پاکستانی معاشرہ اور اخلاق پستی-فکری تضاد/مبشر حسن

ایک معاشرہ جو خود کو مکمل اسلامی قرار دیتا ہے لیکن وہ معاشرہ ڈرگ اڈکشن، پیڈوفیلیا، جیسے جرائم میں مبتلا ہو، ایک زبردست فکری تضاد کا شکار ہوتا ہے۔ ظاہری مذہبیت (mere outward religiosity) اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اس معاشرے نے مذہب کو صرف ظاہری اعمال جیسے نماز، روزہ، اور خطبات تک محدود کر دیا ہے، جبکہ مذہب کے اصل روحانی اور اخلاقی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔، یہ معاشرہ حقیقت (reality) اور ظاہری دکھاوے (appearance) کے درمیان ایک الجھن کا شکار ہے۔ اس طرح کے لوگ مذہب کی روح کا فہم کھو چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں مذہبی رسوم تو زندہ ہوتی ہیں لیکن معاشرتی اخلاقی قدریں مردہ ہو چکی ہیں۔

اخلاقی منافقت (Moral Hypocrisy):

اس طرح کے لوگ دراصل اخلاقی منافقت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ سورن کرکیگارڈ جیسے فلسفیوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اخلاقی منافقت ایک فرد یا معاشرے کی روحانی تباہی کی علامت ہوتی ہے۔ یہاں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی پیروی کی جارہی ہے، لیکن عملی طور پر اسلام کی بنیادی تعلیمات جیسے عدل، صداقت، اور احترامِ انسانیت کا فقدان ہے۔ یہ منافقت معاشرتی فساد کو بڑھاوا دیتی ہے اور برائیوں کے پھیلاؤ کو فروغ دیتی ہے۔

سماجی ناکامی اور غیر انسانی رویہ (Dehumanization):

ایک ایسا معاشرہ جہاں انسانیت سے گرے ہوئے اعمال (جنسی برائیاں، سود، ڈرگ اڈکشن) رائج ہو جائیں، وہ سماجی ناکامی (social failure) کا نمونہ ہوتا ہے۔ میشل فوکو کی اصطلاح میں، ایسے معاشرے میں “بندشیں” اور “ضوابط” تو موجود ہیں، لیکن وہ انسانوں کی اندرونی آزادی، ان کے شعور اور فکری ترقی کو دبانے والے ہیں۔ ایسے معاشرے میں افراد کا کردار کٹھ پتلیوں جیسا ہوتا ہے جو صرف ظاہری قوانین کی پابندی کرتے ہیں لیکن اندر سے خالی اور غیر انسانی ہوتے جا رہے ہیں۔

آزاد ارادہ اور اخلاقی ذمہ داری (Free Will and Moral Responsibility):

جب ایک معاشرہ اپنی مذہبی شناخت کو صرف رسوم و رواج تک محدود کر دیتا ہے اور افراد کی اخلاقی تربیت اور فکری آزادی کو دبا دیتا ہے، تو افراد میں اخلاقی ذمہ داری کا شعور ختم ہو جاتا ہے۔ ژاں پال سارتر جیسے فلسفیوں نے یہ بات کی ہے کہ انسانوں کی آزادی ہی انہیں اخلاقی طور پر ذمہ دار بناتی ہے۔ اگر افراد کی فکری آزادی سلب کر لی جائے، تو وہ برائیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اور ان کی اخلاقی حساسیت ماند پڑ جاتی ہے۔

مذہب اور ریاست کا غلط امتزاج (Theocracy vs Secular Ethics):

ایسا معاشرہ، جہاں مذہبی اصولوں کا نفاذ ظاہری طور پر کیا جاتا ہے لیکن اخلاقی تعلیمات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، دراصل مذہبیت کو سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جان اسٹورٹ مل اور فریڈرک نطشے جیسے مفکرین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب مذہب کو ایک سماجی یا سیاسی طاقت کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے، تو وہ اپنے اصل اخلاقی مقاصد کو کھو دیتا ہے اور اس کی جگہ خوف، جبر، اور منافقت لے لیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں مذہب کا استعمال لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ ان کی اخلاقی تربیت اور فلاح کے لیے۔

فکری جمود اور اخلاقی ارتقاء (Stagnation of Thought and Moral Evolution):

ایسا معاشرہ جو ظاہری اسلامی اصولوں کو اپناتا ہے لیکن فکری ترقی اور اخلاقی ارتقاء سے دور ہے، دراصل فکری جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہے۔ افلاطون اور ارسطو نے انسان کے شعور کی مسلسل ترقی کو انسان کی فلاح اور خوشی کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ اگر معاشرہ روایات اور ظاہری مذہبیت میں جکڑا رہے گا، تو وہ فکری اور اخلاقی طور پر ترقی نہیں کر سکے گا۔

julia rana solicitors london

ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ مذہب کے ظاہری اعمال پر زور دیتا ہے لیکن اس کی روحانی اور اخلاقی بنیادوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ معاشرہ فکری تضاد، اخلاقی منافقت، اور انسانیت کی تذلیل کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے مذہب کو صرف ایک رسم کے طور پر اپنایا ہے، جبکہ اخلاقی اصولوں اور انسانی شعور کی آزادی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply