ہم اتنے ججمنٹل کیوں ہیں؟-توصیف اکرم نیازی

پاکستانی معاشرے کی نفسیات اور اس کی وجوہات
(تحریر لمبی ہے لیکن پڑھنے سے کچھ فائدہ ضرور ہوگا. نقصان صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ دس منٹ ضائع ہوں گے.)

کل میرا ایک ٹریننگ سیشن تھا جس کا موضوع تھا Mindfulness اور Meditation۔ دورانِ گفتگو میں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے خیالات کو نہ تو جج کریں اور نہ ہی ان کو روکنے کی کوشش کریں۔ خیالات کا آنا جانا ایک فطری عمل ہے اور انہیں صرف دیکھنا اور چھوڑ دینا ہی ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسروں کو جج کرنے کی بھی بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ ہمیں دوسروں کے رویوں اور زندگیوں کا فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے، ہمارا نہیں۔

سیشن سے فارغ ہو کر اتوار بازار گیا اور وہاں سے واک کرنے چلا گیا. تقریبا آٹھ بجے گھر آیا اور پھر فیسبک استعمال کرنا شروع کی. دیکھا کہ فیسبک پر ہر دوسری پوسٹ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو لتاڑا جارہا تھا. زیادہ تر لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر شدید تنقید کر رہے تھے.

ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے ایک داعی ہیں اور ان کی دین کے لیے خدمات کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے، لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں فرقہ وارانہ تقسیم پہلے ہی بہت گہری ہے، ان کی آمد کو بعض حلقوں میں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ انہونے نے یتیم بچیوں کو شیلڈز دینے سے منع کردیا اور ہم لوگ شروع ہوگئے ان کو لتاڑنے.اس آگ پر تیل کا کام کل ہونے والے خطاب کے دوران پوچھے گئے سوال نے کیا جب خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی لڑکی پلوشہ نے سوال کیا کہ ان کے شہر میں لوگ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں، تبلیغ کرتے ہیں، بیانات سنتے ہیں، اور خواتین پردہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں pedophilia اور سود جیسے مسائل موجود ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک شاید وہ سوال کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے اور ایک تسلی بخش جواب نہیں دیا اور نتیجتاً سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگ ان کی پوری زندگی کی خدمات کو ایک طرف رکھ کر صرف اس ایک جواب کی بنیاد پر ان کو جج کرنے لگے۔(کچھ لوگوں نے تو سوال پوچھنے والی بہن کو ہی لتاڑ دیا جبکہ سوال میں کافی حد حقیقت تھی).

یہ رویہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ ہم کتنے زیادہ ججمنٹل اور جذباتی ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کسی کو بھی گرانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ رویہ ہمارے معاشرے میں نیا نہیں ہے۔ہم نے سوچا ہی نہیں کہ ہم دنیا کو اپنا کیا امیج دے رہے ہیں اور ایک ایسے شخص کو گرارہے ہیں جس نے دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پھیلایا.

اب سوال یہ ہے کہ ہم اتنے ججمنٹل کیوں ہیں؟
ہم دوسروں کو کیوں جج کرتے ہیں؟

یہ سوال بظاہر سادہ لگتا ہے لیکن اس کے پیچھے نفسیات، سماجیات، اور ثقافتی اثرات کا ایک پیچیدہ جال ہے۔ یہ عادت صرف ایک نفسیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ اس میں معاشرتی، ثقافتی، اور تاریخی عوامل بھی شامل ہیں۔ اسی لیے سوچا کہ اس بارے میں اپنے محدود علم کی بنیاد پر آپ سے کچھ شیئر کروں تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ ہم ایسے کیوں ہیں.

1. نفسیاتی بنیاد: خود کو بہتر ثابت کرنے کی ضرورت

جب ہم دوسروں کو جج کرتے ہیں، تو اکثر یہ ہمارے اندرونی عدم تحفظات کی عکاسی ہوتی ہے۔ Psychology میں اس کو Projection کہا جاتا ہے، جہاں ہم اپنے اندر کے خوف یا کمزوریوں کو دوسروں میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کر سکیں۔ جب ہم دوسروں کو جج کرتے ہیں، تو دراصل ہم اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم خود کو اس معیار پر دیکھتے ہیں جہاں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم صحیح ہیں اور دوسرا غلط۔

2. Group Identity And Social Pressure

پاکستان ایک Collectivist Society ہے جہاں افراد کے بجائے گروپ، خاندان، اور کمیونٹی کی شناخت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایسی معاشرت میں گروہی شناخت کو مضبوط رکھنے کے لیے لوگ ایک دوسرے کے رویوں کو سختی سے دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی گروپ کے معیار سے ہٹ کر کچھ کرے تو وہ فوراً جج کیا جاتا ہے تاکہ وہ دوبارہ “صحیح راستے” پر آ سکے۔

3. فرقہ وارانہ تقسیم اور مذہبی تصورات

پاکستان میں مذہبی فرقے اور نظریات کی بنیاد پر بھی لوگ ایک دوسرے کو جج کرتے ہیں۔ جب کوئی اسلامی عالم یا شخصیت کسی ایک خاص گروہ یا فرقے سے وابستہ ہو تو دوسرے فرقے کے لوگ فوراً اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ فرقہ وارانہ تقسیم ہمارے اندرونی تعصبات کو مزید بڑھا دیتی ہے اور ہم اپنے فرقے کی برتری ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو جج کرنے لگتے ہیں۔

4. تعلیم کی کمی اور Critical Thinking کا فقدان

ہماری بنیادی تعلیم میں Critical Thinking کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب لوگوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ وہ مختلف نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھ سکیں، تو وہ آسانی سے ایک سطحی اور محدود سوچ کی بنیاد پر ججمنٹل بن جاتے ہیں۔ ہماری Cognitive Biases ہماری عقلوں پر پردہ ڈال. دیتی ہیں مثلاً Confirmation Bias، اس وقت کام کرتی ہیں جب ہم صرف وہی معلومات دیکھتے ہیں جو ہماری پہلے سے بنی ہوئی رائے کی تصدیق کرتی ہیں، اور دیگر پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔

5. تاریخی اور سماجی پس منظر

پاکستان کی تاریخ سیاسی عدم استحکام، Social Inequality ، اور معاشی بحرانوں سے بھری ہوئی ہے۔ جب ایک معاشرہ طویل عرصے تک عدم استحکام کا شکار رہتا ہے، تو لوگ اپنے اندرونی خوف اور عدم تحفظ کو دوسروں پر نکالنے لگتے ہیں۔ Psychology میں اسے Scapegoating کہا جاتا ہے، جہاں لوگ اپنے مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کر سکیں۔

6. مذہبی اخلاقیات کا تنگ نظریہ

اسلام نے ہمیں محبت، رواداری، اور معافی کا درس دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم ان اخلاقی اصولوں کو اکثر بھول جاتے ہیں۔ ہم دین کی ایک ظاہری اور سخت شکل کو اپنا کر دوسروں کو ان کے ظاہری اعمال کی بنیاد پر جج کرنے لگتے ہیں۔ Psychologically، ہم ایک Moral Superiority کی حالت میں آ جاتے ہیں جہاں ہمیں لگتا ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے بہتر ہیں اور دوسروں کو جج کرنا ہمارا حق ہے۔

7. ایموشینل انٹیلیجنس اور Empathy کی کمی

ہم میں Emotional Intelligence کا فقدان بھی ایک اہم وجہ ہے کہ ہم اتنی جلدی دوسروں کو جج کرتے ہیں۔ جب ہم اپنی اور دوسروں کی جذباتی حالت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہم ان کے رویوں کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھ پاتے اور فوراً جج کرنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ Empathy یعنی دوسرے کی حالت کو سمجھنا اور اس کے درد کو محسوس کرنا ایک ایسی صلاحیت ہے جس کی کمی ہمارے معاشرتی رویوں میں بہت واضح ہے۔

8. سوشل میڈیا اور فوری ججمنٹ کا کلچر

سوشل میڈیا نے ہمارے ججمنٹل رویے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ Social Media پر ہر چیز فوری ہوتی ہے، اور ہم بغیر کسی تحقیق یا غور و فکر کے فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ہم لوگ Echo Chambers میں رہتے ہیں، جہاں ہمیں صرف وہی مواد ملتا ہے جو ہماری پہلے سے بنی ہوئی رائے کو مضبوط کرتا ہے، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو جج کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں۔

9. معاشرتی دباؤ اور نام نہاد عزت کا تصور

پاکستان میں Social Pressure اور Honor Culture یعنی غیرت اور عزت کا تصور بھی لوگوں کو جج کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں لوگ ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے Social Status کو کیسے بچائیں۔ اس سوچ کے نتیجے میں، ہم دوسروں کے چھوٹے چھوٹے اعمال کو بھی جج کرنے لگتے ہیں تاکہ اپنی عزت اور ساکھ کو برقرار رکھ سکیں۔

10. فردیت Individualism کی کمی اور روایات کی مضبوطی

پاکستانی معاشرت میں individualism کی کمی ہے، یعنی لوگ اپنی ذاتی شناخت یا آزادانہ فیصلے کم کرتے ہیں۔ یہاں روایات اور اجتماعی فیصلوں کی پابندی زیادہ ہے، اور جو شخص ان روایات سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے، اسے فوراً جج کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تنقیدی سوچ کو اپنانے کے بجائے روایات کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں۔

ہم کیسے اس رویے کو بہتر کر سکتے ہیں؟

اب سوال یہ ہے کہ ہم اس ججمنٹل رویے سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ اس کا حل صرف ایک نہیں، بلکہ ہمیں ایک مکمل حکمت عملی اپنانا ہوگی. اس حکمت عملی کے لیے ہمیں چھوٹے چھوٹے اقدام کرسکتے ہیں مثلاً

1. تنقیدی سوچ Critical Thinking کی تربیت: ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں Critical Thinking کو فروغ دینا ہوگا تاکہ لوگ مختلف نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھ سکیں۔

2. ایموشنل انٹیلیجنس: ہمارے لیے Emotional Intelligence کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے فروغ دینا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھ سکیں۔

3. سوشل میڈیا پر احتیاط:سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکا ہے، اور یہاں پر لوگ بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کیے فوراً رائے قائم کرتے ہیں۔ کسی کے بارے میں غلط معلومات یا نامکمل معلومات کی بنیاد پر جج کرنا بہت آسان ہوتا ہے اس لیے ہمیں خود کو روکنا ہوگا اور پہلے تحقیق کرنی ہوگی۔ Psychology ہمیں بتاتی ہے کہ Immediate Reactions اکثر جذباتی اور غیر متوازن ہوتے ہیں، جبکہ غور و فکر کے بعد دیا گیا رد عمل زیادہ معقول اور درست ہوتا ہے۔

4. دینی تعلیمات کو سمجھنا اور صحیح معنوں میں اپنانا

ہمیں دین اسلام کی اصل روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ دین ہمیں رواداری، صبر، اور معاف کرنے کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہمارے لیے بہترین مثال موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے دشمنوں تک کے ساتھ محبت اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ قرآن پاک میں بھی ہمیں بار بار تلقین کی گئی ہے کہ ہم دوسروں کو جج کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔

سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں۔ اور جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اس سے کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے” (49:12)۔

نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث میں بھی اس بات ہر بہت زور دیا ہے کہ ہم اپنے اعمال اور الفاظ سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائیں. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ اس کی بے عزتی کرتا ہے” (صحیح مسلم)۔
اسی بارے میں ایک اور حدیث پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“جو اپنے بھائی کے عیوب کو ڈھانپتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب کو ڈھانپے گا” (صحیح بخاری)۔

سادہ الفاظ میں قرآن و حدیث بھی ہمیں یہی کہتا ہے کہ دوسروں کو جج کرنا، ان کی غیبت کرنا اور ان کے بارے میں منفی گمان کرنا ایک برا عمل ہے، اور ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔

قرآن و حدیث کے علاوہ ہمیں Basic Human Psychology کو بھی سمجھنا ہوگا جن میں سے چند اہم چیزیں یہ یہ ہیں.

ہمیں دوسروں کے جذبات کو سمجھنا اور ان کے جوتوں میں خود کو رکھ کر سوچنا یعنی Empathy ایک بہترین طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے ججمنٹل رویے کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کی مشکلات، مسائل، اور ان کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم خودبخود ان کو جج کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

سائیکالوجی کے مطابق، Empathy کے ذریعے ہم اپنے اندر کی منفی سوچوں کو مثبت رویوں میں بدل سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے فوری ججمنٹل خیالات کو روکنے اور غور و فکر کے بعد فیصلے کرنے کی طاقت فراہم کرتی ہے۔

خود شناسی Self-Awareness کی ضرورت

ہمیں اپنے رویوں کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کرنی ہوگی۔ جب ہم کسی کو جج کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟ کیوں ہم کسی کے بارے میں منفی رائے بنا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے خوف، عدم تحفظ، یا تعصب کی بنیاد پر یہ فیصلہ کر رہے ہیں؟ Self-Awareness ہمیں اپنے ججمنٹل رویے کو کنٹرول کرنے اور بہتر رویے اپنانے میں مدد دیتی ہے۔

اپنی Cognitive Biases سے آگاہی

ہمیں اپنی Cognitive Biases یعنی ذہنی تعصبات کے بارے میں بھی شعور حاصل کرنا ہوگا۔ یہ وہ تعصبات ہیں جو ہمارے فیصلوں اور خیالات کو غلط رخ پر لے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

Confirmation Bias
یہ تعصب ہمیں اس طرف مائل کرتا ہے کہ ہم صرف وہ معلومات دیکھیں جو ہماری پہلے سے بنی ہوئی رائے کی تصدیق کرتی ہیں اور مخالف حقائق کو نظرانداز کریں۔ اس کی وجہ سے ہم کسی شخص کے بارے میں پہلے سے موجود نظریات کو تقویت دیتے ہیں اور اس کی مثبت خصوصیات کو نظرانداز کرتے ہیں۔

Fundamental Attribution Error
اس میں ہم دوسروں کی غلطیوں کو ان کی شخصیت کا حصہ سمجھ لیتے ہیں، جبکہ اپنی غلطیوں کو حالات سے جوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص بدتمیزی کرے تو ہم فوراً اسے بداخلاق کہہ دیتے ہیں، لیکن اگر ہم خود ایسی حرکت کریں تو اسے اپنے حالات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

Halo Effect
یہ تعصب ہمیں کسی کی ایک مثبت یا منفی خصوصیت کی بنیاد پر اس کی پوری شخصیت کا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایک بار غلطی کر دے تو ہم اس کو مکمل طور پر غلط سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اس کی دوسری خصوصیات بہت اچھی ہو سکتی ہیں۔

In-group Bias
اس میں ہم اپنی جماعت، فرقے، یا گروپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسرے گروپس کو جج کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت اور گروہی تعصبات کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے فرقے یا جماعت کو حق پر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔

Negativity Bias
یہ تعصب ہمیں منفی معلومات کو زیادہ اہمیت دینے پر مجبور کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کے بارے میں ہمیں کچھ مثبت اور کچھ منفی باتیں معلوم ہوں تو ہم منفی باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس کی شخصیت کا مجموعی جائزہ لینے میں ناکام رہتے ہیں.

بچوں کی تربیت میں اہمیت

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب رویے بچپن سے سیکھے جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو دوسروں کے بارے میں منفی باتیں کرنا، انہیں جج کرنا یا ان کے عیوب نکالنا سکھاتے ہیں تو یہ عادت ان کی پوری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہمیں بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ وہ دوسروں کو قبول کرنا سیکھیں، انہیں عزت دیں، اور اپنے خیالات کو تحمل سے بیان کریں۔

ماں باپ کا بھی یہ فرض ہے کہ بچوں کو Emotional Intelligence سکھائیں ، انہیں مختلف نقطہ نظر سے سوچنے کی تربیت دیں، اور ان میں Empathy یعنی دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں جو ان کی شخصیت کو بہتر بنانے میں مددگار ہو اور ان کو ایک متوازن انسان بنائے نہ کہ ایک ججمنٹل اور جذباتی انسان.

آخر میں یہی کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسروں کے بارے میں فوری رائے قائم کرنا ہمارے اندرونی مسائل کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ دوسروں کی شخصیت کی۔ اگر ہم اپنے اندر کی عدم تحفظات اور تعصبات کو پہچان لیں، اگر ہم اپنے خیالات کو سمجھنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیں، اور اگر ہم دوسروں کی حالت کو سمجھنے اور ان کے مقام میں خود کو رکھ کر سوچنے کی کوشش کریں، تو ہم اس منفی رویے سے نکل سکتے ہیں۔

یاد رکھیں، دوسروں کو جج کرنا ہمارا کام نہیں، بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں محبت، رواداری، اور معافی کا رویہ اپنانا ہوگا تاکہ ہم ایک بہتر انسان اور ایک بہتر معاشرہ بنا سکیں۔

دوسروں کے عیوب دیکھنے سے پہلے، اپنے دل کی صفائی کریں، کیونکہ جب دل صاف ہوتا ہے تو نظر بھی دوسروں کے اچھے پہلو دیکھتی ہے۔

julia rana solicitors london

اگر آپ کو اس پوسٹ سے کچھ سیکھنے کو ملا تو اسے دوسروں کے ساتھ ضرور شیئر کریں تاکہ کسی اور کو بھی اس سے کچھ سیکھنے کو ملے.
نوٹ:اس پوسٹ کا مقصد ذاکر نائیک کی حمایت یا مخالفت کرنا نہیں ہے اور نہ ہی کیس مسلک پر تنقید. پوسٹ کا بنیادی مقصد ہمارے معاشرے کی نفسیات پر روشنی ڈالنا ہے اور یہ میرے محدود علم کی بنیاد پر لکھی گئی پوسٹ ہے. لہذا کسی قسم کی ججمنٹ سے گریز کریں.
بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply