اٹلی میں کام کی تلاش/گھوڑا گدھا سب برابر( 3)-محمود اصغر چوہدری

یورپ میں آتے ہی ایک جملہ آپ کوفوراً سننے کو ملے گا کہ یہاں گھوڑا گدھا سب برابر ہیں۔ اس لئے آپ تعلیم کا رعب نہ جھاڑیں۔اوور سمارٹ بننے کی کوشش نہ کریں ۔ مجھے یہ جملہ پہلے دن ہی سننے کو مل گیا ۔ ہم روم جانے والی ٹرین کے انتظار میں تھے ۔ چاچا اسحاق بولاجوان  تیرے جئے سکولیے یورپ آکر بہت پچھتاتے ہیں یہاں مزدور ی ڈاہڈھی اوکھی ہے ۔جلال الدین جو ایک بنگالی تھاوہ مجھے باربار ایک ہی مشورہ دے رہا تھا اپنا پاسپورٹ پھاڑ د ے، پکڑاگیا تو سیدھاپاکستان ڈیپورٹ کر دیں گے ۔ میں نے سر جھٹک دیا ،پاکستانی پاسپورٹ کوپھاڑنا تو دور میلا کرنے کو بھی دل نہیں کرتا تھا ۔ غلام سرور نے لقمہ دیا۔ہمیں ہر صورت میں پولیس سے بچنا ہوگا۔ وہ ڈیپورٹ نہ بھی کریں تو کسی ریفیوجی کیمپ میں بھیج دیتے ہیں۔ خادم بولا اوگھبراؤ  نہیں یہاں امیگریشن کھلی ہوئی ہے ۔ جلال الدین بولا لیکن پھر بھی اگر انہوں نے فنگرپرنٹس لے لئے تو ہم امیگریشن اپلائی نہیں کر سکیں گے ۔تھوڑی دیر میں ایک تیز رفتار ٹرین آکر رکی ۔ ہم فورا ً اس میں داخل ہوگئے ۔ یہ اٹلی میں ہمارا پہلا دن تھا ۔اور ہم سب ال لیگل تھے۔

ایک گھنٹے کا سفر نہیں گزرا ہوگا کہ  ٹی ٹی آگیا۔ ٹکٹ چیک کرتے ہی اس نے شور مچا دیا کہ یہ ٹکٹ ٹھیک نہیں ہے ۔مجھے جلال نے جگایا ۔ ٹی ٹی کہہ رہا ہے نیچے اُترویہ تیز ٹرین ہے ۔ ہمارا ٹکٹ نارمل ٹرین کا ہے میں نے کہا اسے پوچھو اضافی پیسے کتنے چاہیے  ٹی ٹی کو انگریزی نہیں آتی تھی اور ہمیں اطالوی نہیں آتی تھی ۔جلال کو یونانی آتی تھی او رٹرین میں ایک البانوی ہمارا ترجمان بنا ہوا تھا ۔ ٹی ٹی نے پچاس ہزار لیرے مانگے ۔ اٹلی میں ان دنوں لیرا چلتا تھا نوٹ پر اتنے زیادہ صفرہوتے تھے کہ سمجھ نہیں آتی تھی میں نے کہا یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں فوراً پانچ ہزار یور و کا نوٹ نکالا اور اسے تھما دیا اس نے نوٹ ہمارے منہ پر مارا بولا یہ پانچ کا نوٹ ہے پچاس کا نہیں ۔ اگلے اسٹیشن پر اس نے کہا اُترو سب نیچے ۔ ہم اکڑ گئے ۔ اس نے پولیس بلالی ۔ نیلی وردیوں میں ملبوس یہ دو پولیس والے تھے ایک نوجوان اور ایک حسینہ ۔

جلال اور سرور کے پسینے چھوٹ گئے ۔ چاچا اسحاق بولا کر لو گھیو نو پانڈا ۔ پہلے دن ہی پولیس ۔ میں نے ان سب کو کہا کہ بالکل خاموش ہوجاؤ اور مجھ پر چھوڑ دو۔ پولیس والے ہمارے پاس آئے تو اٹالین میں پوچھا پروبلما؟ میں نے چونکہ یونیورسٹی نئی نئی چھوڑی تھی اور انگریزی بھی تازہ تھی ان پر چڑھائی کر دی ۔ نوجوان پولیس کانسٹیبل کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی وہ چپ ہوگیا ۔ البتہ لڑکی کو تھوڑی تھوڑی آتی تھی وہ بولی پلیز فالومی ۔ اس نے ہمیں نیچے اتارا تو میں نے پھر چڑھائی کر دی ،کہ ہم نے ٹکٹ خریدی ہے پیسے دیئے آپ ہمیں ایسے کیسے مجرموں کی طرح اتار سکتے ہیں ۔ انگریزی کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ غصے میں ہوں تو بہت تیزی سے نکلتی ہے ۔

و ہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بولی پلیز لستن۔ یور تکت گد، بت دس ترین نات گد ۔۔ میں نے جب اس کو اتنا کنفیوز دیکھا تومیرا حوصلہ مزید بڑھ گیا ۔میں نے مزید چڑھائی کر دی ۔ واٹ ڈو یو مین ،دس ٹکٹ ازناٹ گڈ ؟۔ وہ مزید پریشان ہوگئی اب وہ مجھے سر کہہ کر بلانا شروع ہوگئی ۔میرا اعتماد مزید بڑھ گیا کہ ڈاکیومنٹ نہیں پوچھے گی ۔ آئی ڈونٹ انڈر اسٹینڈ ۔ میں نے جان بوجھ کر کہا ۔ اس نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا کہ کم وستھ می ۔ وہ ہم سب کو لیکر ٹرینوں کے ٹائم ٹیبل چارٹ کے  پاس لیکر گئی ۔ اس نے انگلی کے اشارے سے کہا دس ترین نات یور۔ یور ترین آفتر تونتی منت ہئیر ۔ پلیز ویت ترین ول کم ۔ میں نے اسے تھینک یو کہا اس نے شکر کیا اس کی انگریز ی ختم ہوگئی تھی ۔ اور میری بھی ۔

وہ دونوں پولیس والے ہمیں وہاں چھوڑ کر چلے گئے ۔ سارا گروپ میرا شکریہ ادا کرنے لگا ، یار بچا لیا تم نے ورنہ آج تو ہم پکڑے گئے تھے ۔ میں نے چاچا اسحاق سے پوچھا ۔ کیا واقعی یورپ میں گھوڑا گدھا برابر ہیں وہ ہنسا کہنے لگا نہیں تعلیم تو پھرتعلیم ہی ہے ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس اسٹیشن سے ملحق ایک پولیس اسٹیشن تھا جہاں سے پولیس والے نکل کر راؤ نڈ  لگا رہے تھے ۔ میں نے ان سب سے کہا بس اب دعا کرو یہ بیس منٹ جلدی سے گزر جائیں اورہم کسی نئی مصیبت میں نہ پھنس جائیں اور ہماری اگلی ٹرین آجائے ۔۔

جتنا اس دن ان وردی والوں سے خوف آرہا تھا وہ ناقابل بیان ہے ۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ تقدیر کبھی ایسے مہربان ہوگی کہ ایک وقت آئے گا کہ میں ایک ایسے دفتر میں بھی کام کرسکوں گا جس کی پارکنگ میں ہر وقت بیس تیس پولیس کی گاڑیاں کھڑی ہوں گی اور میرے ڈیسک کے دائیں بائیں آگے پیچھے پولیس والے وردی میں بیٹھیں ہوں گے ۔ بلکہ پھر ایک ایسا وقت بھی آئے گا ایک دفتر میں چائے کی کنٹین میں میرے دائیں بائیں آرمی آفیسر زبھی بیٹھے گپیں لگا رہے ہوں گے اور مجھے ان کا خو ف نہیں ہوگا ۔

julia rana solicitors london

یقین مانئے ہم دنیاوی کہانیاں لکھتے ہیں لیکن آسمانوں پر بیٹھا لکھاری وہ کچھ لکھ دیتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔۔اللہ اس رمضان کا صدقہ تمام اوورسیز کے سفر کو وسیلہ ظفر بنائے اور انہیں مصیبتوں سے محفوظ رکھے
باقی آئندہ ۔۔
یہ تحریر یں میں ان نئے آنے والوں کے لئے لکھ رہا ہوں جن کو لوگ یہ کہہ کر مایوس کرتے رہتے ہیں کہ کولہو کے بیل بن جاؤ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply