ہم سات ایک ساتھ (13)-زید محسن حفید سلطان

مظفر آباد سے پیر چناسی کا پُر سکون سفر شروع ہوا تو ایک بات سمجھ آئی کہ چھوٹا سا سہارا بھی انسان کو بڑا حوصلہ دیتا ہے ، عام طور پر پہاڑی راستوں کے دو جانب کا منظر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بلند وبالا پہاڑ تو دوسری طرف گہری گہری کھائیاں ، اور ایسے سفر میں روڈ چاہے اچھے بھی بنے ہوئے ہوں لیکن اگر کھائی والی طرف باؤنڈری نہ ہو تو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے لیکن اس راستے پر چھوٹی چھوٹی باؤنڈری بنی ہوئی تھی جو کافی سکون کا باعث تھی ، اب منظر کچھ یوں تھا کہ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی ، بادلوں سے چھن چھن کر گرنے والا پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر اترتا اور پھر بہتا ہوا مظفر آباد کی طرف رواں دواں ہو جاتا ، اور ہم تھے کہ اس پانی کی سمتِ مخالف میں اونچائی کو چڑھتے جا رہے تھے کہ ذرا ہم بھی تو اس شفاف پانی کے منبع تک پہنچیں۔

راستہ بڑا شاندار تھا ، ایک ایک پہاڑ خود میں کوئی عجائب خانہ لئے کھڑا تھا ، اور ان کو دیکھ کر جو خیال آتا تھا وہ یہی تھا کہ یار پہاڑ تو واقعی بہت مضبوط چیز کا نام ہے۔

مجھے ایک استاد کا واقعہ یاد آ گیا ، فرماتے ہیں کہ عرصہ ہوا مجھے ذمہ داری دی گئی کہ حدیث پڑھانی ہے ، اب پڑھاتے پڑھاتے حج وعمرہ کے حوالے سے بھی احادیث آ جاتی اور میں بیان کر دیتا ، پھر ایسا ہوا کہ حج کی سعادت نصیب ہوئی ، وہاں جا کر حج ادا کیا ، پڑھی اور پڑھائی ہوئی آیات و احادیث پر عمل پیرا ہوا ، پھر جب واپس آیا اور حدیث پڑھائی تو الگ ہی لطف آیا ، گویا کعبہ میرے سامنے ہو اور میں طلباء کو ایک ایک رکن پر عمل کر کے دکھا رہا ہوں ، کہتے ہیں اس دن میں نے سوچا کہ کاش میں ان تمام طلباء کو بھی دوبارہ یہ ابواب پڑھا سکوں جو ادائیگی حج سے پہلے پڑھ کر گئے ہیں۔

یہ بات مجھے پہاڑ دیکھ کر یاد آئی تو میں نے عبید سے کہا:
“یار ، ہم نے کتنی ہی بار سنا اور پڑھا ہے کہ قیامت کی ہولناکی کا یہ عالم ہوگا کہ پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اُڑ رہے ہوں گے ، لیکن اس مثال یا اس منظر کی ہیبت کو کبھی اس انداز سے نہیں سمجھ سکے جتنا آج ان پہاڑوں کو دیکھ کر سمجھ آ رہا ہے ، کہ یہ کتنے  بڑے  اور جاندار پہاڑ ہیں کہ ان کو چیر بھی ڈالو تو جگہ پر قائم رہیں ، ہلیں تک نہ ، نہ ان پر کسی وزن کا کوئی اثر پڑے ، نہ کسی موسم کا  ،اور قیامت کا روز ہوگا یہ مضبوط پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ ۔واقعی یہ سفر انسان کیلئے صرف تفریح کا سامان نہیں کرتے بلکہ اگر “فَسِیرُوا فِی الاَرضِ” کے حکم کو بجا لایا جائے تو کوئی شک نہیں کہ: “اِن فِی ذَلِکَ لَآیَات لِقَوم یَتَفَکرُونَ”

سفر یونہی جاری تھا ، کچھ لوگ اشارہ بھی کرتے کہ آگے تک چھوڑ دو لیکن ہر کسی کو بٹھا لینا ہمارے بس میں کہاں تھا ، اسی اثناء میں کسی ہماری ہی عمر کے لڑکے نے اشارہ دیا تو گاڑی رکوا کر اس کو ساتھ بٹھا لیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھا اور خاموشی سے بیٹھا ہی رہا۔۔ بالآخر ہمیں ہی بات شروع کرنا پڑی ، بات کیا تھی بس یوں کہیے زندگی کا سبق پڑھا رہا تھا ، ویسے بات تو ہم نے اس سے ایسے ہی شروع کی تھی جیسے عام طور پر مسافر کسی مقامی سے کرتے ہیں ، کہ جیسے سامنے والا مردم شماری کا افسر ہو اور سارے شہر کا ڈیٹا ساتھ لے کر گھوم رہا ہو۔۔ ۔لوگ کیا کرتے ہیں؟ ، کیسے جیتے ہیں؟ ، کتنی آبادی ہے؟ ، شادی بیاہ کا کیا نظام ہے؟ ، کماتے کیسے ہیں؟ ، کھاتے کیسے ہیں؟ اور طرح طرح کے سوالات۔

سوالات کے چلتے چلتے بات اس بات پر نکلی کہ وہ اس بارش میں کہاں جا رہا ہے۔ ۔کہنے لگا کہ پیر چناسی ہی جاؤں گا ، وہاں ہوٹل پر کام کرتا ہوں ۔۔کسی نے بڑی ہمت کر کے پوچھا:
کماتے کیا ہو؟
کہنے لگا: “عید ، بقر  عید اور شادی بیاہ پر سیٹھ کی طرف سے جوڑے مل جایا کرتے ہیں ، ہر مہینے کا راشن ڈل جاتا ہے ، جنگلات میں بنے جھونپڑی نما گھر کا کرایہ سیٹھ کے ذمے ہے ، کبھی کوئی نقصان ہو جائے تو مرمت بھی وہی کروا دیتے ہیں۔ ”
ہمیں اس کی باتیں تو ایسی لگیں کہ جیسے کہہ رہا ہو:
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے
لیکن جب اس سے پوچھا کہ اس سب میں کمایا کیا ، بچایا کیا؟
تو بڑی تسلی سے کہنے لگا: اس سے زیادہ کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی ، اگر ہوتی بھی ہے تو پھر سیٹھ کو کہہ دیا کرتے ہیں۔۔

یہ سن کر وہ حدیث یاد آ گئی کہ جب فتنے بہت زیادہ ہو جائیں تو پہاڑوں اور جنگلات میں ٹھکانہ بنا لینا۔ ۔شاید اس کی وجہ کبھی سمجھ نہ آتی لیکن اس دن یہ سمجھ آئی کہ زندگی گزارنے کا ایک سلیقہ یہ بھی ہے کہ ضرورت کے  مطابق کماؤ ، حد میں رہ کر کھاؤ اور سکون کی نیند سو جاؤ۔ ۔اور یہی تو وہ طریقہ ہے جو نبی آخر الزماں ﷺ نے اپنایا ، جس پر آپ کے اصحاب نے زندگیاں گزاریں کہ جتنی ضرورت ہوتی رکھ لیا کرتے باقی یوں بانٹ دیا کرتے کہ جیسے اگلے روز ضرورت ہی نہیں پڑنی اور ہم ہیں کہ:
سامان سو برس کا ہے
پل بھر کی خبر نہیں
اور جب ذرا ایسی زندگی پر غور کریں تو ایک بات یہ سمجھ آتی ہے کہ یہی تو لوگ ہیں جن کے حساب کتاب آسان ہوں گے ، کہ جو پوچھا گیا:
كتنا كمایا؟
كہاں سے كمایا؟
كہاں خرچ كیا؟
تو كہہ دیا كہ جتنی ضرورت تھی اتنا ہی كمایا اور جتنا كمایا خرچ كر دیا۔۔ ہماری طرح تھوڑی كہ صرف فضولیات كی ہی اگر لسٹ دیكھ لیں تو حیران و پریشان  رہ جائیں۔
اور سچ پوچھیں تو ہماری ضروریات بھی اتنی ہی ہوتی ہیں جتنی اس جوان نے گنوائیں لیكن  بس خواہشات چین نہیں لینے دیتیں ۔

پہلے پہل تو سب شوقیہ ہوا كرتا ہے ، پھر شوق آہستہ آہستہ عادت میں بدلتا ہے ، پھر عادت ایسی پڑتی ہے كہ مجبوری بن جاتی ہے اور بالآخر ہم اس نقطے پر آ كھڑے ہوتے ہیں كہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ یقین نہ آئے تو آج ہی اپنی ضروریات ترتیب دیں ، اورپر نوجوان كی ضروریات سے موازنہ كریں اور دیكھ لیں كہ ستر فیصد سے زیادہ فضولیات كو ہم نے ضروریات كے زمرے میں ڈال ركھا ہے۔
زندگی كا یہی سبق سیكھتے ہم پیر چناسی كے قریب ہوتے چلے جا رہے تھے اور اس سے بالكل لا علم تھے كہ بھلا اگلی منزل كا پسِ منظر كیا ہے؟

قبل اس كے كہ ہم كسی پسِ منظر میں جاتے پیشِ منظر میں ایک خوبصورت نظارہ ہمارا منتظر تھا جہاں نیلم اور جہلم كا سنگم ہو رہا تھا ، جہاں دو بڑے دریا بل كھاتے ہوئے ایک دوسرے میں ضم ہو رہے تھے۔۔ہم گاڑی سے اتر كر اس شاندار منظر كو دور ہی سے دیكھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے كہ انسان بھی ایسے ہی تو ہوتے ہیں كہ نام مختلف ہیں ، قبائل الگ الگ ہیں ، ممالک متنوع ہیں ، رنگ و قد میں فرق ہے ، لیكن ہیں تو انسان ہی نا،ہیں تو مٹی ہی نا۔۔جیسے یہ دونوں پانی ہیں ، سیراب الگ الگ زمینوں کو کرتے ہیں ، موسوم مختلف ناموں سے ہیں لیکن ہیں تو دریا ہی نا ، ہیں تو پانی ہی نا۔۔یہ تو بڑے اطمینان سے مل رہے ہیں ، ایک دوسرے سے ملنے کو پتھر کاٹنے پڑ رہے ہیں ، پہاڑوں کا سینہ چاک کرنا پڑ رہا ہے ، آڑھا ترچھا راستہ بنانا پڑ رہا ہے بنا رہے ہیں لیکن آپس میں مل رہے ہیں ، پھر ہم کس چیز  کے بنے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے میں کوفت ہوتی ہے ، ہزار رکاوٹیں کھڑی کر لیتے ہیں ، انا کے مسئلے بنا لیتے ہیں؟
ذرا آپ بھی سوچیے گا!

ہم بھی ان منتشر افکار کو لئے واپس گاڑی میں بیٹھے اور اس لڑکے سے پوچھا کہ یہ پیر چناسی کیسی جگہ ہے؟
کہنے لگا: “بہت اچھی جگہ ہے”
تشنگی باقی تھی تو پوچھا: بہت خوبصورت ہے نا ، برف وغیرہ ہوتی ہے وہاں۔؟
بڑی عقیدت سے گویا ہوا: “وہ سب تو ہے لیکن اصل تو پیر صاحب کا مزار ہے”
اوہو!
تو “پیر چناسی” کسی پیر صاحب کا مزار ہے ، لو جی ہمارے تو ذہن میں بھی نہ آیا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا ، اور پھر ہمیں سمجھ آیا کہ لوگ جو جوق در جوق جا رہے ہیں وہ خوبصورتی دیکھنے نہیں حاضری دینے جا رہے ہیں۔

یہ تو ہند وپاک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے خاص کر دیہاتی اور پہاڑی علاقوں کا ، کہ ان تک تعلیماتِ دین صحیح سے نہ پہنچ سکیں ، اور وہ ان سب کاموں کو عین دین سمجھ کر کرتے ہیں۔

یہاں مجھے ایک اینکر یاد آ رہے ہیں جن کو افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے ہاں (پاکستان میں) شرح خواندگی صرف ۷۰ سے ۷۵ فیصد کے درمیان ہے ، اور مجھے یہ افسوس ہو رہا ہے کہ دنیاوی معاملات تو پھر پچھتر فیصد افراد کو پتا ہیں لیکن میری قوم میں اپنے دین کی شرح خواندگی کی سطح بہت کم ہے ، کہ جس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، خود ہی سوچیں کہ شیطان نے رب العالمین کی عظمت ہمارے دلوں میں کتنی کم کردی ہے کہ نو ہزار فٹ بلندی پر بھی ہم نے آخری چوٹی پر مزار بنا رکھا ہے ، کتنی مشکلات جھیلی ہوں گی اس کیلئے اور کتنی تکالیف اٹھائی ہوں گی لیکن جب محبتوں کو واجب المحبت ذات سے موڑ کر مخلوق میں تقسیم کر دیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

سچ بتاؤں تو یہ ایک بڑا سنگین جرم ہے کہ ہم اللہ کو خالق تو اکیلا مانتے ہیں ، مالک تو یکتا تصور کرتے ہیں ، لیکن معبود ہونے میں مختلف لوگوں کو بیچ میں لے آتے ہیں ، یوں سمجھیں کہ جب ہم لینے پر آتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ اللہ اکیلا ہی ڈائریکٹ ہمیں عطا کرتا ہے ، لیکن جب اس کے حق کی ادائیگی کی باری آتی ہے تو ہم کبھی قربت کے نام پر ، کبھی وسیلے کے نام پر ، کبھی کسی اور طور پر دوسروں کو بیچ میں لے آتے ہیں ، گو کہ عبادت تو اسی کی کرتے ہیں لیکن ذرا گھما پھرا کر ، مانگتے تو اسی سے ہیں لیکن دوسروں کو بیچ میں لا کر اور یہ تب ہوتا ہے جب دلوں کو حقیقی توحید سے متعارف نہ کروایا جائے ، جب قلوب وافئدہ میں اپنے خالق کا صحیح تصور نہ پیدا ہو ، اور جب تعظیم کو عبادت سے الگ چیز مان لیا جائے
ورنہ اگر دل میں رب کی تعظیم ہو تو آپ ہی کہیے کون بے وقوف ہوگا جو اس کے حقِ عبادت میں کسی کو شریک تسلیم کرے؟
کون ہوگا جو اس “حی القیوم” ذات تک پہنچنے کیلئے “اموات غیر احیاء” ذوات کو بیچ میں ڈالے؟
کون ہوگا جو اس سمیع البصیر رب کو حال سنانے کیلئے ان کو سنانے کی کوشش کرے جو سننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں؟
کون ہوگا جو “ادعونی استجب لکم” کا اعلان کرنے والے کے دربار میں جانے کے بجائے کسی اور کے دربار پر جائے کہ ان کی سنی جاتی ہے؟
کہیے نا کہ کون ہوگا جو اس شہ رگ سے بھی قریب ذات کو پکارنے کیلئے نو ہزار فٹ بلندی کا سفر کرے اور کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹائے؟

شاید ان سب باتوں کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ، یہ باتیں تو ہر فطرتِ سلیم رکھنے والے کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں ، لیکن وہ حالی نے کہا تھا نا کہ:
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کرے شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جاکے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
یقین جانیں عبادت کے بارے میں یہ کشادگیاں ہمیں قرآن و حدیث سے نہیں ملیں ، بلکہ ہم نے خود کو صرف کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے ویسا ہی سمجھ لیا ہے جیسا یہود نے خود کو عذاب و عقاب سے بَری تصور کر لیا تھا ، ورنہ کس کی مجال ہے کہ کلمہ تو پڑھے لیکن عقائد واعمال اس کے بر عکس کرے ، یقیناً دین قول وعمل کا نام ہے کہ صرف کہہ دینے سے جان نہیں چھوٹ جایا کرتی بلکہ:
عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آج ہم مسلمانوں کو حد سے زیادہ ضرورت ہے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں ، اپنے عقائد کو ٹٹولیں اور خرابیوں سے نکل آئیں۔یقیناً یہ مشکل ضرور ہے ، اس میں مشقت ضرور ہے لیکن “نَارُ جَھَنَّمَ أشَدُّ حَرًّا” جہنم کی آگ سے یہ سارے کام کم مصیبت والے ہیں۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply