جب آپ نئے نئے یورپ آتے ہیں کسی پرانے کو کام لگوانے کا کہیں تو اس کا پہلا جواب ہوگا ۔تمہارے پاس ڈاکومنٹس نہیں ہیں ایک دفعہ تمہیں کاغذ مل جائیں تو کام بہت ہے ۔ جب آپ کوامیگریشن مل جائے توبولے گاتمہیں زبان نہیں آتی کام کیسے ملے ؟آپ گزارے لائق زبان سیکھ لیں تو وہ کہیں گے اصل میں جوان تمہارے پاس گاڑی کا لائسنس نہیں ہے لائسنس لے لو تو فوراً کام پر لگوا دیں گے ۔ ان کے پاس آپ کو مہذب طریقے سے ٹرخانے کے کئی بہانے ہوتے ہیں ۔ پہلے سال میرابھی ایک گھر جانا ہوا۔ ایک شخص پوچھنے لگا کہ پاکستان میں کیاکر رہے تھے ۔ جواب دیا کہ جی پاکستان میں تو تعلیم ہی حاصل کی ہے اس نے حقارت سے مجھے دیکھا اور کہنے لگا کہ اٹلی میں روزگار صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جواچھی طرح ہتھوڑا چلانا جانتا ہو ۔ (پہلا اصول ، یورپ میں کسی کو نہ بتائیے کہ آپ پڑھائی کرکے آئے ہیں خوامخواہ حسد میں اضافہ ہوگا، کوئی آپ کو کام پر بھی نہیں لگوائے گا،کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ آپ نکمے ہیں آپ کوئی کام نہیں کر سکیں گے)
ہتھوڑا تو ہمارے گاؤ ں کا ایوب لوہا ر چلاتا تھا۔وہ بہت اچھے اخلاق کا مالک تھا ۔اس کی بھٹی تھی ۔ہمیں بھٹی سے نکلنے والی چنگاریاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ لوہے کارنگ جب سرخ ہوجاتا اورلوہارہتھوڑا برسا کر اس کو موڑتا تو وہ منظربہت دلنشین لگتا تھا ۔ لیکن وہ بچوں کو بھٹی کے پاس جانے نہیں دیتا تھا ۔ہتھوڑے والی باتوں سے دل ٹوٹ سا گیا۔ہمیں مولوی صاحب نے سکھایا تھا کہ اگر دوستی بھی کرنی ہو تو لوہار کی بجائے عطار سے کرنی چاہیے ، لوہار کی قربت میں چنگاریاں ملتی ہیں جبکہ عطار کی سنگت خوشبودیتی ہے ۔ سوچاکتنے سپنے تھے کہ یورپ جائیں گے تو اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔ کوئی دفتر کی نوکری کریں گے ۔کیونکہ ہمار ے پی ٹی وی کے ڈراموں میں ہیرو ہمیشہ دفتر ہی جاتا ہے ۔ فیکٹری جانےوالاکسی بھی کہانی کا ہیرو نہیں ہوتا۔
جب ہم پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن سے بیچلر آف کمپیوٹر سائنسز کر رہے تھے تو ہم دوست آپس میں باتیں کرتے تھے کہ یورپ میں توچوکیدارکی نوکری کے لئے بھی کمپیوٹر آناچاہیے ۔ملتان کا میرا دوست تھا عارف وہ کہتا تھا کمپیوٹر سیکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نوکری بھی ایسی ملے گی جس میں کمرے میں ائیر کنڈیشن لازمی ہو ۔پتہ ہے کمپیوٹر گرمی میں نہیں چل سکتا۔
پنجاب یونیورسٹی میں مجھے سب سے پہلے داخلہ ماسٹر آف اسپیس سائنس میں ملا ۔ لسٹ میں اپنانام پڑھا تو کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی وہاں کچھ طالبعلم جمع تھے ۔ اسی شعبے کا ایک سنیئر طالبعلم سب کو مشورے دے رہا تھا ۔ جوانو اگر توتمہارے والدین کے پاس ضائع کرنے کےلئے کھلا پیسہ ہے تو ضرور یہ پڑھائی کر لو ۔ ورنہ اس میں نوکری کا کوئی سکوپ نہیں ہے ۔ بلکہ اسپیس سائنس کی پاکستان میں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔نہ تو ہم کوئی خلانوردتیار کررہے اور نہ ہی ناسا کھولنے والے ہیں ۔ اگلے پچاس سال میں بھی ہم ماحولیات پر کوئی کردار ادا نہیں کریں گے ، جس ملک میں ہر سال سیلاب آجاتا ہے اورکبھی کوئی پلاننگ نہیں کی گئی کبھی زلزلوں پر ریسرچ نہیں ہوئی وہاں طالبعلم اسپیس کی جانکاری لیکر کیا کریں گے ؟ہمارا چاند تک تو مولوی دیکھتا ہے جس کو اسپیس سائنس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔
بولا اس ملک میں اگر نوکری کرنی ہے تو سائنس کی ضرورت ہی نہیں ہے بھیا۔ سی ایس ایس کی تیاری کرو اور سرکاری آفیسر بنو یا چپ کر کے میتھ اور فزکس میں ماسٹر ڈگری لو اورپروفیسر بن جاؤ ۔پروفیسر بننے کا تخیل ہی مجھے پریشان کر دیتا تھا ۔ پروفیسر بے چارے ٹیوشن پڑھا پڑھا کر پھاوے ہوجاتے تھے ۔ہمارے ایک پروفیسر صاحب کی پہلی ٹیویشن کلاس صبح پانچ بجے شروع ہوتی تھی۔ وہ بولا لا ءمیں داخلہ لو وکیل بنو یہ وہ شعبہ ہیں جوپاکستان میں کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ویر وٹا ، پولیس کچہری اور دھونس جھگڑے یہ کبھی ختم نہیں ہوں گے اور آپ کا مستقبل محفوظ رہے گا ۔
ہمارے گاؤں سے ایک ہی لڑکا یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھاجو مجھ سے سنیئر تھا۔اختر باجوہ۔ میں نے یونیورسٹی کا پراسپکٹس اسے دکھاتے ہوئے کہا اختر یہ جرنلزم کا شعبہ بھی ہے ۔ اخترکہنے لگا سوچو یہ پڑھ کر تم کیا کہلاؤ گے ۔محمود اصغر چودھری جرنلسٹ۔ سننے میں ہی کتنی مزاحیہ لگتا ہے اوراس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔وہ سچا تھا کیونکہ ان دنوں پرائیویٹ چینلز نہیں ہوتے تھے اور جرنلسٹ کا جو تصور ذہن میں آتا تھاوہ انتہائی مفلس، پرانی موٹر سائیکل ، پھٹی چپل۔ گلے میں بستہ ، ہاتھوں میں سگریٹ اور بے ترتیب بال لئے کسی بےچارے کا آتا تھا ۔۔اس کے بعد ہم دونوں اتنا ہنسے کے پورا کمرہ ہمار ے قہقہوں کی گونج سے بھر گیا ۔
وہ پھر بولامحمود اصغر چودھری جرنلسٹ ہاہاہا ۔۔
آپ کبھی کبھی زندگی پر ہنس رہے ہوتے ہیں اور زندگی اوٹ میں کھڑی آپ کی ہنسی پرمسکرارہی ہوتی ہے
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں