یورپ کے خاندانی نظام بارے دیسی غلط فہمی/انور مختار

بڑے عرصے سے دِل چاہ رہا تھا کہ کبھی یورپ بالخصوص برطانیہ کے خاندانی نظام پر دوبارہ سے لکھوں ۔ ہمارے ہاں ایک بڑی غلط فہمی موجود ہے کہ جیسے ہم پاکستانی دُنیا کی بڑی انوکھی قوم ہیں جو بڑی مہمان نواز ہے اور ہمارے ہاں تو خاندانی نظام بڑا عُمدہ یا مربُوط ہے اور مغربی دُنیا میں یہ نظام ختم ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ موضوع بڑا گُنجلگ سا ہے اِس پر آپ کو بات کرتے وُہ بندہ بھی مِلے گا جس کا یورپ سے یا مغرب سے واسطہ اتنا ہی ہے کہ کبھی انگریزی فلمز دیکھ لِیں ، کِسی سے سُن لِیا اور کہیں لکھا پڑھ لِیا ۔ دُوسرے ہمارے اپنے دیسی پاکستانی بھائی جو یہیں مغرب میں رہتے ہیں اور مُختلف انفرادی واقعات کو بطور شہادت اور بطور حتمی نتیجہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ جبکہ میری ناقص رائے اِس کے بالکل برعکس ہے ۔ پہلے ہم مہمان نوازی کی بات کرلیتے ہیں ۔ مہمان نوازی ہم پاکستانیوں کا ہی شیوا نہیں بلکہ افغان ، پشتون ، ازبک ، تاجک ، ایرانی اور سعودی وغیرہ بھی بلا کے مہمان نواز ہوتے ہیں ۔ اب مغربی ممالک کے بارے میں ہمارا یہ نظریہ کہ لوگ مہمان نواز نہیں ہوتے ذرا تعصب ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ ہمیں کلچر کی سمجھ نہیں ہے ۔ بِلاشُبہ ہم مہمان نواز ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ خُوبی بس ہمارے تک ہی محدود ہو۔
اب دھیان سے سمجھیں ، ہم پاکستانی اپنے آپ کو مہمان نواز کہتے یا سمجھتے کیوں ہیں ؟ ہمیں کہیں اپنے مُلک میں گورا یا ایسا بندہ نظر آجائے جو شکل سے ہی ہمیں پتہ ہو کہ غیر مُلکی ہے تو ہم اپنے مُلک کا ایک اچھا تاثر دینے کے لیے اُس کے ساتھ اچھا پیش آتے ہیں ۔ ہمارے ریسٹورینٹ پر اگر وُہ کھانا کھاتا ہے تو یا تو ہم رعایتی نرخ لگائیں گے یا بالکل ہی پیسے نہیں لیں گے ۔ کیوں ؟ کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اپنے ہم وطنوں اور دوستوں عزیزوں کے ساتھ بھی اِتنے ہی اچھے ہیں ؟ جواب ہے نہیں ۔ ہم بلکہ دَبا کر چارج کرتے ہیں اور چُونا لگانے سے باز نہیں آتے ۔ البتہ ابھی تک ہمارے گھروں میں مہمانوں کا آنا جانا اُن کی خاطر مدارت ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور یہ کلچر مغرب میں اِس طرح موجود نہیں ہے ۔ پاکستان کے بارے میں ہم سب شعوری طور پر اِس بات سے آگاہ ہیں کہ ہمارا تاثر بیرون ممالک بہتر نہیں تو کہیں نہ کہیں ہمیں یہ تاثر زائل کرنا ہے اِسی لیے ہم غیر مُلکی افراد سے نسبتاً بہتر سُلوک کرتے ہیں اور اِس میں کُچھ بُرائی نہیں لیکن اِس کو مغرب کے ساتھ موازنہ کرنا بُہت عجیب ہے ۔
مغربی کلچر کی مہمان نوازی ذرہ مُختلف ہے ۔ اب جیسے امریکہ ( امریکہ مغربی ممالک میں سے ایک نہیں لیکن بات کلچر کی ہورہی ہے ) کے بارے میں ایک جُملہ ہمارے ہاں بڑا عام ہے there is no free lunch اب ہم کیا کرتے ہیں کہ اِس جُملے کو من و عن مطلب کے طور پر لیتے ہیں کہ وہاں تو کھانا ہر بندہ اپنا اپنا کھاتا ہے اور سب اپنا اپنا بِل ادا کرتے ہیں ۔ بھئی فرق سمجھیں پہلی بات تو یہ کہ اِس جُملے کا مطلب کھانا وغیرہ نہیں ہے بلکہ اِس کا مطلب ہے کہ دُنیا میں مُفت کُچھ نہیں مِلتا ۔ ہر شے کی ایک قیمت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ خیر اب ایک مِثال دیتا ہُوں ، فرض کریں آپ ایک کاروبار کرتے ہیں کِسی ایسے بندے سے جو لندن کا گورا ہے ، نیویارک کا امریکن شہری ہے یا پیرس کا فرانسیسی ہے اُس کا نام آپ جیک ، ہیوز ، یا آندرے ہے آپ اُس کے ساتھ بزنس کرتے ہیں ، اُس کی کمپنی سے کُچھ خریدتے ہیں یا اُس کو کُچھ بیچتے ہیں ۔ اب آپ کو وُہ کِسی میٹنگ کے لیے مِلنے آتا ہے یا آپ اُس کو مِلنے جاتے ہیں اور یہ میٹنگ ایک لنچ یا ڈنر پر ہوتی ہے اگر آپ اُس کی دعوت پر ہیں تو بِل کون دے گا یا اگر وُہ آپ کی دعوت پر ہے تو بِل کون دے گا ؟
سیدھی سی بات ہے اگر وُہ آپ کے پاس آیا ہے تو آپ بِل دیں گے یا بصورتِ دیگر وُہ ادا کرے گا ۔ اگر ایسا نہیں تو یہ اخلاق کے منافی کام ہوگا ۔ اب آگے سُنیں ۔ جب جب رمضان آتا ہے ، ہماری عید بقرعید ہوتی ہے تو ہمارے پڑوسی جِن میں گورے ، جمیکن ، سردار اور ہندو ہیں وُہ باقاعدہ نہ صرف مُبارک باد دیتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی پکوان بھی بنا کر بھیجتے ہیں یا بنا بنایا ہی بھیج دیتے ہیں ۔ اِسی طرح جب کرسمس کا موقع آتا ہے ، ہولی ، دیوالی وغیرہ تو ہم لوگ بھی کُچھ نہ کُچھ جیسے ٹرکی پکا کر ، کیک یا مٹھائی اُن کے گھروں میں دیتے ہیں اور وُہ بھی کُچھ نہ کُچھ ضرور بھیجتے ہیں ۔ یہ کلچر ہے ۔ اِس کو آپ مہمان نوازی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کبھی کبھار ہم اپنے پڑوسیوں کو لنچ یا ڈنر اور کبھی چائے پر بُلاتے ہیں اور پڑوسی بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ تو اب کون مہمان نواز زیادہ ہُوا میں بطور ایک پاکستانی یا وُہ ؟ میرا خیال ہے کہ یہ برابر کا کام ہے اور آپ اچھے ہیں تو وُہ بھی اچھے ہیں ۔دُوسرا اِن ممالک میں امیگریشن کا دباؤ اِس قدر زیادہ ہے کہ وُہ ہر نئے چہرے کو مہمان نہ بنا سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔
اب ہم دیسیوں کا مسئلہ کیا ہے ؟ ایک تو بالعموم ہم زیادہ تر ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ہمارے آس پاس زیادہ پاکستانی ہوتے ہیں تو وہاں ہمیں سمجھ نہیں لگتی اور موقع نہیں مِلتا کہ ہم مقامی افراد کے کلچر کو قریب سے سمجھ سکیں ۔ پاکستانی بُنیادی طور اِس طرح یورپ میں نہیں بلکہ ذہنی اور معاشرتی اعتبار سے پاکستان میں ہی رِہ رہے ہوتے ہیں ۔حالانکہ میں جہاں رہتا ہُوں وہاں بھی گورے زیادہ نہیں بلکہ پاکستانی یا انڈین نسبتاً زیادہ ہیں لیکن پھر بھی میرے پوسٹ کوڈ یعنی آس پڑوس میں مِلی جُلی قوموں کے افراد رہائش پذیر ہیں اِسی لیے سب سے دُعا سلام ہیلو ہائے رہتی ہے ۔ میں انڈین شادیوں میں بھی شریک ہوتا ہُوں ، جمیکن کے گیٹ ٹُو گیدر میں بھی اور گوروں کی روایتی شادی کی تقریبات میں بھی ۔ یہ ایک طرح سے باہمی ہوتا ہے آپ اُن کو اپنی تقریبات میں شامل کریں گے وُہ آپ کو شامل کریں گے ورنہ نہیں ۔باقی یہاں ہر بندہ مصروف ہے اور گھر زیادہ بڑے نہیں ہوتے کہ آپ کِسی رشتے دار وغیرہ کے ہاں جاکر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جائیں بلکہ اب تو پاکستان میں بھی ایسا بُہت کم ہوتا ہے ۔ یہ مہمان نوازی نہیں بلکہ اگلے بندے کو اذیت میں مُبتلا کرنا ہے ۔
پاکستان کا ایک روایتی خاندانی نظام جِس پر ہم فخر کرتے ہیں وُہ دراصل ہے کیا ؟ ماں باپ اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کے ساتھ ایک بڑے گھر میں روایتی طور پر رہتے آئے ہیں ۔جہاں گھر میں کھانے والے زیادہ ہوتے اور کمانے والے کم ۔ ایسے میں اگر کوئی بھائی نکما ہے یا کماتا نہیں ہے تو بھی اُس کی شادی بھی کی جاتی ہے اور اُس کے بچے بھی رُلتے کُھلتے پَل ہی جاتے ہیں ۔ اب کئی لوگ اِس نظام کو اچھا کہیں گے اور کہتے ہیں جبکہ میری اپنی رائے میں یہ ایک استحصالی نظام ہے جِس میں چند افراد پر زیادہ بوجھ ڈال دِیا جاتا ہے اور چند افراد موجیں کرتے رہتے ہیں ۔
جہاں تک مُشترکہ خاندانی نظام ہے تو یہ کوئی مذہبی یا اِسلامی خاندان کا نظام نہیں بلکہ صدیوں سے ہندوستان میں جاری مقامی (ہندوؤں کا ایک ) خاندانی نظام ہے ۔ میرا مقصد اِس نظام کو اچھا یا بُرا ثابت کرنا نہیں بلکہ بس سمجھانا ہے ۔ ایک مرد کی شادی ہوتی ہے تو اُس کی بیوی کو ساس سسر سمیت سسرالیوں کی خِدمت گار بننا پڑتا ہے حالانکہ اِسلامی خاندانی نظام میں بھی کہیں یہ فرض نہیں کہ بیوی اپنی ساس یا اپنے سسر کی خِدمت کرے بلکہ شوہر کو یہ تاکید ہے کہ اگر وُہ استطاعت رکھتا ہے تو بیوی کو الگ گھر لے کر دے ۔ باقی ہمارے اِسی خاندانی نظام میں کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جو ہم سب کو معلوم ہیں اور ہم انھیں کھلے بندوں زیر بحث لانے یا ماننے میں یقین نہیں رکھتے جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارا ملک بوجوہ ایک فلاحی ملک یا ریاست نہیں ہے یہاں پر بزرگ شہریوں معذوروں بے روز گاروں بے سہارا خواتین جیسا کہ بیوہ مطلقہ کو اپنا گزارا چلانے کے لیے ریاست کی جانب سے معقول معاوضہ ملتا ہو یا اسی قبیل کی دیگر سہولیات میسر ہوں۔ اب ایسی صورتحال میں جس عورت کے ایک دو بچے ہیں اس کا شوہر فوت ہو گیا ہو یا اس کو طلاق دے گیا ہو تو اسکے لیے دوبارہ اپنا گھر بسانا کتنا مشکل ہوتا ہے گو مذہب اس کی نا صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تلقین بھی کرتا ہے لیکن عملاً ہمارے پاکستانی معاشرے میں ایک عورت کے لیے یہ سب آسان نہیں اور زیادہ تر ایسی عورتیں مجبوراً اپنے والدین کے گھر یا بھائیوں کے در پر رہتی ہیں اور ان کے ساتھ کتنا اچھا سلوک رَوا رکھا جاتا ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
اسی طرح ہر بوڑھا انسان سرکاری ملازمتوں سے فارغ التحصیل نہیں ہوتا جس کو گورمنٹ ایک مخصوص رقم ماہانہ ادا کرتی ہے۔ بہت سارے بزرگ شہری عمر کے اس حصے میں کسی قسم کی بھی آمدنی سے محروم ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے بچوں یا ان کے بچوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ملک میں اولڈ ہومز کی ناصرف کمی ہے بلکہ اولڈ ہومز کو باقاعدہ ایک لعنت یا ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر خاندان اپنے بزرگ افراد کو اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں چاہے ان کو پسند ہو یا نہ ہو۔ گو میرا گمان یہی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کو بوجھ نہیں سمجھتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے بزرگ عملی طور پر اپنے بچوں کے محتاج ہوتے ہیں اور بعض کیسز میں گھر کے ایک گوشے میں نا پسندیدہ مہمان یا عضوئے معطل کی طرح پڑے ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ خوامخواہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
اس کے برعکس مغربی خاندانی نظام بہت مختلف ہے۔ یہاں پر بھی والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے کہ والدین کی شادی ہوئی ہے یا وہ ایک دوسرے کے ساتھ پارٹنر کی طرح رہ رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ مغرب خود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہاں پر باقاعدہ شادی کا تصور کم ہوتا جا رہا ہے لیکن ہم اس تصور کو خاندان کی اکائی کے تصور کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں چاہے وہ بچے والدین کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں یا شادی کے بغیر بطور پارٹنر رہنے کے باعث پیدا ہوئے ہوں۔ والدین کے لیے وہ ان کی اولاد ہیں اور اولاد کے لیے وہ ان کے والدین ہیں۔ یہاں پر اولاد کو معاشرہ یا ریاست مذہبی نقطہء نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ ریاست کا بچہ ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو ہر ممکن آسائش دیتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں لیکن اگر والدین کی استطاعت نہیں ہے تو بھی ریاست ان بچوں کو مناسب وظیفہ دیتی ہے تعلیم فری ہے، علاج معالجہ مفت ہے،اور بچے کے بڑے ہونے کی صورت میں اس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے آسان قرضے مہیا کرتی ہے اور بے روزگار ہونے کی صورت میں بیروزگاری الاؤنس دیتی ہے۔ والدین کو یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ انھوں نے بچوں کو تعلیم دلوانی ہے انھیں گھر بنا کر دینا ہے یا ان کی آسائشوں کے لیے جان توڑ محنت کرنی ہے یا ناجائز ذرائع سے ان کے لیے پیسے یا جائیداد بنانی ہے اِسی لئے یہاں پر یہ مسائل کم ہیں اور بچے بھی والدین پر ہمارے معاشروں کی طرح بوجھ نہیں ہوتے ۔
ہارون ملک کے قلم سے
اگرچہ ہمارے دیسی بھائی یہاں پر بھی وہی کولہو کے بیل کی طرح محنت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنی بساط سے بڑھ کر راحتیں دینے کے چکر میں اپنی زندگیاں اجیرن کر دیتے ہیں۔بہرحال ہمارے اندازِ فکر کے کیا کہنے ! خیر بات یہ ہے کہ ایک نارمل مغربی خاندان بھی اپنے بچوں یا اُن کے بچوں سے
بچوں سے پیار کرتا ہے اور یہاں بھی کزنز اور انکل وغیرہ کا باقاعدہ نہ صرف تصور موجود ہے بلکہ آپس میں میل مُلاقات اور اکٹھے کھانے پینے کے مواقع بنائے جاتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply