تاریخی تحریر کی اپنی حدود، اور میکانزم ہوتی ہیں، جو دستاویزات اور اس عہد کی مطابقت پر لکھی جاتی ہے، جب کہ ناول نگاری تخیٰل پر مبنی ایک کھلی یادداشت ہے، اور اس تخیّل کے شعبے میں جو لوگ غوطہ لگاتے ہیں، وہ حقیقتاً مؤرخ کا کردار ادا نہیں کر سکتے، وہ تاریخ میں کرداروں کو گلیمرائز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے تاریخ میں ان کرداروں کی حقیقی حیثیت بدل جاتی ہے۔ ایسے تمام تاریخی ناول اٹھا کر دیکھ لیں، ان میں کردار، مقامات اور مختلف عہد میں ان کے کیے گئے فیصلوں کی حیثیت نا صرف بدل جاتی ہے، بلکہ متنازع بھی ہو جاتی ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ تاریخ کا تعلق عام حقائق سے ہے، نہ کہ جزوی اور معمولی حقائق سے، اس لیے تاریخ کا میدان تخیّل کے میدان سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ تخیّل کا میدان علیحدہ ہونے کی وجہ سے تعریف کے امر واقعہ کی حیثیت کو بدل دیتا ہے، جبکہ مؤرخ کی دلچسپی مخصوص تاریخی حقائق پر مبنی تاریخی مواد کی تشکیل میں ہے اور یہ ممکن ہوتا ہے کہ اکثر مؤرخ بھی تاریخ کو اس عہد کے مطابق سمجھنے کے بجائے حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا حال کے تناظر سے تقابلی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
جبکہ تخیّل ، تاریخ کے بیانیہ کو اپنے تخیّلی مواد سے فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ ماضی کے واقعات کے ساتھ تخلیقی تعلق کو جوڑ دیتا ہے، جہاں وقت اور مقامات میں ایک توسیع آ جاتی ہے، تخیّلاتی بیانیہ تاریخی بیانئے میں رائے کا حوالہ یا بنیاد تو بن جاتا ہے، وہ فرضی یا حقیقی کرداروں کو شامل کرتا ہے، اور ان کرداروں کا ایک فرضی مکالمہ پیش کرتا ہے۔ جو حقیقت میں تاریخی حوالے سے میل نہیں کھاتا، کیونکہ وہ صرف محض حقائق کا ذکر تو نہیں کر رہا، اس لیے اصل حقائق اپنی حیثیت گم کر جاتے ہیں، تاریخ لکھنے میں تو یہ ایماندارانہ تقاضا ہے کہ وہ اصل حقائق سے میل کھائے، بلکہ ماضی اور حال سے مطابقت رکھنے والے اسباق اور ان کے درمیان علامتی مماثلتوں کو تلاش کرنا ہے، تاکہ کم از کم حقیقی تاریخ ‘تاریخی تخیل کے قریب تو آ جائے۔ ہمارے ہاں بہت سے ناول بنیادی طور پر تاریخ کے حوالے سے لکھے جاتے ہیں اس لیے ناول اور تاریخ کے درمیان ایک تعلق کی موجودگی کو مینج کیا جا سکتا ہے، باوجود کہ ان کے درمیان ایک فرق موجود رہتا ہے۔ کیونکہ “تاریخی ناول ” کی اصطلاح بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے، جن کا آغاز ہی صنفی مسئلہ ہے۔ کیونکہ تاریخ ایک مفید گفتگو ہے جو سچائی کو بیان کرتی ہے، جبکہ ناول اپنی ابتداء میں ہی ایک جمالیاتی گفتگو ہے۔ جس میں ساختی فعل کو حوالہ جاتی فعل پر فوقیت حاصل ہے۔
تاریخ کو مصلحت کے خیال اور سچائی کے خیال سے جوڑنے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے بتانے کے باوجود متعدد اہل قلم ایسے ہیں جو تاریخ اور تخیل کو جوڑتے ہیں، اور اپنے تئیں ایک تاریخی داستان تشکیل دیتے ہیں، اور حقیقتاً تاریخ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اس افسانے کے برخلاف ہوتی ہے، جو ناول کی خصوصیت میں پیش کی جاتی ہے، ویسے بھی تاریخ میں خبریں ہوتی ہیں، اور خبریں بھی متضاد آراء و تاریخی حوالوں سے بھری ہوتی ہے تو یہ تاریخ و تخیل کا تعلق الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ کہانیاں جو خیالی لگ سکتی ہیں، خاص طور پر جب یہ قدیم زمانے سے متعلق ہوں، اور جب اس پر مبنی تاریخی ناول اپنے تئیں ماضی کی حقیقت سے مراد ہو’تس ہے۔ تاریخ اور ناول کے درمیان ایک ربط ہوتا ہے، خواہ پوشیدہ ہو یا ظاہر، اور ان کے لکھنے والا ان کے درمیان متعدد روابط قائم کر سکتا ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ دونوں بنیادی طور پر ڈسکورس ہیں، اس کے بعد یہ حقیقت ہے کہ وہ بیانیہ گفتگو ہیں یا بیانیہ کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ مگر کتنی حقیقت ہے، یہ بات بہرحال گم ہوجاتی ہے۔ لکھاری اگر صرف تخیل کی بنیاد پر تحریر لکھے تو یہ یاد ہوگا اگر تو اسی درجے میں محقق ہوا تو ناول اور تاریخ کے درمیان ایک ربط ضرور قائم کر سکتا ہے، ویسے تو مان سکتے ہیں کہ وہ بھی خاص قسم کے بیانئے میں ناول نگار کے قریب ترین ہوتا ہے، مورخ بھی اپنی تحریر کو ممکنہ طور پر امر واقع اور حقائق سے اخذ کرتا ہے، جو بنیادی طور پر صرف ناول نگار سے متضاد ہوتا کہ جس میں تخیل تو نہیں ہوتا، کردار، واقعات اور مقامات کے ذرائع اور ریکارڈ شدہ یعنی منقول دستاویزات پر ہی کفایت کرتا ہے، اور اس پر مطمئن بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ ماضی کی تاریخ کے ہر عہد، ہر حقیقت، ہر واقعے کے متضاد خبریں اور کہانیوں کے انبار موجود ہیں، اس طرح تاریخ بھی ایک داستانی خصوصیت کا متن بن جاتی ہے، جو صرف مورخ کے انتخاب کے محور سے منسلک ہوتی ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ پھر اسے کچھ تشکیل شدہ بیانیہ کہتے ہیں، کچھ کے نزدیک وہی حقیقت ہوتی ہے اور کچھ کے نزدیک سازش بھی ہوتی ہے۔
تاریخی ناول میں ایک مسئلہ تاریخی شخصیت کی وضاحت بھی ہوتا ہے، تاریخ اور ادب کیونکہ دونوں ہی بیان کی گئی گفتگو ہوتی ہے، اور تاریخی ناول میں ناول نگار کو کردار اور واقعات کو ایک فریم ورک کے اندر رکھنا ہوتا ہے، اس میں زبردستی کی محض موافقت نہ پیدا کی جائے، اس طرح قاری کو ماضی میں جو کچھ ہُوا، اس کی وجوہات اور اس کے نتائج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن اس کے لیے تاریخ کے بیان کا درست ایماندارانہ تجزیہ اور فنی بیانیہ کے تقاضوں کو قبول کرنے کی بھی ضرورت ہے، جیسے بیان کی گئی کہانی کا تسلسل، کہانی میں ایک یا زیادہ کرداروں پر توجہ رکھنا اور ایک ہی تناظر میں عناصر کی شمولیت، جو تاریخی ناول کے لیے داخلی ہم آہنگی کی شرط رکھتی ہے۔ جبکہ مورخ واقعات کو ایک مربوط اور بامعنی تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہے، جیسا کہ بہت حقیقت میں تھیں،اقعات کی تاریخ کو اسی عہد کی نسبت اور درست مقام کے تصور میں پیش کرتا ہے،ماضی کو دستاویز کرنا اپنی معلوم حالت میں ہی ممکن ہے، جبکہ ناول نگار تصورات کو واقعہ اور وقت کے فریم ورک میں رکھتا ہے، جس میں اس کا تعین اور قطعی وجود بدل جاتا ہے، کیونکہ وہ تخیل کے تصور سے واقعات اور کرداروں کی تشکیل نوء کرتا ہے، ایسے واقعات کو کچھ تاریخی ناولوں میں چھپایا جاسکتا ہے، انہیں کرداروں کے رویوں اور مقام سے سے واضح کرنے کے لیے بس ایک پس منظر کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، جیسے ہمارے یہاں نسیم حجازی نے غرناطہ و قسطنطنیہ کی کہانیاں لکھی ہیں۔ اس میں کئی کردار تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ حوالہ کردار جو واقعات اور تصور کردہ کرداروں کی حمایت کرتا ہے، انہیں فریم کرتا ہے، اور ان کے بنیادی واقعات و نتائج دے دیتا ہے۔

ناول نگار اپنے تاریخی ناول میں تاریخی کرداروں کو تخیلاتی کرداروں کے ساتھ جوڑ سکتا ہے، اور تاریخی شخصیات کو عمل میں حصہ ڈالنے اور خیال کو متحرک کرنے کے لیے جوڑتا ہے، یا مصنف تاریخی شخصیات سے متاثر ہو کر تخیلاتی کرداروں کو تخلیق کرتا ہے تاکہ تخیل اور خیالی کرداروں کا بوجھ اٹھا سکے۔ ایک ناول نگار ایک ہی وقت میں تاریخی شخصیات کو غیر تاریخی کام اور تصوراتی کرداروں کو تاریخی کام بھی تفویض کر سکتا ہے۔ ناول نگار کے لئے تخیل میں تاریخ کا درست حوالہ اور اپنے بیانیے کی تعمیر میں اہم بات شاید یہ نہیں رہتی کہ اس دور میں کیا ہوا تھا، بلکہ اس عہد کی ثقافت اور ان کی سماجی زندگی کو کس طرح متاثر کرتا ہے، جس کی نمائندگی اس کے کردار کرتے ہیں، یعنی وہ تاریخی حالات کو آگے بڑھا کر کرداروں کے لیے ایک نئی وجودی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو تاریخ کو اپنے آپ میں اس قابل بناتا ہے کہ وہ وجودی معنی کے ساتھ ایک انسانی صورت حال کے طور پر سمجھے اور اس کا تجزیہ کرے، تاکہ ناول نگار مورخ نہ بن جائے۔ مگر تاریخ بہرحال متاثر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ناول نگار اپنے کردار ( تاریخی یا تصوراتی) بناتا ہے اور ان کی ایک بیانیاتی شناخت بھی تشکیل دیتا ہے، اور وہ شناخت بڑھتی ہے ترقی کرتی ہے اور اس کہانی میں خود کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے تخیل اس کی تصویر کشی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام طور پر ناول اور تاریخی ناول میں ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے، وہ ایک تخیلاتی بیانیہ شناختی تعمیر ہے جو از سر نو تعمیر شدہ ماضی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ مگر اکثر تاریخ بدل دیتے ہیں۔ یہی حال نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں میں بھی نظر آتا ہے، اور یہی سب کچھ “بنت داہر” میں بھی نظر آیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں