پشتون قومی جرگے کے حالیہ انعقاد سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اور پشتون قوم جو سو سال سے اپنے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے خاموش تھی، اب اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ صبر کی انتہا جب حدوں کو چھو جائے تو عوام کا اٹھنا فطری امر بن جاتا ہے۔ آج پشتون قومی جرگے میں عوام کے جم غفیر اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے زیر غور لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب پشتون قوم اپنے حقوق کے لیے میدان میں آ گئی ہے۔
پشتون قوم کو درپیش مسائل کی ایک طویل فہرست ہے:
تعلیمی پسماندگی
پشتون علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی کمی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
روزگار کے مواقع کی کمی
پشتون علاقوں میں بیروزگاری اور روزگار کے مواقع کی کمی ہے، جس سے لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
صحت کی سہولیات کا فقدان
معیاری طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور صحت کے مراکز کی کمی پشتون علاقوں میں بڑا مسئلہ ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
امن و امان کی خراب صورتحال
دہشتگردی اور بدامنی کی وجہ سے پشتون علاقوں میں عدم استحکام اور خوف کی فضا ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
نسلی و لسانی تعصبات
پشتون قوم کے خلاف تعصب اور نسلی بنیاد پر تفریق کا سامنا ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
بنیادی ڈھانچے کی خرابی
سڑکوں، بجلی اور پانی کی فراہمی جیسے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی یا ناقص صورتحال ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
بجلی کی پیدوار سے فائدہ نہ ملنا
پشتون علاقوں میں بجلی پیدا تو کی جا رہی ہے، لیکن مقامی آبادی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
معدنی وسائل کا غیر منصفانہ استعمال
پشتون علاقے معدنی وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن ان وسائل کا فائدہ مقامی لوگوں کو نہیں پہنچ رہا۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
سیاسی عدم نمائندگی
پشتون قوم کی سیاسی سطح پر کمزور نمائندگی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر نہ کرنے کی شکایت۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
نقل مکانی اور مہاجرین کا مسئلہ
جنگ اور دہشتگردی کی وجہ سے پشتون علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
کلچر اور زبان کو خطرہ
پشتون ثقافت اور پشتو زبان کو بڑھتے ہوئے جدیدیت اور گلوبلائزیشن کے دباؤ سے خطرہ لاحق ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
منشیات اور انتہاپسندی کا فروغ
کچھ پشتون علاقوں میں منشیات اور انتہاپسندی کا فروغ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
زمینی تنازعات
پشتون علاقوں میں زمینوں کے ملکیتی تنازعات اور ان کے حل میں تاخیر ایک مستقل مسئلہ ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی
دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی میں کمی ہے، جو کہ تعلیمی اور کاروباری ترقی میں رکاوٹ ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
خواتین کے حقوق اور مواقع
خواتین کے لیے تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع محدود ہیں، جس سے ان کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
نوجوانوں کے مسائل
نوجوان نسل کو بیروزگاری، منشیات اور تشدد جیسے مسائل کا سامنا ہے، اور انہیں صحیح رہنمائی اور مواقع میسر نہیں۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
پانی کی قلت
کچھ پشتون علاقوں میں پانی کی قلت اور ناقص آبپاشی نظام کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
علاقائی ترقی کا فقدان
دیگر علاقوں کے مقابلے میں پشتون علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا فقدان ہے، جس سے معاشی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
مہنگائی اور غربت
مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور غربت کی موجودگی لوگوں کی زندگیوں کو مشکل بنا رہی ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
قانون کی عملداری کی کمی
پشتون علاقوں میں قانون کی عملداری کمزور ہے، جس کی وجہ سے جرائم اور غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات
موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے سے پشتون علاقے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لیکن ان مسائل کے حل کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
پشتون قومی جرگہ ہے نا
اب اگر یہ تمام مسائل منظور پشتین کی قیادت میں پشتون قومی جرگہ حل کرے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر موجودہ حکومت کا کیا کردار رہ جاتا ہے؟ حکومت کا بنیادی فریضہ عوام کے مسائل کو حل کرنا، امن و امان برقرار رکھنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اگر پشتون قوم کو خود ہی اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا پڑے، اور منظور پشتین کی ٹیم ان مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو تو حکومت کی کیا افادیت رہ جاتی ہے؟ کیا یہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت نہیں ہے کہ ایک قومی تحریک کو عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سامنے آنا پڑا ہے؟

اگر موجودہ حکومت حکمرانی نہیں کرسکتی تو پشتون قومی جرگہ ہے نا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں