کل 327 صفحات اور 17 ابواب پر مشتمل یہ کتاب اپنی نوعیت کی اس موضوع پر لکھی گئی کتاب ہے – انتہائی سلیس اور سادہ نثر میں لکھی گئی کتاب ہے جس میں کہیں ژولیدہ اور گنجلک و مبہم نہیں ہے – مارکس واد تناظر کے ساتھ پختونخوا کی قوم پرست سیاست پر یہ شاید پہلی کتاب ہے –
کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے پہلے تو بڑے جامع مگر مختصر انداز میں تاریخ دیکھنے کے مارکسی طریقہ کار کی وضاحت کی ہے اور مصنف نے لکھا ہے کہ اس نے اسی طریقہ کار کے تحت پختون خوا میں دیہی غریبوں کی ایسی تحریکوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جن کو ترقی پسند قرار دیا جاسکتا ہے – ان کا خیال ہے کہ پختون قوم پرست تحریک کی شروعات برطانوی سامراج کے پختون خوا میں بندوبست اراضی میں پیوست ہیں اور اس سے پھر کسان تحریک کا ظہور ہوا – پھر ایک وقفہ جس میں قوم پرست اور کسان تحریک دونوں کمزور ہوئیں تو 90ء کی دہائی میں رجعت پرست تحریکیں جیسے صوفی محمد کی تحریک اٹھی اور اس سے آگے متحدہ مجلس عمل کا جنم ہوا اور پھر طالبان اور اس سے آگے پھر قوم پرست پشتون تحفظ موومنٹ کا جنم ہوتا ہے – مصنف نے ان تحریکوں کے اندر دیہی عوام کی شرکت کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے – مصنف کے خیال میں پختون خوا سماج میں دیہی غریب سے عمومی طور پر مراد وہ سب سماجی گروہ ہیں جو کسی نہ کسی لحاظ سے مارجنلائزڈ سماجی – معاشی اعتبار سے کمتر بنائے گئے گروہ ہیں اور پختون خوا کے دیہی سماج کی ھیرارکی/سماجی درجہ بندی وہ چھے درجوں میں تقسیم ہیں:
چھوٹے مالکان کاشتکار
ایکٹر سے کم رقبے کے مالک
چھوٹے مالکان ، مزارعے
بٹائی پہ کاشت کرنے والے
بے زمین زرعی مزدور
دیگر شعبوں مصروف کار زار مزدور
مصنف کا خیال ہے کہ پختون خوا جغرافیائی لحاظ سے برطانوی ہند ریاست میں اور پھر پاکستان کی ریاست کے کنارے /حاشیے پر رہا اور عوام کی بڑی تعداد بھی سماجی لحاظ سے ترقی کے اشاریوں کے اعتبار سے بھی نیچے ہی رہی ہے –
مصنف یہ خیال بھی پیش کرتا ہے کہ وہ لبرل لکھاریوں کی طرح یہ نہیں سمجھتا کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے لیے پختون خوا میں ریاستی عملداری اور انتظامی توسیع کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھتا ہے کہ پختون خوا کے جغرافیائی اعتبار سے کنارے پہ رہنے کے سبب برطانوی ہند ریاست کے دور میں یا پاکستان ریاست کے ادوار میں جبر کی کمی رہی ہے بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہے یعنی یہ جبر زیادہ شدید رہا ہے – پختون خوا کے جغرافیائی اعتبار سے کنارے پہ ہونے ، اس کی تزویراتی /اسٹرٹیجک محل وقوع کی اہمیت اور عوامی مزاحمتی تحریکوں کے پس منظر کے پیش نظر سیاسی اصلاحات کرنے کے باب میں برطانوی ہند انتظامیہ اور پاکستان کی مرکزی انتظامیہ ہچکچاہٹ سے کام لیتی رہی ہیں – اس دوران جتنی بھی سیاسی و معاشی اصلاحات ہوئیں وہ یا تو سرمایہ دارانہ ضرورتوں کے پیش نظر ہوئیں یا پھر عوامی سیاسی سماجی مزاحمتی تحریکوں اور بغاوتی شورشوں کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے کی گئیں-
عوامی سماجی سیاسی مزاحمتی تحریکوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پختون خوا میں جو سیاسی اصلاحات کی گئیں ان میں بھی استعماری ، ریاست اور اشرافیہ کے مفادات کو مقدم رکھا گیا –
پختون خوا میں دیہی سماج میں جو سماجی طبقاتی درجہ بندی میں مصنف نے دیہی غریب طبقہ کو جو لیا ہے اس میں اس کے بقول اس میں کچھ کچھ دیہی مڈل کلاس ، گرامچی جنھوں سب آلٹرن گروہ کہتا ہے اور فرانز فینن جنھیں ریچڈ آف دا ارتھ /افتادگان خاک کہتا ہے شامل ہیں –
پختون خوا کے دیہی سماج کی ھیرارکی/درجہ بندی میں دیہی غریبوں کے مقابلے میں بڑے زمیندار مالکان ، کاروباری ، خوشحال کسان ، قبائلی سردار اور ملک شامل ہیں –
پختون خوا میں تقسیم ہند کے بعد کے دیہی سماج میں دیہی تحریکیں دو درجوں میں بٹی ہوئی ہیں ایک کو کسان تحریک کہہ سکتے ہیں جبکہ دوسری کو ہم کاشتکار تحریک کہہ سکتے ہیں – کسان تحریک میں قیادت سوشلسٹ خیالات سے متاثر مڈل و پروفیشنل کلاس کو قیادت ملی جبکہ کاشتکار تحریکوں قیادت چھوٹے خوانین کو ملی – ان کی قیادت میں دیہی غریب اور مڈل و پروفیشنل کلاس چلتی رہی –
مصنف کا خیال یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں ممالک میں جو قومی آزادی کی جدوجہد تھی وہ وہاں مزدور تحریک کمزور ہونے اور کسانوں کے بطور طبقہ منظم نہ ہونے کے سبب اس میں دیگر سماجی طبقات اور ان کی پرتیں آگے آتی رہیں – پختون خوا میں کسان تحریکوں کی کمزوری کے سبب اور مزدور طبقے کے منظم نہ ہونے کی وجہ سے قومی جدوجہد میں گاؤں کے اندر قومی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی عناصر اپنا مضبوط سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھتے رہے اگرچہ قومی جمہوری جدوجہد میں کسان خود مختیار قوت کے طور پر سامنے آتے رہے –
مصنف کا کہنا ہے کہ پختون تاریخ نویسی سے لیکر سماجی علوم پر حالیہ جو دانشورانہ دور ہے اس میں امریکی جامعات کے تحقیق کے طریقہ کار ، پوسٹ ماڈرن ازم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہت زیادہ اثر ہوا ہے اور اسی تناظر میں پختون خوا میں ماضی میں چلنے والی تحریکوں کا ازسر نو جائزہ لیا جا رہا ہے – یوں ترقی پسند تاریخ نویسی کو اب روایتی تاریخ نویسی کے ساتھ ساتھ جدید دور کی سامراجی پوسٹ ماڈرن جدید تاریخ نویسی کے چیلنج کا بھی سامنا ہے – مصنف کا کہنا ہے کہ اس نے پختون خوا میں قوم پرست تحریک ، کسان تحریک اور دیہی غریب تحریکوں کا ترقی پسند تاریخ نویسی کے اصولوں کے تحت جائزہ لیا ہے جس میں جبر و استحصال کے خلاف نیچے سے ابھرنے والی عوامی جدوجہد کا جائزہ لیا گیا ہے-
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں