كتاب: اور میں نم دیدہ نم دیدہ
صنف: سفر نامہ
مصنف: ابو بكر قدوسی
ناشر: مكتبہ قدوسیہ
تبصرہ نگار: زید محسن
حرمین شریفین مسلمانوں کی مکانی محبتوں میں اعلیٰ ترین محبتیں ہیں ، وہاں کے تذکرے ، وہاں کے اسفار ، وہاں کے ادوار اور وہاں کی باتیں سن کر اور پڑھ کر ایمان کی تازگی محسوس ہوتی ہے۔
جہاں یہ دونوں مقامات ، مقاماتِ عبادت میں اونچا مقام رکھتے ہیں وہیں ان سے انسیت ، محبت اور عقیدت کی بنیادی ترین وجہ یہ بھی ہے کہ رسول کبریاء ﷺ کے شب وروز ، آپ کی خوشی و غمی ، آپ کی عبادت وریاضت ، آپ کی دعوت وجہاد انہی دو مقامات کے گرد و نواح میں یا عین انہی میں گزرے ہیں ، اور یوں ان مقامات کو شرفِ دیدارِ زمانِ نبوت حاصل ہے کہ یہاں کی فضاء رداءِ نبوی سے خوشبو مستعار لے کر معطر ہوئی اور یہاں کے ذرات لمسِ جسمِ نبوی ﷺ سے عظمت پا کر خوب سرشار ہوئے۔
اور ہم ہیں کہ ان جگہوں سے دور بے آب و گیاہ بیٹھے ہیں ، لیکن کبھی کچھ تذکرے ہمیں ان مقامات سے یوں قریب کر دیتے ہیں کہ گویا انہیں محسوس کر رہے ہوں ، ان مقامات کی سیر کیلئے سب سے خوبصورت اور جامع کتابیں تو کتبِ حدیث وسیرت ہیں جو نہ صرف ان مقامات کی عظمتوں کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ مکان کے ساتھ زمانی اعتبار سے امتیازی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔
اس کے بعد اگر ہم اردو ادب میں دیکھیں تو سفرِ حرمین کے بہت سے سفر نامے لکھے گئے ہیں ، جن میں سے جن دو کو پڑھنے کا موقع مجھے ملا تھا وہ تھے:
۱- پاکستان سے دیارِ حرم تک ، از:نسیم حجازی
۲- لبیک ، از: ممتاز مفتی
یہ دونوں سفر نامے دو الگ قسم کے ذہنوں سے لکھے گئے سفر نامے ہیں جن میں سے پہلا سرشاری ، جذباتیت اور عقیدت سے بھرپور ہے تو دوسرا سوالات ، سوچ و بچار اور بہت سے نئے دریچوں کی تلاش کرنے والا سفر نامہ ہے،لیکن دونوں ہی اپنی انتہاؤں کو پہنچے ہیں کہ کہیں عقیدت میں غلو ہے تو کہیں سوال میں تنقیص وتضحیک تک در آتی ہے۔
اس کے بعد آتے ہیں سوشل میڈیا کے سفر نامے:
سوئے حرمین جانے والا ہر شخص ہی کسی نا کسی صورت اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ، مجھے فیسبک پر تین سال کا عرصہ ہوا ہے اور اس عرصے میں جو پہلی مستقل رودادِ سفرِ حرمین میں نے پڑھی وہ استاذِ محترم شاہ فیض الابرار کے قلم سے تھی اور بہت خوب تھی
لیکن ابھی چند مہینے پہلے کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ تین اہم شخصیات نے سفر نامہ حرمین شروع کیا۔ ۱) عبدالرشید (شاد مردانوی)
۲) عاصم اظہر
۳) ابو بکر قدوسی
اب ان میں سے ابتدائی دونوں تو غالبا ًحج سے متعلق تھے البتہ قدوسی صاحب کا سفر عمرے کا تھا ۔پھر ان تینوں میں بہت سی مختلف باتیں تھیں ، جیسے اندازِ بیان ، ترجیحات ، زیارات کا ذکر اور تغیر قیام وطعام اور ملاقات و شخصیات کے ساتھ انتظام و انصرام پر تنقیدات وتشکرات وغیرہ۔ ۔لیکن تینوں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی اور وہ یہ کہ:
“تینوں ہی سفرِ حجاز سے متعلق لکھے گئے”
ہم گاہے بگاہے ان تینوں کو ہی پڑھتے رہے لیکن قدوسی صاحب باقی دو ساتھیوں سے یوں سبقت لے گئے کہ آپ نے بالاستیعاب مطالعہ کیلئے سفر نامے کو مستقل کتابی صورت میں نشر کر دیا ، اور پھر زہے قسمت ونصیب کہ:
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
بہت جلد ہی یہ سفر نامہ لاہور سے سفر کرتا ہوا کراچی تک پہنچ گیا اور ہمیں دستک دے کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
قبل اس کے کہ سفر نامے سے متعلق بات کی جائے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ انسان کچھ اساتذہ سے سامنے بیٹھ کر علم حاصل کرتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر سیکھتا ہے ، اب ہمارے اساتذہ جن سے سامنے بیٹھ کر علم حاصل کیا انہوں نے ہمیں علم دیا تو خوب پھر اس کو آگے کیسے منتقل کرنا ہے یہ کافی حد تک سمجھایا بھی ، لیکن اس میدان میں کچھ لوگ بھی دکھا دیے کہ انہیں دیکھ کر سیکھ جاؤ کہ اپنی بات کیسے آگے منتقل کرنی ہے ، سوشل میڈیا کے حوالے ہمیں جن لوگوں کی راہ دکھائی گئی ان میں سے ایک قدوسی صاحب بھی ہیں ، جنہیں ہم تقریباً روز ہی پڑھتے ہیں اور بہت کچھ ان سے سیکھتے ہیں ، یوں آپ ہمارے استاد بھی ہیں۔
لیکن ایک بات ہے کہ قدوسی صاحب کو بطور مصنف ہم صرف فیسبک کی حد تک ہی جانتے ہیں کہ ان کی تخلیقات ہمیں وہیں پڑھنے کو ملتی ہیں ، یوں اس سے پہلے میں نے قدوسی صاحب کو کتابی صورت میں صرف دو دفعہ پڑھا ہے ، ایک ان کی علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللّٰہ کی حیاتِ جاوداں پر لکھی گئی کتاب “تیرے نقشِ قدم پر” اور دوسرا جناب صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھے گئے آرٹیکل کی صورت میں جو البیان کے خاص نمبر میں شائع ہوا۔۔
یوں یہ کتاب “اور میں نم دیدہ نم دیدہ” تیسری وہ تصنیف ہے جو کتابی صورت میں پڑھنے کا شرف مجھے ملا۔۔
مجھے ایک سفر نامہ نگاری کے طالبِ علم کی حیثیت سے میرے ایک استاد نے یہ بات سمجھائی تھی کہ:
“دیکھو سفر نامہ آپ بیتی کی ایک قسم ہیں جس میں “میں ، میرا” اور اس طرح کے متکلم کے صیغے اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ پڑھنے والے کی دلچسپی ختم کر دیتے ہیں ، اس لئے ہمیشہ سفر نامے میں ایسا مواد پیش کرنا جس سے قاری کی دلچسپی بر قرار رہے ، اور وہ خود کو تمہارا ہم سفر سمجھے”۔
میں از خود اس میں کتنا کامیاب ہوا اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ قدوسی صاحب اس میں خوب کامیابی حاصل کر گئے ، جس پر ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ اکثر پڑھنے والے کہتے ہیں کہ “جب یہ کتاب شروع کی تو پھر مکمل کر کے ہی اٹھا” ، (ان میں مجھ نا چیز کا بھی شمار ہے)
اقبال نے میرِ کارواں کیلئے چند اوصاف بتائے تھے کہ:
نگہ بلند ، سخن ، دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
اور یقین جانیں کم از کم یہی وہ چیزیں ہیں جس کو حاصل کر کے کوئی مسافر ، مسافر سے سفر نامہ نگار بن سکتا ہے۔ ۔اور قدوسی صاحب میں یہ باتیں بدرجہ اتم پائی گئیں!
ایک انسان کے رجحانات ، ترجیحات اور میلانات اس کے سفر سے خوب عیاں ہوتے ہیں اور اس کتاب کو پڑھ کر ایک خوش کن بات یہ سامنے آئی کہ عقیدہ توحید ، درستگی عقائد ، اصلاحِ عقائد یہ قدوسی صاحب کا اہم موضوع ہے جس سے یہ کتاب گاہے بگاہے بھری ہوئی ہے ، اور آپ بہت ہی منفرد انداز میں درسِ توحید دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قدوسی صاحب ایک با ذوق شخصیت ہیں اور اس کی نظیر ان کا یہ سفر نامہ ہے کہ جس کے صفحہ اول تا آخر تک کئی ایک صفحات پر بر وقت اور بر محل اشعار کا استحضار ہے ، اور کبھی کبھار تو یوں شعر لاتے ہیں کہ گویا یہ شعر کہا ہی اسی مقام کیلئے گیا ہو۔۔
پھر ساتھ ہی یہ کتاب آپ کے وسعتِ مطالعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے ، کہ آپ جب کبھی کسی مقام یا کسی زمان کا تذکرہ کریں گے تو ساتھ ہی اس سے متعلقہ شخصیات ، اہم واقعات کو بھی ذکر کرتے جائیں گے۔
ساتھ ہی ظرافت میں بھی آپ اوجِ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں کہ کیا ہی عمدگی سے اور برجستگی سے کوئی اٹھتا ہوا جملہ بھی کہہ جاتے ہیں اور:
سب کہہ کر کچھ نہ کہنا
کی نظیر بھی بن جاتے ہیں ، جس کو آپ خاص کر اس وقت محسوس کر سکتے ہیں جب ” بابا کبوتر شاہ” کی بے بسی کا ذکر کیا یا پھر “ہم کراچی والے ہیں” کا تذکرہ کیا۔۔
اسی طرح یہ کتاب معلومات کا ذخیرہ بھی ہے کہ قدوسی صاحب از خود کہیں چلے جائیں تو نہ صرف وہاں کے ماضی و حال سے پردے اٹھاتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ خوبصورتی کے ساتھ متعلقہ واقعات کا بھی کرتے چلے جاتے ہیں ، یہ تو ان جگہوں کا حال ہے جہاں از خود چلے گئے جیسے زیارات وغیرہ ، لیکن اگر کوئی حاجت آپ کو کہیں کھینچ کر لے جائے گی تو وہاں بھی آپ کوئی نا کوئی کھوج لگا ہی لیں گے جیسے ابو جہل کا گھر کھوج نکالا ہے۔
اور ایک چیز جو کافی غیر محسوس انداز سے بیان کی ہے کہ ہر ہر عبادت کا صحیح طریقہ بھی بیان کر دیا اور ساتھ میں خرافات وبدعات کو بھی واضح کر دیا کہ مشعلِ راہ بن جائے ۔
یوں اس کتاب پر اگر مجموعی نگاہ ڈالی جائے تو یہ صرف ایک سفر نامہ نہیں بلکہ قاری کی توجہ کو مرکوز رکھنے اور اپنے ساتھ ایک ایک لمحہ بِتانے کا ایک موقع ہے جو قارئین کو فراہم کیا گیا ہے ۔
اس سفر نامے میں قاری پندرہ صدیوں پر محیط طویل سفر کرتا ہے ، بلکہ اس سے پیچھے دورِ ابراہیمی کی جھلک بھی دیکھتا ہے اور پھر گاہے بگاہے تاریخ کے طویل ترین دواوین کا جامع ومختصر سفر طے کرتا ہوا وہ آلِ سعود کے کارناموں کو پڑھتا ہوا ، یک دم اگلے جہاں میں ۲۰۳۰ تک بھی چلا جاتا ہے۔
یہ کتاب جہاں اپنے اندر ادب کا ایک شاہکار ہے تو وہیں عقائد وعبادات کی اصلاح کا مجموعہ بھی ، پھر معلومات کا ذخیرہ ہے تو گاہے بگاہے اسلاف کے تذکرے کا سلسلہ بھی ، اور اس سب کیلئے خوبصورت اندازِ بیان ، استعاروں کا استعمال ، مثالوں سے وضاحت ، اشعار کا استحضار ، منفرد تراکیب ، برجستہ جملے ، شاندار مکالمے اور خوبصورت طباعت ، گو کہ سب کچھ ہی جمع کر دیا ہے اور جب جا کر یہ شاہکار سامنے آیا ہے۔ جو یقیناً ایک عمدہ کاوش ہے جس پر صاحبِ کتاب بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں ، اس مبارکباد کے ساتھ کہ کعبے کو دیکھ کر کی گئی پہلے دعا کہ:
“مالک ! ایک بار پھر حاضری ہو جائے ، اس گناہگار کو اب ہجر کی سنگلاخ راہوں پر دوبارہ ایسا نہ تڑپائیے گا کہ مدتوں تک آ نہ سکوں
آ کہ میری جان کو قرار نہیں
طاقت بیدادِ انتظار نہیں
میں یہ دعا کر رہا تھا کہ اسی برس اس سال میں دوبارہ آؤں۔۔ باقی باتیں اور دعا میں پھر مانگ لی جائیں گی”
یہ دعا بھی قبول ہوئی اور آپ حالیہ دنوں ایک بار پھر زیارتِ حرمین شریفین کیلئے گئے ہوئے تھے ، جو سفر کل ہی مکمل ہوا۔ رب شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔
Facebook Comments
کتاب طلب کرنے کیلئے مکتبہ قدوسیہ کے آفیشل ممبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: 03214460487