میڈیا میڈیم کی جمع ہے ۔ اس ذریعے کو کہتے ہیں جس کے تحت اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جاتی ہے ۔ ابتداء میں انسان ہی میڈیا کا کردار ادا کرتے تھے پھر خط و کتابت کے ذریعے یہ کام کیا جانے لگا ۔ آگے جا کے ٹیلی فون پھر ریڈیو، ٹی وی آگئے اور آج اس کی جدید ترین شکل سوشل میڈیا ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ سوشل میڈیا کے سامنے اب تو پرنٹ کیا الیکٹرانک میڈیا بھی گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ حکمران چینلوں کی بجائے سوشل میڈیا سائٹس کو بند کرتی ہے یا انٹرنیٹ ہی بند کر کے عوام کے غصے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ بڑے بڑے صحافی، سیاستدان، علما ،الغرض زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس پر موجود ہیں ۔ جہاں ہر چیز کا فائدہ ہے وہاں نقصان بھی ہے ،جیسے ہتھیار بنیادی طور پر فائدہ مند چیز ہے ،فوجی کے ہاتھ میں ہو تو دفاع کا کام کرتا ہے لیکن کسی بچے یا نہ سمجھ انسان کے ہاتھ میں ہو تو انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہی صورتحال سوشل میڈیا کی ہے ۔ جہاں دنیا اس کا مثبت استعمال کر کے اپنے کاروبار کو بڑھا رہی ہے اساتذہ اس کے ذریعے علم پھیلا رہے ہیں ،طلبہ تعلیمی مواد حاصل کرتے ہیں اور اس سے بے شمار فائدے اٹھاتے ہیں ۔ وہاں ہم چونکہ بحیثیت معاشرہ جاہلانہ رویش رکھتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا کے منفی کردار کے استعمال میں ہی خوش ہیں ۔
ہر شخص کو صحافی خصوصاً حامد میر بننے کا شوق ہے ۔ تحقیق اور تصدیق سے کوسوں دور ہماری قوم سوشل میڈیا پہ کوئی بھی خبر جاری کر دیتی ہے پھر یہ اتنا تیز رفتار ہے کہ اس کی تردید ممکن نہیں ۔ ان دنوں تو ویسے بھی ہم احتجاج احتجاج ہی کھیل رہے ہیں۔ سر راہ ایک بات یاد آئی کہ اکیڈمی میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا ایک لڑکا میٹرک کے امتحان دے رہا تھا، میٹرک کر کے فارغ بھی ہوگیا ادھر ابھی بھی کوشش جاری تھی ،استاد محترم نے بڑے خوبصورت انداز میں وضاحت کی کہ کم غریب لوگ ہیں کرکٹ، ہاکی کھیلتے ہیں یہ امیر ہے میٹرک میٹرک کھیلتا ہے ۔

یہی حال ہماری قوم کا بھی ہے کچھ بھی نہیں بس صرف احتجاج۔ ایک ہفتہ قبل پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ نے خودکشی کر لی تو خبر پھیل گئی سوشل میڈیائی گد ھ فوراً میدان میں آگئے اوراس طرح کے مختلف واقعات پھیلانے لگے، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ، صرف ویوز کی خاطر کسی کی زندگی، کاروبار تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے ۔ کل لاہور میں مشتعل نوجوانوں نے پنجاب کالج کے ایک کیمپس میں توڑ پھوڑ اس بنا پر کی کہ یہاں کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ طوفان بدتمیزی اس قدر شدید تھا کہ مظلوم کون ہے کسی کو پتہ ہی نہیں ۔ خدائی خدمت گار سزا دینے پہنچ گئے۔ پولیس نے اپنی گردن چھڑانے کے لیے ملزم کو حراست میں لیا ، حکومت نے کالج کی رجسٹریشن کینسل کی ۔ بعد میں کسی کو ہوش آیا کہ متاثرہ بچی کون ہے ، مختلف نام سامنے آئے ہر ایک کے والدین نے اس کی تردید کی ۔ جہالت کی انتہا ایک بچی 10 دن سے کالج نہیں آرہی تھی تو اس کا نام لگا دیا گیا ،معاملہ اتنا سنگین تھا کہ پولیس فورا ًان تک پہنچی ، وہ بیچارے تو ہکا بکا رہ گئے ان کی بیٹی سیڑھیوں سے گری انہوں نے پولیس کو سب رپورٹیں دی لیکن وہ نہ مانے ۔ آخر میڈیا پہ آ کر بیان دیا ۔ اس کے والد کی بے بسی دیدنی تھی وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔ اس کے چچا نے مشکل سے چار پانچ جملے بولے ۔ اس میں سے ایک ہم سب کے منہ پر زوردار طماچہ تھا کہ یہ دکھ صرف بیٹیوں والے ہی محسوس کر سکتے ہیں ۔ حکومت سے امید رکھنا تو فضول ہے وہ اپنے نمبر گیم پورے کرنے ، اپنی کرسیاں بچانے میں مصروف ہیں ۔ ہاں اگر ان کی ذات پہ بات آئے تو ایف آئی اے زمین کی تہہ سے بھی ملزم ڈھونڈ کر لے آئی گی لیکن کسی معصوم کی زندگی بچانے کے لیے ان کو کوشش کرنے کی فرصت نہیں ۔ معاشرے کے اہل علم ، اساتذہ ،علما ، صحافی وکلا, دانشوروں اور والدین کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کریں۔ اساتذہ اپنے طلبہ کو آگاہی دیں علما اس موضوع کی سنگینی کو اپنے جمعے اور دیگر دروس میں واضح کریں ،باقی دیگر لوگ اپنے حلقہء احباب میں سوشل میڈیا کو زیر بحث لائیں، بغیر سوچے سمجھے کسی پوسٹ کو شیئر نہ کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں ۔ہمیشہ کی طرح ذرا نہیں مکمل غور کیجئے ۔تجربہ شرط ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں