مؤرخ لکھے گا ، اور لکھتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپائیں گے ، قلم پر رعشہ طاری ہوجائے گا ، دل لرزے گا ، آنسو ٹپکیں گے ، رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے ، لیکن اسے لکھنا پڑے گا ، امتِ مرحومہ کا مرثیہ ، امتِ مسلمہ کی داستانِ غم کو بیان کرنا پڑے گا اور وہ جب یہ لکھنے بیٹھے گا تو حیران رہ جائے گا ، اس کو یہ باتیں ورطہ حیرت میں ڈال دیں گی لیکن وہ لکھے گا۔
وہ لکھے گا کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رکھنے والی قوم کے لوگوں پر چند اوباش درندوں کی مانند ٹوٹے پڑے تھے اور یہ بے بسی کی علامت بنے ہوئے تھے۔
وہ لکھے گا کہ دنیا میں سب سے تیزی سے پذیرائی حاصل کرنے والے دین کے حاملین پر وہ حاوی ہو گئے تھے جن کا دین محدود ترین تھا۔
وہ لکھے گا کہ ایٹمی طاقت ، معاشی طاقت ، بہترین ویزے ، معدنیات و ذخائر رکھنے والے پچاس سے زائد ممالک کے لوگ اپنے بھائیوں کو گاجر مولی کی طرح کٹتا ہوا دیکھ رہے تھے اور بس دیکھ رہے تھے۔
اور یہ سب بیان کرنے کے بعد وہ لکھے گا۔۔
کہ ایک سال کا عرصہ زخمیوں اور مقتولین میں تفریق کرتے کرتے گزرا تو اس امتِ مرحومہ کا حال یہ تھا کہ:
ابھی تک بحث اس موضوع پر جاری تھی کہ اس نقصان کی ابتداء کس نے کی۔۔حالانکہ اب وہ نقصان کی انتہاؤں پر کھڑے تھے۔
ابھی یہ فیصلہ ہونا بھی رہ گیا تھا کہ اس نقصان کے پیچھے پشت پناہی کون کر رہا تھا۔حالانکہ ہر اگلا روز پشت سے نہیں سامنے سے حملہ آوروں کا نیا دروازہ کھولتا تھا۔
ابھی یہ معمہ بھی حل ہونا رہ گیا تھا کہ اقوامِ متحدہ سے گزارش کر کے جنگ رکوائی جا سکتی ہے یا نہیں۔۔حالانکہ اقوامِ عالم کے سامنے اس متحدہ کی ہٹ دھرمی یا بے بسی عیاں ہو چکی تھی اور یہ بات بھی باقی تھی کہ کن تنظیموں اور اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے حالانکہ وہ تنظیمیں اور ادارے ہی زمین بوس ہو چکے تھے۔
ہاں البتہ وہ یہ ضرور لکھے گا کہ امت مسلمہ کام بہت کرتی تھی
ایک سال میں ہزاروں کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا
ایک برس میں سینکڑوں تنظیمیں اس نام پر کھڑی ہوئیں
بارہ مہینوں میں درجنوں فلک شگاف نعرے متعارف کروائے گئے
باون ہفتوں میں دسیوں ملی نغمے ریلیز کیے گئے
تین سو پینسٹھ دنوں میں کئی تعزیتی پیغامات ، دھمکی آمیز خطابات ، اور یکجہتی کے پیغامات بھی بھیجے گئے
اور آخر میں وہ یہی پوچھے گا کہ
ان حالات میں بھلا اس امتِ مرحومہ سے اور کتنی زیادہ امید کی جا سکتی تھی؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں