ہم غیر مہذب ضرور ہیں،غیر اسلامی نہیں/عامر شہزاد

”بہن، بہن آپ غلط ہیں، آپ کا سوال غلط ہے۔۔آپ پہلے مانیے کہ آپ غلط ہیں“۔

”اسلامی معاشرہ پیڈوفائل نہیں ہو سکتا“۔

سفید قمیض اور کالے ماسک والی لڑکی شاید اس نے خود کو پروشہ کہا تھا
بہت متین لڑکی تھی جس کی  آنکھوں میں تجسس تھا لیکن یہ تجسس مر جاتا ہے اگر اسے اس راہ پہ ڈال دیا جائے جہاں سے صرف وہ گزر سکتے ہیں جنہیں کھوجنے سے پہلے پا لینے کی آرزو ہوتی ہے۔

پروشہ کے لفظوں میں نہ تو مذہب پر اعتراض تھا اور نہ الحاد کی سرفرازی کی تمنا تھی۔
وہ جاننا چاہتی تھی کہ،عورتیں پردہ کرتی ہیں، تبلیغی اجتماعات ہوتے ہیں، مرد داڑھیاں رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں تو
برائی کیوں نہیں رک رہی۔۔سود کا لین دین چل رہا، جھوٹ بولا جا رہا ہے، ڈرگ آڈیشن زندگیاں تباہ کر رہا ہے، زنا بھی نہیں رک رہا اور پیڈو فائل اتنا  عام کیوں ہوتا جا رہا ہے؟۔
”کیوں“۔۔یہی ”کیوں“ اسکا تجسس تھا..

اسے جان لینا چاہیے تھا کہ اسکی ”کیوں“ کا تجسس، تالیوں کی گونج کے نیچے دب جائے گا اور اسکی آنکھوں میں تجسس کی بجائے عزت نفس کے مجروح ہونے کا احساس تیرنے لگے گا۔

اک وقت تھا جب میں بھی سوالات سے بھری گدڑی اٹھائے پھرتا تھا اور نہ جانے کن کن دروازوں پر دستک دیتا،
لیکن جواب نہیں ملتا تھا۔۔پھر میں چپ ہو گیا،اور میری چپ مجھ پر وہ جوابات آشکار کرنے لگی جو میرے تھے۔
اسی چپ کے راز کو پروشہ  بھی پا چکی ہوتی تو اس کے بے باک لہجہ میں جھجھک نہ اترتی اور نہ اس کی ”کیوں“ کو مذہب کی صلیب پر لٹکنا پڑتا۔

یہ سوال چونکہ اک مخصوص علاقہ سے متعلق تھا تو اس کا جواب وہی شخص دے سکتا تھا۔

جو نہ صرف اس علاقہ کی زمینی صورتحال سے واقف ہوتا بلکہ اسکا وہاں کے سماجی ڈھانچہ سے بھی مکمل آگاہ ہونا ضروری تھا۔

اس سوال کو بشریاتی،نفسیاتی اور جنسیاتی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے تھا
مہمان ڈاکٹر صاحب جن کا علم مقدس کتابوں کے صفحات کے نمبر اور سطریں یاد کرنے تک محدود ہے۔

ان سے ایسا سوال کیا جانا، ان کے دئیے گئے جواب سے بڑی بے وقوفی ہے۔

بات بڑی آسانی سے سمٹ سکتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اسلامی معاشرہ کو آسمان پر لٹکا دیا جہاں اس کے لئے کچھ بھی فرض کیا جا سکتا ہے۔

جنہیں کتابوں کے صفحہ نمبر رٹنے نہیں آتے وہ جانتے ہیں کہ انسان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ اس میں کوئی خامی ہی نہ ہوا،ور ایسا سماج جس میں کسی برائی کا ہونا ممکن نہ ہو وہ انسانوں کے جہاں میں وجود نہیں رکھ سکتا۔

قرآن کے کچھ صفحات پلٹے جائیں، احادیث کی کتابوں سے گرد جھاڑ کر، موٹی عینک لگا کر اگر عربی کے ان گہرے لفظوں کو کھنگالا جائے تو
رسالت مآب کے مقدس عہد اور خلفاء راشدین کے وقت میں بھی زنا، اغلام بازی،شراب نوشی جیسے کیسز آتے تھے اور ان پر خدائ حدود بھی جاری ہوتی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب مہمان ہیں اور قابل عزت ہیں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ رسالت مآب کے عہد کے سماج کو غیر اسلامی کہیہ سکوں۔

سماج کوئی عمر گزار چکا بوڑھا نہیں ہے جو ٹوپی پہن کر مسجد میں بیٹھ جائے گا
یہ فرد کی اکائیوں سے تشکیل پاتا ہے اور فرد نیکی اور بدی کے امتزاج سے۔

حالات کچھ نازک دور سے گزر رہے ہیں، دو دن پہلے کی اک رپورٹ نظر سے گزری، اک مولوی صاحب نے مسجد کے اندر کسی بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

چند عرصہ پہلے اک بڑھے ہوئے پیٹ اور سکڑے ہوئے عضو تناسل والے صاحب جو کسی بچے کو قرآن پڑھا رہے تھے اور ماسٹربیشن بھی کرا رہے تھے۔
وقت موافق ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کی بات پر دل کھول کر ہنستا لیکن ہمارا قیدی نمبر فلاں فلاں جیل میں ہے۔

اللہ نہ کرے اگر ڈاکٹر صاحب درست ہوئے سب سے پہلے مساجد اور مدارس پر غیر اسلامی ہونے کی تختی لگانی پڑے گی
مہنگائ کے اس عالم میں ہمارے قومی خزانے میں اتنی جمع پونجی نہیں ہے کہ اتنی تختیاں افورڈ کر سکیں۔

ڈاکٹر صاحب کے ٹائی کوٹ پر جملے کسنا اس مولوی سے بڑا چھچھورا پن ہے جو پینٹ کو کافرانہ لباس سمجھتا ہے
یہ انکا پرسنل معاملہ ہے کہ وہ سر پہ ٹوپی رکھیں یا مانگ نکال کر شوخیاں اڑائیں۔
تنگ نظری کی انتہا انکی ذات پر جملے کسنا اور انکے دورہ پاکستان پر معترض ہونا ہے۔

julia rana solicitors london

ڈاکٹر صاحب معزز مہمان ہیں لیکن۔۔۔شائد انہیں یہ حقیقت سمجھنے میں پچاس ہزار کافروں کو مسلمان کرنے سے ذیادہ وقت لگے کہ
سود خوری، زنا، اغلام بازی،جھوٹ،رشوت اور لوٹ مار کرنے کے باوجود بھی ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلام کی بقا ہمارے ہی دم سے مشروط ہے۔
”ہم غیر مہذب ضرور ہیں لیکن غیر اسلامی نہیں ہیں“

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply