آئینی ترامیم اور عدلیہ/نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کارکنان 26ویں آئینی ترمیم میں صوبے کا نام “پختونخوا” شامل کرنے کے حوالے سے شدید جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ فی الحال صوبے کا نام “خیبر پختونخوا”ہے۔ اے این پی کے کارکنان کا مؤقف ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے دوران پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور اے این پی نے اس وقت کی حکومت (پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) سے درخواست کی تھی کہ صوبے کا نام “پختونخوا” رکھا جائے۔ تاہم، اس وقت قبائلی علاقوں کا صوبے میں انضمام نہیں ہوا تھا، اس لیے نواز شریف نے “خیبر” کو “پختونخوا” کے ساتھ جوڑ کر موجودہ نام تجویز کیا۔

اب وفاقی حکومت ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے، خصوصاً جسٹس سید منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بارے میں۔ حکومت کا ایک دھڑا اس بات پر فکر مند ہے کہ 2024 کے حالیہ عام انتخابات کے نتائج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ گروپ سمجھتا ہے کہ کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ایک وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) قائم کی جائے جس کی سربراہی ایک “ہم خیال” چیف جسٹس کریں، یا پھر سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے پینل کو چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار دیا جائے۔ ان دونوں صورتوں کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

حکومت کے اس دھڑے نے جسٹس شاہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر 12 جولائی کے فیصلے کے بعد جس میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلہ دیا گیا تھا۔ موجودہ آئین کے تحت سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر کیا جاتا ہے، اور قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ میں دس دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، لیکن حکومت نے ابھی تک ان کے جانشین کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔

حکومت کے اندر اس حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر جمعیت علما  اسلام (ف) وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت کرتی ہے تو پھر ججوں کا پینل متعارف کرایا جائے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پینل تین یا چھ سینئر ججوں پر مشتمل ہوگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جمعیت علما  اسلام (ف) نے نہ تو ایف سی سی کے قیام کی تجویز دی ہے اور نہ ہی پینل کی۔ اس کے بجائے، پارٹی نے آئینی اور قانونی معاملات کے حل کے لیے ایک آئینی بینچ بنانے کی تجویز دی ہے۔

حکومت کا ایک اور دھڑا جسٹس سید منصور علی شاہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن فوراً جاری کرنے کی حمایت کر رہا ہے، کیونکہ مزید تاخیر سے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ 7 اکتوبر کو حکومت کے اعلیٰ حکام کے اجلاس میں ایف سی سی کے قیام کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات پر غور کیا گیا، خاص طور پر اس بات کا خدشہ ہے کہ وکلاء برادری اس کے خلاف شدید ردِعمل دے گی۔ یہاں تک کہ حکومت کی حمایت یافتہ وکلاء تنظیمیں بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ناکام ہو سکتی ہیں۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ ان کے ارکان کو آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے عوامی سطح پر حکومت کی بلوچستان کے ساتھ برتاؤ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سینیٹرز اور ان کے اہل خانہ کو سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سینیٹرز سے استعفیٰ دینے کا عندیہ بھی دیا۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی  ڈاکٹر زرقا کے بیٹے کو اغوا کروادیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ خاتون پُر عزم ہے کہ وہ ترامیم کے خلاف ووٹ دے گی۔اور دوسری صورت میں سینٹر شپ سے استعفیٰ  دے گی۔

ملک بھر کے وکلاء نے آئینی ترمیم کے خلاف کنونشنز منعقد کیے ہیں اور وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور جسٹس منصور علی شاہ کو نظرانداز کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا ہے۔ اگر حکومت جمعیت علما  اسلام (ف) کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم منظور کرتی ہے، تو اسے وکلاء اور جمعیت علما  اسلام (ف) دونوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دریں اثنا، اے این پی اس بات سے خوش ہے کہ ترمیم میں “پختونخوا” کا نام شامل کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ ان کی دیرینہ مانگ تھی۔ تاہم، اس حوالے سے مزید اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ کچھ علاقے “جنوبی پختونخوا” اور “شمالی پختونخوا” کے نام پر زور دے سکتے ہیں، جبکہ کچھ جماعتیں “پختونستان” کے نام کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہیں، جو ماضی میں اے این پی کی ایک بڑی مانگ رہی ہے۔ اگر مستقبل میں حالات بدلتے ہیں، خاص طور پر اگر کابل کے اردگرد کے پشتون علاقوں کا اتحاد ہوتا ہے، تو یہ نام ایک نئی آزاد ریاست کے لیے ایک علامت بن سکتا ہے۔

julia rana solicitors

تاہم، موجودہ صورتحال آئینی لحاظ سے بے یقینی کا شکار ہے۔ تجویز کردہ آئینی ترمیم کے وقت کو بعض طاقتور افراد کے حق میں سمجھا جا رہا ہے، خصوصاً عدلیہ کے حوالے سے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم اداروں میں طاقتوں کی تقسیم اور علیحدگی اور عدلیہ کی آزادی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ اس میں آرٹیکل 199 کے خاتمے، ہائی کورٹ کے ججوں کی دیگر صوبوں میں منتقلی اور وفاقی آئینی عدالت کا قیام جیسے معاملات شامل ہیں۔ سینئر ججوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کا امکان بھی تشویش پیدا کر رہا ہے، اور یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جمہوری اصولوں اور عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرے گا۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply