کیا ہے۔ لیکن گائے اس بات پر خوش نہیں : وہ اسے ایک کمزور انسان سمجھتی ہے۔ ( کیا میں ایک بے طاقت رکھوالے، نا تواں شخص کو برداشت کرلوں جبکہ مجھے ایک طاقتور حکمران کی ضرورت ہے؟“)
چنانچہ یہ راستبازی کی جستجو میں روح کی تکالیف کا ایک استعارہ ہے۔ اس میں روح کی ناتوانی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اور دیگر بھجن ( گاتھائیں ) ہومر سے کئی سو سال پہلے کے ہیں ، اور یہ اپنی نفسیاتی و مابعد الطبیعیاتی پیچیدگی میں کہیں زیادہ قابل ذکر ہیں۔
زرتشت کی تعلیمات اس کے معاشرے کی عکاس ہیں جس میں گڈریے ظالم اور لاقانون خانہ بدوشوں کی لوٹ مار کے خلاف ایک باقاعدہ زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے تھے (ان حملہ آوروں کے اثر کو ہر گز کم اہمیت نہیں دی جا سکتی )، لیکن یہ ایک اخلاقی اور باطنی عنصر کی حامل بھی ہیں جو تاریخی سوچ بچار سے ماورا ہے ۔ وہ صرف اپنے دور، علاقے اور قبیلے کی اقدار کو ہی تحفظ نہیں دینا چاہتا۔ وہ پر امن اور خونیں قربانی کے خلاف تھا۔ اس کے نظام فکر میں کسی شخص کا حساب اس کی موت کے بعد Chinvat پل پر کیا جاتا ہے۔ یہ حساب کتاب تین فرشتے متھرا، سروش اور رشنو لیتے ہیں۔ نیک و بد اعمال اور خیالات و افکار کو بھی تو لا جاتا ہے۔ اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو تو روح کو پل سے گزار کر جنت میں لیجایا جاتا ہے، اور اگر بد اعمال زیادہ ہوں تو روح کو ایک بتدریج تنگ ہوتے ہوئے راستے سے پل تک لیجایا جاتا ہے اور آخر کار وہ پھسل کر تکالیف بھرے پاتال میں جا گرتی ہے۔
لیکن جب دنیا سے برائی کے عظیم خاتمے کا موقع آتا ہے تو سارے انسان سفید گرم دھات کے وسیع دریا کو پار کر کے تطہیر پاتے ہیں، اور صرف دونوں دنیاؤں کے بہترین افراد ہی خود کو سچا ثابت کر پاتے ہیں۔ بعد کی زیادہ مستند توضیحات میں کہا گیا تھا کہ اہورا مزدا نے دنیا تخلیق کرتے وقت تمام انسانوں کی فروشیوں (الی ارواح) سے مشورہ کیا تھا کہ کیا وہ مادی صورت اپنانا چاہتی ہیں یا نہیں : انہوں نے ایک طرف کھڑے رہنے کی بجائے برائی کے خلاف جنگ میں مادی صورت اختیار کرنے کی راہ منتخب کی ۔
ایک زرتش معبد
چنانچہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں نے بھی اپنے مختلف نظریات حاصل کیے ۔ جنت اور دوزخ ، موت اور حیات بعد الموت اور شرکی کی فطرت کے متعلق عقائد ۔ زرتشت مت کے مطابق مستقبل میں ایک کنواری کے بدن سے ایک نجات دہندہ جنم لے گا، وہ پیغمبر کی اپنی نسل میں سے ہوگا ( اس کا تخم کرشماتی طور پر ایک جھیل میں محفوظ ہے اور اب بھی وہاں چمک رہا ہے ) ۔ غالباً یہودی مسیحا اور عیسائیوں کے یسوع مسیح کا مآخذ یہی ہے ۔ chinvat پل پر حساب کتاب کی نوعیت کا انحصار بنیادی طور پر آشا پر ہے۔ آشا کا ترجمہ ایک لفظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس کا مفہوم چیزوں کا فطری انداز لے سکتے ہیں ۔ ایک ایسا تصور جس میں رحمدلی ،کریم نفسی ،نظم دنیا اور کافی کچھ شامل ہے ۔ آشا کا متضاد دروج (Druj) یعنی بد نظمی ہے جو اکثرنظم کے طور پر نظر آتا ہے۔ نظم کے بھیس میں اس بد نظمی کو فرانز کافکا کے دی ٹرائل اور دی کاسل ناولوں میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ دی کاسل میں مئیر اصرار کرتا ہے کہ فائلوں کی نا قابل درستی بے ترتیبی کی تہہ میں بھی ایک ترتیب کارفرما ہے۔ موجودہ دنیا کے ہر ٹاؤن ہال میں عین یہی منظر نظر آتا ہے۔ اس سب پر کلرکوں کا اختیار ہے۔ انجام کار، دیگر تمام مذاہب کی طرح زرتشت مت نے بھی اپنی تردید خود ہی کر دی: رشوت خور پجاریوں نے اسے ریاستی مذہب بننے کے لیے موزوں صورت دی اور یوں اپنے حکمرانوں کا دنیا میں بول بالا کیا۔ لیکن اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ زرتشت مت کا بانی انسانیت پسندی اور دانائی رکھتا تھا اور اس کے کچھ جانشین بھی۔ پہلوی ادوار میں اہورا مزدا غیر معلوم ہونے کی تمنا کرتا ہے اگر وہ مجھے جان گئے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرے گا۔ یہ حقیقت پسند خدا غیر معلوم غنا سطی خدا کی پیش بینی کر رہا ہے جو خالق سے مختلف ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں