ہنیر نہ سمجھے کہ چانن مرگیا اے
رات نہ سوچی کہ سورج مرگیا اے
میں ایک ہسپتال کے آئی سی یو کے باہر راہداری میں فرش پہ بیٹھا ہوا ، کافی مضطرب تھا ۔اندر میری ذات کے انتہائی قریب شخص موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا ۔ رات کا آخری پہر تھا اور شاید میں دل چھوڑ بیٹھتا لیکن ایسے میں ناگہاں مجھے اپنے پنجابی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک سرجیت پاتر کی نظم کی دو سطریں یاد آئیں تو میرے ڈھلکے شانے اوپر اٹھ گئے اور میں نے سرجیت پاتر کی شاعری کو یاد کرنا شروع کردیا جس نے میرے اندر پھیلتی تاریکی کو ختم کرنا شروع کردیا ۔
آج کل پنجابیوں کے پیٹی بورژوازی دانشوروں میں بھی پوسٹ ماڈرنسٹ تاریکی نے گھر کر رکھا ہے اور وہ ریاستی جبر پر سوال اٹھانے سے زیادہ جبر کا شکار ہونے والے گروہوں کی مزاحمت میں کمزوریوں پہ زیادہ سوال اٹھاتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے حکمران طبقات اور اپنے دیوہیکل فوجی اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کے خلاف اظہار پر مجبور و محکوم اور مقہور گروہوں کے مزاحمتی کرداروں کے خلاف زیادہ بات کرتے ہیں۔ یہ اس طبقے کے موقعہ پرستانہ کردار سے اوپر نہ اٹھنے اور گوشہ عافیت /کمفرٹ زون سے باہر نہ آنے کی روش ہے ۔ اس وقت پاکستانی پنجاب میں کوئی ایک بھی ایسا کوی نہیں ہے جو پنجابی کی ملامتی اور مزاحمتی شاعرانہ روایت کا امین ہو اور حکمران طبقات کو اپنی شاعری کے راستے سے للکار رہا ہو ۔ یہاں کوئی نہ تو پاش سندھو ہے اور نہ سرجیت پاتر کی پرچھائیں ۔ کوئی یہاں نسرین انجم بھٹی بھی نہیں ہے اور نہ حبیب جالب ہے ۔
سرجیت پاتر نے کہا تھا ،
میں راہاں تے نئیں ٹردا
میں ٹرداں آں تے راہ بندے نیں
یوگاں توں کافلے آندے نیں
تے اسے سچ دے گواہ بن دے نیں
پی ٹی ایم پر پابندی لگتی ہے لیکن کوئی پنجابی شاعر اس واقعہ پر نہیں بولتا اور اس کی کویتا میں اس بارے ہمیں کچھ لکھا نہیں ملتا ۔ بلوچ یک جہتی کمیٹی کی نوجوان عورتوں کی شاہراہ فیصل پہ چادریں کھینچی جاتی ہیں ، دوپٹوں پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے لیکن اس واقعہ پر کوئی پنجابی کوئی پاش کے ہم آواز ہوکر یہ نہیں کہتا
بوھتا خطرناک ہوندا اے
ساڈے سفنیاں دا مرجانا
یہ ان باکس میں مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاں پنجابی مزدوروں کے قتل کی مذمت کی ہے ؟ میں جواب میں موسی خیل میں قتل ہونے والے مزدوروں کے واقعے پر ماہ رنگ کی مذمت کا وڈیو بیان بھیجتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ بلوچ یک جہتی کمیٹی کی قیادت کہتی ہے کہ وہ عدم تشدد کے راستے پر چل رہے ہیں اور آئین و قانون کے اندر رہ کر اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ وہ سویلین پر کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف ہیں اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ وہ یہ بتائیں کہ انھوں نے بلوچستان اور کے پی کے میں فوجی آپریشن، جبری لاپتہ ہونے ، لاکھوں افراد کے بے گھر ہوجانے ، داخلی ہجرت اور ماورائے عدالت قتل ہوجانے والوں پر کتنی نظمیں لکھیں ہیں اور ان نظموں کو سرکاری اور غیر سرکاری سرپرستی میں ہونے والے مشاعروں سنایا ہے ؟ کتنے پنجابی شاعروں نے ایوارڈ واپس کیے ہیں ؟ اس پر خاموشی چھا جاتی ہے ۔ کون ایسا کوی ہے جس نے سرجیت پاتر کی طرح ایسی کویتا لکھی ہو:
اودوں وارث شاہ نوں ونڈیا سی
اج شیو کمار بٹالوی دی واری اے
پہلے زخم تہانوں بھل وی گئے
نویاں دی ہور تیاری اے
اُدوں ہیر روئی سی رانجھے دی
تے پنج دریاں نے خون وگایا سی
ہُن ہر اک دل وِچ درد ہَویا
تے زخم ہُنّ بھی گہرا ہویا سی
پہلے عشق دی داستان بکھری سی
پر ہُن کجھ ہور بربادی آئی
جدوں وارث شاہ نوں ونڈیا سی
ہُن شیو کمار دی واری آئی
آج کے پنجابی شاعروں کو نہ تو پنجابی بولنے والے علاقوں میں کسانوں سے زمینوں کو بے دخل کرنے اور وہاں پر فوجی بزنس ایمپائر کی تعمیر نے نکسل واد کویتائیں لکھنے پر اکسایا ۔ نہ انھیں سرائیکی خطے کی زمینوں، جنگلات اور وسائل پر قبضہ کرکے وہاں فوجی زرعی کارپوریشن کی صورت ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شروعات نے تنگ کیا ۔ انھوں نے اس سارے عمل پر اپنے غصے ، رنج ، جھنجھلاہٹ کو شاعرانہ روپ دیا ۔ وہ برگر ، ڈونٹ، پیزا، جینز پہنو اچھی لگتی ہے جیسی شاعری کر رہے ہیں ۔ انھیں سرائیکی شاعر کی ” کوئی خریدے گا میرے ملک کے فوجی ، میں بیچتا ہوں ” جیسی نظم بھی تنگ نہیں کرتی ۔ ان کی اکثریت کا زور سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ ثابت کرنے میں صرف ہو رہا ہے ۔ وہ۔ پنجابی حکمران اشرافیہ پر تنقید پنجابی پر تنقید سمجھتے ہیں اور “آساں قیدی تخت لہور دے” پنجابیت کے خلاف سازش لگتی ہے ۔ وہ پنجاب اور پنجابیوں کی مردہ شانتی پر اتنی تنقید بھی نہیں کرتے جتنی سرجیت پاتر نے کی تھی ۔
ہمیں یہاں کوئی ایسا پنجابی کوی دکھائی نہیں دیتا جسے پنجابیوں کی چپ ایسی نظم کہنے پر مجبور کردے جیسی سرجیت پاتر نے کہی تھی ،
ہنیری وچّ سلگدی ورنمالا
اک آکھر آکھر جلّدا جاوے،
کجھ حرفّاں دے سائے لمبے ہو گئے نے،
تے کجھ دے پِچھے رات پئی اے۔
اِنہاں وچّوں کجھ حرفّ جگمگاؤندے نے،
کجھ لُک گئے نیں ہنیری دے ہٹھاں وچّ،
کوئی آوازوں نوں سُٹن والیاں دی قطار وچّ،
تے کوئی چُپّ وچّ وِچکارے وچّ۔
اندھیروں میں جلتی ہے حروف کی مالا
ایک ایک حرف سلگتا جاتا ہے
کچھ حروف کے سائے لمبے ہو چکے ہیں
اور کچھ کے پیچھے رات چھائی ہوئی ہے
جلتے ہوئے یہ حروف بھی سکون سے ہیں
کچھ سچائیاں خاموشی میں گم ہیں
یہ رات کے پہلو میں بیٹھے ہیں چپ
اور جلنے کا منظر بنا رہے ہیں
پنجاب کی سیاست میں کہیں مزاحمت کا رنگ دکھائی نہیں دے رہا اور اس بے حسی میں کسی پنجابی شاعر کے اکھر اکھر جلتے دکھائی نہیں دے رہے کہ وہ یہاں ضمیروں کو جھنجھوڑے اور انھیں بتائے کہ اس دھرتی پہ کیسے نیتا پیدا ہوئے جنھوں نے سولی چڑھ کر پنجاب اور پنجابیوں کو ندامت کے گڑھے میں گرنے سے بچایا تھا ۔
یہاں کوئی سرجیت پاتر جتنا بہادر کوی بھی نہیں ہے جو “خدا ” کو اس کی چپ پر کٹہرے میں کھڑا کرکے کہے :
سائیں جی،
تُو ہی جہاں کا مالک و خالق ہے،
ہر پتا، ہر بوٹا، تیری حمد کرتا ہے،
تُو ہی کائنات کا بُننے والا،
مقدر کے دھاگے تُو بُن رہا ہے،
اور ہر سانس کو، ہر زندگی کو، تُو ہی راستہ دکھا رہا ہے۔
تیرے در پہ،
میرا باپ کل رات بیٹھا تھا،
تھکا ہارا، بوجھل،
اس کے ہونٹوں نے بول چھوڑ دیے،
مگر اس کا کپکپاتا ہوا منہ
اب بھی تیری آواز کی امید میں لرز رہا تھا۔
کب وہ نمکین آنسو
اس بڑے ساگر میں جا کر ملے گا؟
کب سمندر کے دروازے
میرے سانسوں کے لیے کھلیں گے؟
میری مٹی میں ملی ہوئی ہستی
اب پھول بن کے کھلنا چاہتی ہے،
پاک اور بےداغ، صبح کی اوس کی مانند۔
اب نہ کوئی ہاتھ ہیں جو بستر بنائیں
یا بچوں کے لیے رنگین جھولے سجائیں،
اب کوئی تختیاں نہیں، جہاں
پہلا سبق لکھا جائے۔
اب میری ہستی اک درخت بن چکی ہے،
اور سانسوں کا آرا اسے چیر رہا ہے۔
یہ جنگل،
جہاں ہر درخت ایک ارتھی ہے،
جہاں ہر بوٹے پر کسی کا نام لکھا ہوا ہے،
اور ایک بوٹا، میرا انتظار کر رہا ہے۔
اس جنگل میں،
ساری رات،
ایک کلہاڑا چلتا رہتا ہے۔
سائیں جی،
کب کھلے گا وہ دروازہ؟
جہاں ہر بوٹا خود ایک ساز بن جائے،
اور تُو، ہمیشہ کا بُننے والا،
ان کو راستہ دکھائے گا۔
یہ میری دعا ہے۔
۔۔۔۔۔
سائیں جی
سائیں جی،
تُسی سارے جہان دے مالک ہو،
ہر بوٹا تے پتّا تُہاڈی تعریف کردا اے،
تے تُسی، ہمیشہ دے واسطے کائنات دے بُننہار،
مقدر دیاں تاواں نوں بُن رہے او،
ہر ساہ تے ہر زندگی نوں راہ دِکھا رہے او۔
تُہاڈے در تے،
میرا پِتا کل رات بیٹھا،
تھکیا ہاریا ہویا،
بول اس دے ہونٹھاں نوں چھوڑ گئے،
پر اس دا کپکپاون والا منہ ہنّویں لرز رہا سی،
تُہاڈی آواز، تُہاڈا جواب سنن دی اُمید وِچ۔
کدوں ایہہ وجود دا کھارا ہنجو
اس وڈے ساگر وچ جا کے ملے گا؟
کدوں سمندر دے دروازے
میرے ساہاں لئی کھلن گے؟
میری مٹی وِچ رَلّی ہوئی ہستی،
ہون فُل بن کے کِھلنا چاہندی اے،
پَوتر تے بےداغ، سویرے دی اوس ورگی۔
ہُن کوئی ہتھ نہیں جو پلنگ بناؤن
یا بچیاں لئی رنگین جھُولے سجاون،
ہُن کوئی تختیاں نہیں، جتھے
پہلا سبق لکھیا جاوے۔
ہُن میری ہستی اک درخت بن گئی اے،
تے ساہاں دا آرا اس نوں چیر رہا اے۔
ایہہ جنگل،
جتھے ہر اک درخت اک ارتھی اے،
جتھے ہر بوٹے تے کسی دا ناں لکھیا ہویا اے،
تے اک بوٹا، مینوں انتظار کر رہا اے۔
اس جنگل وچ،
ساری رات،
اک کُہاڑا چلدا رہندا اے۔
سائیں جی،
کدوں کھلّے گا اوہ دروازہ؟
جتھے ہر بوٹا خود اک ساز بن جاوے،
تے تُسی، ہمیشہ دے بُننہار،
اونہاں نوں راہ دِکھاؤ گے۔
ایہہ میری ارداس اے۔
میں سرجیت پاتر کی شاعری میں گم ہسپتال کی راہداری میں بیٹھا یہاں کے پنجابی دانشوروں کی بے حسی کا ماتم کر رہا تھا کہ آئی سی یو سے ایک لیڈی ڈاکٹر دو نرسوں کے ساتھ باہر نکلی ، میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور ان کی طرف دیکھنے لگا ، میرے چہرے پر لکھا سوال شاید ڈاکٹر نے پڑھ لیا تھا وہ یہ کہتے ہوئے میرے پاس سے گزر گئی ،
مریض کی حالت سنبھل گئی ہے ۔ وہ بہت بہتر کنڈیشن میں ہے ، ہم اسے جنرل وارڈ میں منتقل کر رہے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں