سفر اب اختتام پر تھا اور محسوس کچھ یوں ہوتا تھا جیسے وجود کو کسی نے اُٹھا کر سبزے کے سمندر میں پھینک دیا ہو۔ اگر کوئی میری آنکھوں میں جھانکتا تو شاید اُن کی ہر چھوٹی بڑی شریان سبز رنگ میں رنگی نظر آتی۔
نوروڈ گروپ کے گاؤں سے جب گاڑی مُڑی تب دریا کا دیدار ہوا۔سمندروں سے گھرے ہوئے جزیرے کے اِس دریا کو بھی دیکھ کر حیران ہونا پڑا کہ وہ دریاؤں والا رعب دوب کہیں نہیں تھا۔بیچارہ سمندروں سے رجّی پُجی اِس دھرتی کا یلّا مسکین سا نالہ دکھتا تھا۔چُپ چاپ خاموش لیٹا ہوا،ٹکڑیوں میں بٹا،کٹاؤ دار،کہیں ایسی صورت گری جیسے کسی فیشن ایبل لڑکی نے اپنے لباس میں جگہ جگہ میچنگ کپڑے سے کٹاؤ کے جوڑ ٹانگ دئیے ہوں۔
جسٹنن پریرا اپنی مخصوص دھیمی آواز میں ہمیں سری پاڈا کے تاریخی گلی کوچوں کی سیر کرانے لگے تھے۔
آدم پیک کا مقامی نام سری پاڈا سمینولا کنڈا(Samanola Kanda) ہے۔ سری پاڈا کا مطلب مقدس فٹ پرنٹ اور سمینو لا کنڈا سے مراد سیمن دیوتا کا پہاڑ ہے۔ مغربی سیاحوں نے اسے آدم پیک کا نام دیا ہے۔ سری لنکا کے ساحلوں سے باہر پوری دنیا میں اسکی وجہ شہرت 7437 فٹ بلندی نہیں بلکہ چوٹی پر دھرے پاؤں کے نشان کا تقدس ہے۔ جسے بدھ مت کے پیروکار بُدھا ،کیتھولک عیسائی سینٹ تھامس(حضرت عیسیٰ کے بارہ حواریوں میں سے ایک جو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے منتخب ہوئے)، مسلمان حضرت آدم اور ہندو شیوا دیوتا کا مانتے ہیں۔جب ابھی بدھ مت نے جزیرے پر قدم نہیں رکھا تھا۔تب بھی یہ دیوتا کا پہاڑ کہلاتاتھا۔ہاں البتہ تب انسان نہیں بلکہ پورے جزیرے کی پیلی رنگی تتلیاں اکٹھی ہوکر یہاں آیا کرتی تھیں۔
‘‘ہائے بیچاریاں کِسی زیارتی مشن پر آتی ہونگی۔’’ہنسی بے اختیار ہی اندر سے نکل کر ہونٹوں پر پھوٹ پڑی تھی۔مسٹر جسٹنن بھی مسکرا دئیے۔
یہ زیارتی سلسلے تو کہیں گیارہویں صدی میں جاکر شروع ہوئے۔ویسے آپ بڑے اچھے موسم میں آئی ہیں۔دسمبر سے مارچ تک زیارتی مہینے ہیں ۔بعد میں بارشوں کی کثرت راستے کو خطرناک بنا دیتی ہے۔
‘‘چلو شکر ہم نے بھی کوئی ڈھنگ کا کام کیا۔’’
دفعتاًمسٹر جسٹنن بولے۔
‘‘ذرا سامنے تو دیکھیے۔’’
دُور شفاف آسمان کے نیچے نیلگوں دھوئیں کا بادل تھا جس کے سائے میں سفید گُنبد سا نظر آتا تھا۔ مُنی سی قامت والا پہاڑ۔ اب کے ٹو، نانگا پربت، راکا پوشی اور ترچ میر جیسی دیو قامت چوٹیوں کو دیکھنے والی آنکھ کوبھلا یہ کیا جچتا۔لیکن ایسا کب تھا؟ پورے وجود میں جیسے تھرتھلی سی مچ گئی تھی۔ آنکھوں نے کِس والہانہ پن اور وارفتگی سے دیکھا۔ بچپن سے کہیں ساتھ جو تھا۔
اور پھر جیسے میرے بچپن کے وہ خوابوں کے سے دن ہنستے مسکراتے سامنے آکر رقص کرنے لگے تھے۔
گرمیوں کی راتوں کے اولین پہروں میں چھت پر پڑی قطاردر قطار چارپائیوں پر لوٹنیاں لگاتے منجھلی خالہ سے کہانیاں سنتے جب وہ اپنے لہجے میں بڑا ڈرامائی سا انداز پیدا کرتے ہوئے کہتیں ۔
ہاں تو پیارے بچو رب کریم نے حضرت آدم کو اُس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا۔مگر وہ امّاں حوّا کی باتوں میں آگئے۔انہوں نے پھل کھالیا اور جنت سے نکالے گئے۔
میرے اﷲ اس تصور کی فینٹسی کہ وہ فضاؤں میں کیسے لڑھکتے ہوئے نیچے آئے ہوں گے۔ سمندروں سے گھرے اس خوبصورت جزیرے کی چوٹی پر گرتے ہوئے انہیں چوٹیں نہ آئی ہوں گی اور یہ بھی کتنا مقام شکر تھا کہ وہ زمین پر گرے، جو کہیں پانیوں میں گر جاتے۔ تب کیا ہوتا؟ ساری رات ایسے ہی بے تکے ڈراؤنے سپنوں میں گزر جاتی۔
آدم پیک کی حدود میں گاڑیوں کا اژدہام نظر آیا۔ پر بد نظمی اور بے ترتیبی کہیں نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں کچھ اسی شان بان سے کھڑی تھیں جیسی کسی شہر کی اچھی انتظامیہ سڑک کو دورویہ درختوں سے سجا دیتی ہے۔
سورج پوری آب وتاب سے چمکتا تھااور ہواؤں کی رفتار میں بھی وہی آب وتاب تھی۔میں تو چھاتا لے کر فوراً باہر آگئی۔ بڑے دلفریب منظر تھے۔ کہیں لڑکے لڑکیوں کی چہلیں تھیں۔ کہیں بھرے پُرے خاندان درختوں کی چھدری چھاؤں تلے اپنے اپنے برتن بھانڈے کھولے کھانے میں مُصروف تھے۔
‘‘اﷲ کیسے میرا جی چاہا تھا کہ جا کر انکے ساتھ ہی بیٹھ جاؤں ۔ ایشیائی لوگوں کا من بھاتا کھاجا اُبلے چاول، دال، کباب اچار اور سلاد۔
پھر میں مارا ولاسے آئی ہوئی ایک فیملی کے ساتھ باتوں میں جُت گئی۔ یہ زیارتی جگہ سری لنکا کے چاروں مذہبی گروہوں کے نزدیک حد درجہ مقدس اور محترم سمجھی جاتی ہے۔ یہ سب ہمارے ہاں کی طرح گروپ بنا کر حج یا عُمرے پر جانے والے لوگوں کی طرح ہی تھے۔ مختلف عمروں اور رشتوں پر مشتمل خوش دل لوگوں کا ٹولہ جو ہنس ہنس کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں باتیں کرتا تھا۔
تبھی مسٹر پریرا مجھے کھوجتے ہوئے آئے ۔ میرے اوپر نظر پڑتے ہی وہ اونچی آواز میں چلائے ۔
‘‘جلدی آئیے۔’’
میں بھاگی۔ مجھ سے دس قدم آگے وہ تقریباً دوڑتے ہوئے پیچھے پلٹ کر میری رفتار کا بھی جائزہ لیتے جاتے تھے۔ انکی چال ڈھال اور انداز و اطوار سے جو بے چینی نمایاں تھی وہ کچھ ایسی ہی تھی جیسے کہیں ڈاکہ مارا ہو اور اب تعاقب میں پولیس ہو۔
میں سیٹ پر ٹھیک سے بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ ایکسلیٹر کی کلی دب گئی۔ ہارن کی چیخ وچنگھاڑ کے ساتھ گاڑی دوڑ رہی تھی۔ یہ دوڑ بڑی مسرور کن تھی۔ ایسے جان پڑتا تھا جیسے کہیں کے مہاراجہ ہوں۔ کسی ملک کے سربراہ ہوں۔ کوئی وی آئی پی ہوں کہ دورویہ کھڑے لوگوں کی قطاریں کہیں تعجب اور کہیں رشک و حسد سے دیکھ رہی تھیں۔
‘‘میرے اﷲ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پورا سری لنکا زیارتی مشن پر نکل آیا ہے۔ اسقدر گاڑیاں ،اتنے لوگ ،احساس تفاخر کے ہنڈولے میں جُھولتے جُھومتے میں نے گائیڈ سے پوچھا۔
‘‘پریہ معجزہ ہوا کیسے؟’’
پولیس کو بتایا تھا کہ مجھے دو غیر ملکی عورتوں کو wathsala ہوٹل میں پہنچانا ہے جہاں اُنکے قیام اور دوپہر کے کھانے کی بُکنگ ہے۔
احساس کمتری کی تہوں میں ڈوبا ہوا بیچارہ شعوری اور لاشعوری وجود اُس دم کسی بھیگے ہوئے پرندے کی مانند کسی کونے میں سکڑ گیاتھا۔ تکّبر نے اصیل مرغ کی طرح پر پھڑپھڑائے اور شرمساری سے ہم نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔
مہرالنساء پیچھے بیٹھی ہنس رہی تھی اور اُردو میں اونچی آواز سے ہانک سی لگا رہی تھی۔
‘‘ ارے واہ دوپہر کا کھانا۔کیا بات ہے اِن بیچاری غیر ملکی عورتوں کی۔وہ پھر کھلکھلا کر ہنسی۔
اوّل درجے کی شوم جنہوں نے نویرا علیہ سے دوپہر کے کھانے کے لیے سموسے اور رول صبح ہی خرید لیے تھے۔ گزشتہ دن کی خریدی ہوئی مولیاں اور شلجم بھی کلیجے سے لگا کر ساتھ لے آئی تھیں کہ سلاد کا کوٹا بھی اس سے پورا کرنے کا ارمان تھا۔’’
اُس کی طنزیہ ہنسی ہمیں مزید شرمندگی کے پاتال میں دھکیل رہی تھی۔میں بھی ہنس پڑی تھی۔
جہاں کہیں سڑک کا گھیرا کسی جانب کشادگی لیے ہوتا وہاں کڑاھیوں اور پتیلیوں میں جوان اور بوڑھی عورتیں کھانا پکانے میں جُتی ہوئی تھیں۔
مجھے یاد آیا تھا۔ پچاس کی دہائی میں میری نانی اور دادی حج پر یوں ہی برتن بھانڈوں اور کھانے والی اجناس کے بوروں کے ساتھ گئی تھیں۔ میرے تصور کی آنکھ نے حرم کعبہ کے نواح میں انہیں بھی اسی روپ میں چند لمحوں کے لیے دیکھا اور حظ اُٹھایا۔
wathsala ہوٹل کا کمرہ چھوٹا ضرور تھا پر خوبصورت اور آرام دہ تھا۔ مچھروں سے بچاؤ کے لیے بیڈ کے گرد تنی ریشمی سفید دیدہ زیب جالی نے اُسے عروسی چھپر کھٹ سا بنا دیا تھا۔
سامنے شیشوں سے گہرے سبزے میں گھری آدم پیک، اسکا سفید گُنبد اور راستہ آسمان پر سجے قطبی تارے اورکہکشاں کی مانند نظر آیا تھا۔ چوٹی سے نگاہوں کو اُٹھا کر نیچے پھینکا تو ہریالیوں میں گھرا گاؤں اور کیلانی دریا نظر آیا۔
بیرا کولڈ ڈرنک کے ساتھ خالی پلیٹیں بھی رکھ گیا تھا۔ لنچ نکالا۔ سلاد بنایا اور غیر ملکی عورتوں نے پچاس روپے میں پڑنے والا کھانا خوشدلی سے اُڑایا ۔ ڈکار لیا ۔ وضو کیا اور اُس سرزمین پر جہاں ہمارے باپ آ کر گرے تھے سجدہ کیا۔
یہ تو گائیڈ نے ہی بتا دیا تھا کہ پیک پر جانے کا بہترین وقت رات کو دو بجے کا ہے۔ 4800 سیڑھیاں درمیانی رفتار کے ساتھ چڑھ کر صبح دم جب آپ اوپر پہنچتے ہیں تو ایک د لفریب منظر اپنی پوری رعنائیوں سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس نظارے کی گرفت ابھی ڈھیلی نہیں ہوتی کہ اس سرزمین کا ایک اور خوبصورت منظر طلوع آفتاب آپ کو اپنے آپ میں جذب کر لیتا ہے۔
ذرا کمر سیدھی کرنے پر ہم دونوں ہی تیار نہ تھیں۔ ڈل ہاؤس روڈ پر گاڑیوں کی چیخم دھاڑ کلیجہ دہلائے دیتی تھی۔ کسی چابک رسیدہ سہمے ہوئے گھوڑے کی طرح بدک بدک کر ہم کبھی سڑک کنارے اور کبھی ملحقہ کچے کے سرے پر ہوتے۔ چھوٹے چھوٹے کھوکھے فوڈ انڈسٹری کی ماڈرن صورتوں سے پوری طرح لیس راہگیروں کو لذت کام ودہن کی دعوت دیتے تھے۔
میل بھر چلنے کے بعد ہم ایک رنگ رنگیلے جیسے بھریا میلے کی حدود میں داخل ہوئے۔ دورویہ دکانیں مقامی مصنوعات سے پُر تھیں۔ نسواری ،لال اور زعفرانی رنگوں والے تقریباً تین انچ چوڑے اور 10 انچ لمبے لجلجے سے جیلی نما حلوے کے ٹکڑے جنہیں سنہالی زبان میں دُودُل کہا جاتا ہے ہر مٹھائی والی دوکان کی زینت بنے زائرین کو خریدنے اور کھانے پر اُکساتے تھے۔ہم نے خریدا۔کھایا اور لطف اٹھایا۔واقعتا بہت مزے کا تھا۔
ہم یقیناً اُن دوستانہ اور مخلص مسکراہٹوں سے جو عورتوں کی آنکھوں اور ہونٹوں پر ہمیں دیکھ کر پھیل جاتیں محظوظ ہوئے تھے۔
بدھ عبادت گاہ میں (Monk) مونک زمین پر بیٹھے سینکڑوں پیروکاروں کو لیکچر دے رہا تھا۔ قریبی چوک میں شیشے میں مقید بدھ کا بلند قامت مجسمہ عقیدتوں کے ہزار رنگوں کا ترجمان تھا۔ قریب ہی چوبی پُل کے نیچے کیلانی دریا ذرا زیادہ شور اور زور سے بہتا تھا۔ بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتے جھاگ اُڑاتے اسکے دودھیا پانیوں میں نوجوان لڑکیاں آدھی ننگی، آدھی ڈھنپی، صاف چھُپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی تصویر پیش کرتی تھیں۔ نوجوان لڑکے شارٹس پہنے چھینٹے اُڑانے اور چہلوں میں مصروف تھے۔ مرد اور عورتیں بھی زیارت پر جانے سے قبل جسم کا گند اُتار رہے تھے کہ اوپر جانے سے قبل غسل کرنا اور سفید کپڑے پہننا زیادہ با برکت خیال کیا جاتا ہے۔
کیلانی پُل کی ریلنگ پر دونوں کہنیاں ٹکائے میں نے شفاف پانیوں میں نہاتے اور اٹھکھیلیاں کرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
یہ دھرتی پر اوپر والے کا نائب دنیا کی گھمن گھیریوں میں کیسے کولہو کے بیل کیطرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے چک پھیریاں لیتا رہتا ہے یوں کہ من پر میل کی تہیں چڑھائے چلے جاتا ہے۔پھر جب ہانپنے لگتا ہے تو اِس گند کو اُتارنے کے لیے کتنے جتن کرتا ہے ۔ کہیں ماتھے رگڑتا ہے۔ کہیں دان پُن کرتا ہے۔ کہیں سُر تال سے اُسکو لُبھاتا ہے۔ پر بندے کا پُتر نہیں بنتا۔ یوں ہی چڑھانے اور اُتارنے کے اس عمل میں ایک دن دھڑام سے گر جاتا ہے۔
خود میں دیر تک گم رہنے کے بعد جب باہر آئی تو چاروں طرف بکھرے انسانوں کے اس اژدھام میں مہرالنساء کہیں نہیں تھی۔ اُسے کھوجنے کی بجائے میں نے اطمینان بھرا سانس لیا۔ شاید میں اُسوقت فطرت اور انسانوں کے خاموش مطالعہ کی متمنی تھی۔
پھر میں اُس کچے راستے پر جو دوکانوں اور لوگوں سے اٹا پڑا تھا چلنے لگی اورMakara Thorona پہنچی۔ جہاں سے چوٹی پر جانے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بد رنگ سے سنگ میل کے چوڑے پتھر پر آدم پیک انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ پانی کی بوتل خریدنے کے لیے قریبی دوکان میں گئی خوش طبع سے دوکان دار سے گپ شپ ہونے لگی۔ آدم پیک کے لیے تین بڑے راستے ہیں پہلا ہٹن، دوسرا رتنا پورہ اور تیسرا کروُوٹا سے۔ مگر سب سے بہترین اور آسان ہٹن کا ہے جس سے سفر کرتے ہوئے ہم یہاں تک پہنچے تھے۔ رتنا پورہ اور کروُوٹا دونوں خاصے مشکل اور کسی حد تک خطرناک ہیں۔ چند اور چھوٹے چھوٹے راستے بھی ہیں۔ میری معلومات میں اضافہ ہوا۔
دکان دار تامل ہندو تھا۔رنگ برنگے لوگوں سے روزانہ کے رابطوں سے بڑا گھاگ اور حالات حاضرہ کی جڑوں تک سے آشنا لگتا تھا۔سری لنکا کی اِس بیس سالہ جاری لبریشن ٹائیگرز آف تامل کی پیدا کردہ خانہ جنگی کے بارے میں دبے دبے لفظوں میں کچھ جاننا چاہا۔پہلے تو اس نے میرا حال احوال دریافت کیا ۔یعنی پاکستان کے ملکی حالات جاننے چاہے۔میری کھری کھری باتوں سے کھل گیا۔
دراصل انگریزوں کے تربیت یافتہ اُن جیسے طرز زندگی کے عادی لوگ عام غریب آدمی کے مسئلے مسائل کو کیا سمجھیں۔اکانومی کی طرف،غریب آدمی کے سدھار کی طرف تو انکی توجہ ہی نہ تھی۔چاہے وہ بندرانائیکے کی فریڈم پارٹی ہو۔Senamayake کی یونائٹیڈ نیشنل پارٹی یا بائیں بازو والوں کی Lsspہوسب ایک ہی تھا لی کے چٹے بٹے تے ں اور ابھی بھی ہیں۔جب70% اکثریت 30% کو نظرانداز کرے گی۔تو پھر ایک دن وہ مقابلے پر کھڑی تو ہوگی۔پہلے تو یہ لبریشن ٹائیگرز اف تامل اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی تھی۔سیاست میں اپنا حصّہ مانگتی تھی۔پھر خودمختاری اور ایلام نام سے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرنے لگی۔ریاست اندر ریاست جو غلط بات تھی۔ملک کے کتنے تو سربراہ مارے گئے۔راجیو گاندھی بھی انہی کے ہاتھوں مرا۔
اب ہر طرح کی کوششیں تو ہورہی ہیں۔حکمرانوں کو بھی احساس ہوگیا ہے ۔اور تامل ٹائیگرز بھی سمجھ رہے ہیں کہ اِس خون خرابے والے راستے پر کتنی دیر تک چلا جائیگا۔اب ان کے مطالبات میں زیادہ سے زیادہ حقوق کا تقاضا ہورہا ہے۔بھگوان کرے گا ایک دن امن ہوگا۔سچ تو یہ ہے کہ لوگ اب دال بھات سے زیادہ امن کے خواہش مند ہیں۔
میں نے امین کہا اوراپنے ملک کیلئے بھی دعا کی۔
کوئی گھنٹہ بھر وہاں بیٹھنے کے بعد جب باہر آئی تو انسانوں کی اس بھیڑ بھاڑ میں کسی نے میرے ہاتھ پکڑ لیے۔جو عورت میرے سامنے تھی اسکے تن پر گوشت کی تہہ کچھ ایسی ہی تھی جیسے لکڑی کے کسی ڈھانچے کو کپڑا پہنا دیا گیا ہو۔ ملائمت بھرے چہرے پر پڑی جھریوں کے اڈے کھڈے ابھی نہیں بنے تھے۔ پر آنکھیں کیسی تھیں۔باتیں کرتی،کچھ کہتی بولتی ، زمانے نے گرم سرد جو چکھایا تھا اُسے اُگالتی ۔حوادث نے جو جھولی میں ڈالا تھااُسے اُچھالتی ، کہانیاں کہتی اور آپ کو جٹ جپّھا ڈالتی۔
‘‘انڈیا سے’’۔ صاف ستھری انگریزی میں لپٹا سوال ہوا۔
‘‘پاکستان سے۔’’
‘‘انڈیا سے’’ ایسا صرف یہیں نہیں بیشتر ملکوں میں ہوتا تھا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جابجا ہونے والا یہ سوال میرے لہجے میں گُھلی شگفتگی اور چہرے پر بکھری مُسکراہٹ کو ایسے ہی غائب کرتا جیسے کاغذ پر لکھے گئے حروف ریمور سے مٹ جاتے ہیں ۔ پردیس میں یہ صورت چھچھوندر جیسی مثال کی عکاسی کرتی تھی جسے گلے میں پھنس جانے پر نہ اُگلے بنے اور نہ نگلے۔
تاہم مخاطب بڑی سیانی عورت تھی۔ چہرے کی زبان پڑھنا جانتی تھی۔ میرے بازو پر دوستانہ انداز میں تھپکی دیتے ہوئے بولی۔
‘‘سری لنکن پاکستان کو بہت پسند کرتے ہیں۔’’
میں ابھی چہرے پر بکھری خجالت کی دُھول کو صاف کر رہی تھی جب اُس نے رات کو اوپر جانے کے لیے اپنی خدمات کی پیشکش کی۔
میری تو ہنسی چھوٹ گئی۔منہ سے تو کچھ نہ پھوٹی پر میرے اندر نے تو فی الفور سب کچھ چہرے پر لکھ دیا۔
‘‘لوبھئی کس زعم میں ہے یہ۔ دھان پان سا اسکا وجود ایک تیزبلھے کی مار ہی تو ہے۔’’
ہنستی آنکھوں میں لکھی جانے والی یہ تحریر بھی اُس نے فوراً پڑھ لی۔
‘‘میری ہڈی ہڈی جوڑ جوڑ میں مشقت رچی ہوئی ہے۔ ان چڑھائیوں ،اُترائیوں سے دیرینہ یاری ہے۔ آپ جیسی ہٹی کٹی عورتوں کو سہارا دیتی ہوں۔
بڑا کھلا چیلنج تھا۔ وہ اگر مشقت پرست تھی تو ہم کونسا آرام پرست تھے۔اب تک کی تو ساری زندگی” عمراں لنگیاں پبّاں پھار’’کی عملی عکاس تھی۔
‘‘تو بھئی خود ہی چڑھیں گے۔ ’’ دل میں فیصلہ ہو گیا تھا۔
اسکے ہاتھوں کو تھپتھپا کر اجازت لے کر نیچے اُتری۔ بڑے بڑے پتھروں سے اٹا پڑا راستہ خاصا دشوار تھا۔ کہیں اٹھک، کہیں بیٹھک، کہیں چھوٹی موٹی چھلانگوں سے دریا میں نہاتے لوگوں تک پہنچی۔
میں تو بڑا ڈرتی تھی۔ پر کیسے کھلے ڈُھلے لوگ تھے۔ ذرا سا منہ ہلایا اور وہاں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو والی صورت تھی ۔لڑکیوں نے ڈھیروں تصاویر بنوائیں۔ بلکہ ماؤں نے پوز بنوانے میں ہدایات دیں۔
بڑے سے پتھر پر بیٹھ قریبی چائے کے کھوکھے سے ایک کپ چائے منگوا کر چائے کے کپ کو ہاتھوں میں تھامے اوپر نیلے شفاف آسمان اور نیچے لوگوں کے پُروں کو دیکھنا،گھونٹ گھونٹ چسکوں سے چائے پینااور موجود لمہوں سے مسرت کشید کرنا بھی کس قدر دلچسپ کام تھا۔ ایک گھنٹے تک میں نے پوری دلچسپی سے یہ کام کیا ۔
تبھی پھولدار سکرٹ اور منی بلاؤز میں وہ اُدھیڑ عمر عورت جو زیارت کے لیے دمبولا سے آئی تھی میرے پاس آ بیٹھی تھی۔ اُس نے اپنے گریبان سے خوشبو میں بسا بُدھا کا سونے کا چھوٹا سا مجسمہ نکالا اور سامنے پڑے بڑے پتھر پر سجا دیا۔ میں مُسکرا دی تھی۔ واہ ری محبتیں اور عقیدتیں۔ جس کی جتنی توفیق اور ہمت۔
رجھانے کے من پسند انداز جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
جب میں ہوٹل آئی۔ مہرالنساء سو رہی تھی۔ دھیمے سے دروازہ بند کیا اور دھیرے سے جالی کا کونا اُٹھا کر اندر داخل ہوئی ۔ تکیے پر سر رکھا اور خود کو چھپر کھٹ میں کیاپایا کہ یوں محسوس ہوا جیسے کسی بوسیدہ گُھن زدہ لکڑی سے اچانک ماضی کی یادوں کا برادہ گرنا شروع ہو جائے ۔ چھپر کھٹ اور حجلہ عروسی کا کچھ ایسا ہی سمبندھ ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ ہو۔
ہماری سہاگ رات بھی کیسی پھُسپھسی سی تھی۔ چھپر کھٹ تو کہیں دور کی بات ہے پھل پھول ، لڈو پیڑے کچھ بھی نہیں تھا۔ مدقوق سی روشنی میں ایک شگفتہ سا چہرہ ضرور چمکتا تھا۔ میں خود دوپہر میں سُسرالی عزیزوں کی جانب سے دئیے گئے ریمارکس ‘‘ہائے ہائے نی ووہٹی تے چیری لگدی اے’’ (ہائے ہائے دلہن تو دانے بھوننے والی لگتی ہے) کے تحت ڈپریس سی تھی۔ اور پھر یہ چیری پتہ نہیں کب چھپر کھٹ کو تکتے تکتے کہیں گم ہو گئی۔
رات کو کھانے کے لیے ڈائننگ روم میں آئے تو دنیا جہان کی نسلوں کا ایک اکٹھ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہا تھا۔ فضا میں کھانوں کی مہک تھی۔ گلاسوں میں ڈرنک انڈیلنے کا شور تھا۔ ہماری قریبی میز پر دو اُدھیڑ عمر کنفرمڈ بیچلر جرمن جو تین بار سری لنکا اور سات چکر انڈیا کے لگا بیٹھے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ ایک بار بھی پاکستان نہیں آئے تھے۔
‘‘کیوں کیا پاکستان میں باگڑ بلے بیٹھے ہیں تمہیں کھانے کے لیے۔’’
انڈیا کے سات چکر لگانے کا سُن کر میں تو یوں حسد سے تڑخی تھی جیسے گرمی سے گیلی مٹی تڑختی ہے۔
‘‘پاکستان تو دہشت گردی کا شکار ہے۔ القاعدہ کے لوگ گھروں میں چھُپے بیٹھے ہیں۔ آئے دن بم دھماکے ہوتے ہیں۔ اُس نے۔۔۔’’
وہ آگے کیا کہنا چاہتا تھا۔میں نے تو بات پوری نہ ہونے دی۔بیچ میں سے ہی اُچک لی۔
‘‘انڈیا تو امن کی جنت ہے نا۔ وہاں تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ انڈیا سے زیادہ بم بلاسٹ اور کہاں ہوتے ہیں؟ انڈیا اور امریکہ سے بڑے دہشت گرد اور کون ہیں۔’’
ایسی تلخ باتوں پر اُنکے بندر کی پیٹھ جیسے رنگ والے چہرے اور لال گلال ہوئے۔ ہنسے ضرور پر تھوڑی سی خفت بھی نمایاں ہوئی جس نے مجھے حوصلہ دیا۔ اور میں نے پاکستان کی خوبصورتی اور اسکے تاریخی مقامات پر قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے۔
لاہور کے دروازوں اورگیٹوں کی تفصیل، دلّی دروازے میں مسجد وزیر خان اور شہزادیوں کے حمام جن میں شہزادیوں کے حماموں اور خواب گاہوں کا بڑھ چڑھ کر تذکرہ کیا۔شاہی قلعہ اور شیش محل کی نشست گاہوں کا دلفریب نقشہ ،پرانے شہر کے بازار اور ا نکی بُھول بھلّیاں، کناری بازار سے داخل ہوکر چھتّہ،گمٹی اور آگے بازاردر بازاروں کے سلسلے کہیں لوہاری گیٹ،موچی دروازہ،اکبری منڈی،شاہ ہالمی ،رنگ محل لاہوری تہذیب و ثقافت کے مرکز۔
ارے اندرون لاہور کا تو چپہ چپہ تاریخ میں اُلجھا پڑا ہے اور جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا۔ ’’
اپنی زبان کی یہ کہاوت جب انہیں سُنائی تو انکے ہنسنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی خوب ہنسے۔
کھانے کی میز پر سری لنکا کے کھیتوں میں اُگنے والے چاول قاب میں پڑے یوں دِکھتے تھے جیسے سُچے موتی سجے ہوں۔ درمیان سے موٹے ،اطراف سے پتلے،چھوٹے چھوٹے اف وائٹ کلر لیے ہوئے۔ ساتھ میں ہم نے چلّی فش کری منگوائی۔سلاد کی پلیٹ تھی۔مسٹر جسٹنن نے ہمیں سلاد کی ایک ڈش گوتو کو لا سمبل Gotukola Sambol کابھی کھانے کا کہا تھا۔یہ چھوٹے چھوٹے پتوں کی سبزی تھی جسے کاٹ کر ناریل ،گوشت اور پیاز کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔سیاحوں کی بڑی پسندیدہ تھی۔
ہوگی بھئی ۔میں تو ہوٹل کے کچن میں جا کر اِسے دیکھ آئی تھی۔باورچیوں سے ترکیب بھی پوچھ لی تھی اور چکھ کر ردّ بھی کر بیٹھی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں