دیکھیے معاشرے کے بگاڑ کا ذمہ دار ہر وہ فرد ہوتا ہے جس کی مسؤلیت میں ، جس کے under میں کچھ افراد آتے ہوں اور وہ مسؤلیت کا حق ادا نہ کرے ، چاہے وہ والدین کیلئے اولاد کی صورت میں ہوں ، استاد کیلئے طلباء کی صورت میں ہوں یا باس کیلئے ملازم کی صورت میں ہو ، اسی طرح بطورِ معاشرہ ہر بڑا اپنے سے چھوٹے ، ہر ذی علم وشعور نا بلد ، اور ہر لیڈر اپنی قوم کی اصلاح کا ذمہ دار ہے ، جس میں جہاں اس نے اچھائیاں سکھانی ہیں وہیں برائیوں سے بچانا بھی ہے ، اور جب کسی بھی طبقے میں ذمے داری کا عنصر ختم ہو جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ، اور بڑے افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں شاید ہر طبقے میں کسی حد تک عدم ذمہ داری کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے ،جس کی وجہ سے بگاڑ اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے ، اور یہی وہ ذمہ داری ہے جس کو بارہا قرآن وحدیث میں مسلمانوں کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے اور خوب تاکید کی گئی ہے ، اور اس کی ادائیگی نہ کرنے کے سنگین نتائج بھی بتائے گئے ہیں ، لیکن ہم ہیں کہ ذمہ داری ادا کرنے کو تیار ہی نہیں ۔پھر جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے تو ایک دم جوش آ جاتا ہے ، قسم قسم کی تحریکیں چلتی ہیں ، بڑے بڑے مطالبے ہوتے ہیں اور پھر ہم دوبارہ سب بھول بھال کر گھروں میں بیٹھ کر کسی نئے حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ہماری حمیت و غیرت بھی کچھ عرصے کیلئے جاگتی ہے۔
پھر ایک بار “پردہ” موضوعِ بحث بنتا ہے اور اس حوالے سے حجاب کی اہمیت ، شرعی پردے کی ضرورت وغیرہ پر باتیں ہوتی ہیں۔
تو کہیں کہیں “اسلامی حدود کے نفاذ” کی گونج بھی اٹھتی ہے کہ مجرم کو سزا ہی ایسی ملے کہ آئندہ کوئی ایسی اوچھی حرکت کرنے سے باز رہے ۔
لیکن سچ پوچھیے تو یہ صرف جذباتیات اور نعروں تک محدود باتیں ہیں ، جن کی تنفیذ کیلئے ہم بالکل بھی تیار نہیں ہیں ، اور یہ صرف وہی پالیسی ہے کہ جب معاملہ حد سے گزر جائے تو مردے اکھاڑنے سب آ جاتے ہیں لیکن اس بیمار اور مفلوج قوم کی اصلاح میں کوئی کسی قسم کا کردار ادا کرنے تیار نہیں ہے اور جب تک ہم یہ کردار ادا نہیں کریں گے اس وقت تک ایسے ہی نا پسندیدہ نتائج ہمارے ساتھ آتے رہیں گے۔
اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ، اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں اور ایک منظم اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھیں جہاں درندوں کی درندگی کا جواب ان کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دیا جائے ، اور مظلوموں کی حفاظت کے انتظامات ہو سکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں