15 اکتوبر کو دنیا بھر میں “ہیلتھ ڈے” منایا گیا، اور حالیہ دنوں میں عمران خان کی صحت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ذاتی معالج سے ملاقات کے لیے حکومت سے درخواست کی تھی۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی نے احتجاجی دھرنے کی کال بھی دی تھی۔ اس معاملے پر پارٹی کے اندر اور باہر کافی بحث و مباحثہ ہوا۔ تاہم، وفاقی حکومت نے پہلے اس درخواست کو مسترد کر دیا، لیکن رات کو حکومت نے آخرکار اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ عمران خان سے ملاقات کے لیے پیمز اسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم بھیجی جائے گی۔ اس پر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے دھرنے اور احتجاج کی کال واپس لے لی۔
دراصل،رواں ہفتے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کا 23واں اجلاس ہو رہا ہے، جس کی سربراہی پاکستان حکومت کریں گے۔ جس وجہ سے پی ٹی آئی کی بیشتر قیادت کے اندر جلسے، مارچ، اور احتجاج میں دلچسپی کا فقدان تھا، اور حکومتی رویے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔
جب عمران خان کے ذاتی معالج اڈیالہ جیل پہنچے، انہیں عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سرکاری ڈاکٹروں کی ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور پارٹی قیادت کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس صورتحال نے عوامی حلقوں میں عمران خان کی صحت اور موجودہ سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ آیا عمران خان کی ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی ہے یا نہیں، اور کیا پارٹی قیادت بر وقت فیصلہ کن اقدامات اٹھا پائے گی۔
اسی دوران آئینی ترمیم کا معاملہ بھی زور پکڑ رہا ہے، اور اس ترمیم کو منظور کروانے کے لیے حکومت کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم، قانونی ماہرین اور وکلاء نے ان ترامیم کو ذاتی مفادات کا شاخسانہ قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ ایک ملک گیر تحریک ان ترامیم کے خلاف جنم لے رہی ہے، اور وکلاء اس تحریک میں ہر اول دستہ بننے کو تیار ہیں۔ تحریک انصاف آئین پرست طبقات کو افرادی قوت فراہم کر رہی ہے۔ ان ترامیم کا مقصد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ساز باز ہے، اور پارلیمنٹ میں مالی مفادات کے حریص لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان ترامیم کو عوامی احتجاج کے بغیر روکا نہیں جا سکتا۔
غیر آئینی ترامیم کا نفاذ انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گا، جو نسلوں تک جاری رہیں گے۔ اگر یہ ترامیم پاس ہوگئیں، تو غیر جمہوری قوتوں اور عدلیہ کے اندر موجود مخصوص افراد کو اتنی طاقت مل جائے گی کہ ان کو واپس لینا ممکن نہیں ہوگا۔ جمہوری قوتوں کو اب ان ترامیم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔اب یا کبھی نہیں۔ آئینی ترامیم کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں، لیکن ان ترامیم کا نفاذ اس انداز میں کیا جا رہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کا آئینی اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس قسم کی ترمیم کو کوئی قانونی ماہر یا وکیل حمایت نہیں دے سکتا۔
آئین کی اصل روح عوامی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کا تصور ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آئین میں عوامی حقوق کا تحفظ، صوبائی وسائل اور مسائل کی نشاندہی، اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا واضح ذکر ہو، جو موجودہ آئین میں موجود ہے۔ اس کے برعکس، سپریم کورٹ میں 7,000 مقدمات زیر التوا ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے ججوں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔
وفاقی حکومت نے 17 اکتوبر کو آئینی ترمیم کے لیے اجلاس اور دھرنے، مارچ کا اعلان کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ ترمیم ممکن نہیں تھی، اور حکومت نے مبینہ طور پر ان کی شرائط مان کر انہیں راضی کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کے بعض ایم این ایز اور سینیٹرز پر بھی شک کیا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہے اور تحریک انصاف کی قیادت میں دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں۔ قیادت پر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مختلف گروہوں سے جوڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں تحریک مزید کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ قیادت کو اس خطرے کا ادراک کرنا ہوگا اور بحران سے نکلنے کے لیے مناسب حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔
اگر حکومت ان ترامیم کو منظور کرنے میں کامیاب ہو گئی، تو تحریک انصاف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ تحریک انصاف کے اہم کیسز جیسے ریزرو سیٹ، فارم 47، سینیٹ انتخابات وغیرہ پر اس کا براہ راست اثر پڑ سکتا ہے۔
اس دوران، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسل نے ابھی تک مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کے حق یا مخالفت میں کوئی ٹھوس موقف اپنایا ہے۔ یہ وکلاء برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان ترامیم کا مقصد واضح ہے کہ یہ صرف ان شخصیات کو فائدہ پہنچائیں گی جو بعد ازاں وفاقی حکومت کے مفادات کے لیے کام کریں گی۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں تحریک انصاف کے کارکنان اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور پارٹی کے نظریات پر فخر کرتے ہیں۔ زیادہ تر کارکنان کا ماننا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے برعکس غیر جمہوری قوتوں اور حکومت سے کسی بھی قسم کی مصالحت یا مفاہمت ناانصافی ہو گی۔
پی ٹی آئی کے کارکنان مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت کی غیر آئینی ترامیم کو روکنے کے لیے حقیقی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ احتجاج، لانگ مارچ، ہڑتالیں اور دھرنے ہی وہ واحد راستے ہیں جن کے ذریعے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں موجود خرابیاں درست ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اس تحریک کے روحِ رواں ہیں اور انہیں حکومت کی جانب سے بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کو منحرف ارکان کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دے سکیں۔ قیادت پر بلاجواز تنقید کا سلسلہ ختم کرنا اور ان کے ساتھ کھڑے ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
عمران خان کی صحت کے حوالے سے حکومتی بے حسی پر پی ٹی آئی کے حامیوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ انہیں ورزش یا چہل قدمی کی اجازت نہیں دی جا رہی، قیدِ تنہائی مسلط کی گئی ہے، اور ملاقاتوں پر پابندی ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے ہر فورم پر پاکستان کے لیے آواز اٹھائی، اس کے ساتھ یہ سلوک کہاں کا انصاف ہے؟

اب وقت قریب آ چکا ہے، اور پی ٹی آئی کے کارکنان 17 سے 25 اکتوبر کے درمیان احتجاج اور ہڑتالوں کی تیاری کر رہے ہیں، جن کا مقصد حکومت کی غیر آئینی ترامیم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ تحفظ آئین کی تحریک میں شامل دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس تحریک کو مزید طاقت دی جا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وکلاء برادری بھی اس تحریک میں شامل ہو گی۔ تمام مسائل کے باوجود، پی ٹی آئی کے حامی آئینی اور سیاسی جدوجہد میں ثابت قدم رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں