زبان ایک پیغام رسانی کا ذریعہ ہے لیکن کبھی کبھی زبان بھی دھکم پیل کا شکار ہو جاتی ہے جب پیغام ‘حد ہے اور بے حد ہے’ کے مانند ہو اور الفاظ کا انتہائی محدود ذخیرہ یا لا متناہیت بر مبنی لسانی نظام معذرت پہ اتر آئے۔ جب خیالات بے ہنگم اور بے سمت بہنے لگیں تو ان خیالات کا نتیجہ بھی درہم برہم الفاظ یا زبان کی صورت برآمد ہوتا ہے مثلاً انسانوں کا ہجوم راستوں کے اختلاف کی وجہ سے تیزی سے منازل تک رسائی کی سعی کر رہا ہوتا ہے اور معاشرے میں عدم مساوات اور عدل و انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے ٹکراؤ کی نذر ہو جاتا ہے یا سڑک پہ گاڑیوں کا بنا کسی قانون و ضابطے کے اتر آنا جس میں وہی انسان ہی ہوتے ہیں ‘ٹکراؤ کا شکار ہو جاتی ہیں یا خدشات منڈلا رہے ہوتے ہیں لیکن ٹکراؤ اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ انسانوں نے بِنا قانون و ضابطے کے زندگیوں کو چلانا سیکھ لیا ہوتا ہے اسی طرح زبان بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔ کئی دیگر تصاویر اور تجربات بھی مثالیں بنا کر دی جا سکتی ہیں۔ تبھی تو کسی نے کہا تھا جو اَن کہے الفاظ ہیں وہ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تبھی تو میں نے چند لمحے قبل کسی کا کہا سنا ہے کہ زبان جب ساتھ نہیں دیتی تو اظہار کا طریقہ بدل جاتا ہے، جذبات وہیں رہتے ہیں لیکن اَن کہے کہلاتے ہیں لیکن بہرحال لمبی نیندیں، کانپتے ہاتھ، آہیں سسکیاں، اور ٹھنڈی مسکراہٹیں اظہار کا ذریعہ بن جاتے ہیں جو بھی زبان ہی کا ایک عکس بلکہ مکمل بلکہ انتہائی مقدس ذریعہ ہوتے ہیں۔
یہ ہزاروں سینکڑوں لوگوں کی مختلف کہانیوں کا تذکرہ ہے لیکن نتائج تقریباً یہی برابر ہیں۔ جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں قوانین اگر صرف نچلے طبقے پہ لاگو ہوتے ہوں اور حکمران اور برہمن طبقات کے گلے میں سریا ہو تو نچلے طبقات کا یہ بھی فرض نہیں ہے کہ وہ فرض کفایہ بھی ادا کریں کیونکہ برہمن مزاج طبقات کی مفادات کے ناجائز حصول کی ترجیحی بنیادوں پہ فکر بلکہ کج فکری و فہمی زبان بندیوں کو فوقیت دیتی ہے۔ تب یہی سسکتی آہیں اور آنسو خشک ہو جاتے ہیں اور ریڑھی بان کی زندگی کا آدھا حصّہ بِلوں کی ادائیگی یا دو وقت کی روٹی کے حصول پہ صَرف ہونے لگتا ہے تو مزاحمت ضرور تشکیل پاتی ہے چونکہ یہی قانونِ قدرت ہے کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور دراصل عوام کی شعوری بیداری ہی اس کا آغاز ہے اور وہی برہمن مزاج طبقات اس بے ضرر طبقے کو طاقت سے کچلنے کے لیے کوئی سی بھی انتہا چھونے سے گریز نہیں کرتے جو بہرحال بے وقوفی اور سمندر کو بانس کے ڈنڈوں کی باڑ سے روکنے کے مترداف ہے۔
مظاہروں کی شکل یا دھرنے کے روپ میں جو ہو رہا ہے وہ مسائل کا آغاز کیسے بھی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ نتیجہ ہے اور اس نتیجے کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا کہ یہ تو انتشاری ٹولے ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہ دہشت گرد ہیں دہشت پھیلاتے ہیں ،وقتی ٹال مٹول یا عارضی زبان بندی تو ہو سکتی ہے لیکن مستقلاً مزید تشدد کو ہوا دینے جیسا ہے اور تشدد دراصل تشدد سے ہی مٹتا ہے الا ماشااللہ عام معافی کا اعلان کر دیا جائے کیونکہ جب زبان بندی ہوتی ہے وہی آہیں سسکیاں اور لمبی نیندیں اور ٹھنڈی مسکراہٹیں بددعائیں بن جاتی ہیں۔ قیادت کتنی مخلص ہے اور مشکلات کے سفر میں عوام کے ساتھ کہاں تک جا پاتی ہے اور کتنی قربانیاں دیتی ہے وقت ہمیشہ بتا ہی دیتا ہے اور یہاں ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں جب مخلص قیادت پھندے چوم کر اپنی صداقت اور شفافیت بتا جاتی ہے۔
بہرحال عوام کو دہشت گرد کہنا بہت آسان ہے لیکن ان کے جذبات کو اتنی آسانی سے کچلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہاں بات غلط الخیال یا صحیح اور مستند ہونے سے کہیں زیادہ نتائج پہ ہو رہی ہے جو اٹل ہیں اور ہر عمل کا رد ِعمل ہے جسے عارضی طور پہ کچلا جا سکتا ہے لیکن جب عارضہ بن جائے تو بات آگے نکل جاتی ہے جس کا نتیجہ اس شعر کی مانند ہے:
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں