قہوے کی تلخی /علی عبداللہ

اس ویران ریگستان کی رات خاموش تھی، لیکن آسمان پر ستارے یوں جھلملا رہے تھے جیسے وہ کسی قدیم داستان کی گواہی دیتے ہوں۔ ہوا میں ریت کی سرسراہٹ اور اونٹوں کی گھنٹیوں کی جھنکار سنائی دیتی تھی۔ رات کا دوسرا پہر تھا اور میں قافلے والوں کے ساتھ ایک دائرے میں بیٹھا ہوا تھا- دائرے کے بیچ میں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا جس کے چہرے پر دانشمندی اور پیشانی سے دوراندیشی ٹپکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی- اس نے اپنے پاس آگ جلا کے اس پر قہوہ چڑھا رکھا تھا-

زید نامی یہ بوڑھا شخص قافلے کا رہبر تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس نے ریگستانوں کے بے شمار اسفار کیے تھے اور ریگستان کے رازوں کا امین تھا- اس نے قہوے کی کیتلی کھولی تو اس کی تازہ مہک رات کی خاموشی میں پھیلتی چلی گئی- قافلے والے جو فقط چار ہی لوگ تھے اور جن میں ایک مغربی سیاح بھی تھا، سب نے قہوے کی پیالی تھامی اور اس کے کڑوے پن کو بمشکل اپنے اندر انڈیلا- لیکن اس بوڑھے زید نے قہوے کا پہلا گھونٹ یوں لیا جیسے وہ اس تلخی میں زندگی کی حقیقت کو محسوس کر رہا ہو-

“تم جانتے ہو،” زید نے کہا، ” اچھا قہوہ وہی ہوتا ہے جو موت جیسا کڑوا اور محبت جیسا گرم ہو۔” یہ کہتے ہوئے زید کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی۔ یقیناً وہ سمجھتا تھا کہ زندگی کا حسن بھی تلخی اور شیرینی کے پیچیدہ توازن میں چھپا ہے۔

زید نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، “جو تلخی تمہیں قہوے میں محسوس ہو رہی ہے، یہ وہی تلخی ہے جس کے بغیر محبت کی گرمی کو سمجھنا ناممکن ہے۔ دراصل زندگی کی اصل حقیقت تلخیوں میں چھپی ہے۔”

کیا تم اس فلسفے کی وضاحت کرو گے؟ پاس بیٹھے شخص نے اس سے سوال کیا-

زید نے مسکرا کر کہا، “ہاں کیوں نہیں! پھر اس نے بلند آواز میں یہ شعر پڑھے،

“ولقد ذكرتكِ والرماحُ نواهلٌ
مني، وبيضُ الهندِ تقطرُ من دمي”

“جب نیزے میرے جسم میں پیوست ہو رہے تھے، تب بھی میں تمہیں یاد کر رہا تھا، اور ہندوستانی تلواریں میرے خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔” زید نے اشعار کو دہراتے اور جھومتے ہوئے کہا، “یہی تو ہے محبت اور موت کا ملاپ، کڑواہٹ اور گرمی کا تجربہ- اور بخدا یہی ہے محبت کا فلسفہ-

میں نے کڑوے قہوے کا ایک گھونٹ بھرا اور اس سے پوچھا “تو کیا محبت اور تلخی لازم و ملزوم ہیں؟”

زید نے سر ہلایا اور جواب دیا، “ہاں، یہی حقیقت ہے۔ پھر زید نے ایک اور قدیم شعر پڑھا،

“فَصَبرتُ حتى تَجَلَّدَ القلبُ في غُصَصٍ
يُذيبُ الصخرَ وَالمَرْوَةَ العَنِيدَا”

“میں نے صبر کیا، یہاں تک کہ میرا دل ان تلخیوں میں مضبوط ہو گیا جو پتھروں اور پہاڑوں کو بھی پگھلا دیتی ہیں۔”

زید نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا “یہ تلخی، یہ آزمائشیں، یہ زندگی کی مشکلات ہی ہیں جو تمہیں مضبوط بناتی ہیں۔ موت کی تلخی اور محبت کی گرمی دونوں کا سامنا کرنا ضروری ہے، ورنہ زندگی ادھوری رہتی ہے۔”

مغربی سیاح، جو دور دراز علاقوں کا بھی سفر کر چکا تھا، بولا: “یہ جو تم کہہ رہے ہو یہ فلسفہ تو میں نے مغرب میں بھی سنا ہے-

زید نے دلچسپی سے پوچھا، “کیا وہ شاعری تھی؟”

اس مسافر نے کچھ سوچتے ہوئے قہوے کا ایک گھونٹ بھرا اور کہا،

“Do I wake or sleep?”
یعنی یہاں زندگی اور موت کے درمیان تلخی اور خوبصورتی کی کشمکش کو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی جذبات ہیں جو تم نے ابھی اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں-

زید نے سر ہلایا اور کہا، “ہاں، یہ دونوں فلسفے ایک جیسے محسوس ہو رہے ہیں، چاہے مغرب ہو یا مشرق۔ زندگی، محبت، اور موت شاید ہر جگہ ایک جیسی حقیقت کا نام ہیں۔ اس مسافر نے پھر کہا،

“Love is not love
Which alters when it alteration finds.”
یقیناً وہ محبت کی سچائی اور اس کی مستقل مزاجی کا ذکر کر رہا تھا۔ یہ بھی تو محبت کی وہ گرمجوشی ہے جو تلخیوں میں بھی اپنے آپ کو نہیں بدلتی۔”

بوڑھے زید کی باتیں، قہوے کی مہک اور رات کی خاموشی اب ساحرانہ کیفیات میں بدل چکی تھیں-

زید نے قہوے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے کہا، “جیسے قہوے کی تلخی تمہیں زندگی کے کڑوے حقائق سے روشناس کراتی ہے، اسی طرح محبت کی گرمجوشی تمہیں اس قابل بناتی ہے کہ تم ان حقائق کا سامنا بھی کر سکو۔”

Advertisements
julia rana solicitors

بوڑھا زید یہ کہہ کر خاموش ہو گیا- رات سرد ہو چکی تھی اور صحرا میں فقط اب ہوا کی سنسناہٹ تھی- زید اپنے اونٹ سے ٹیک لگائے یوں گم صم کھڑا تھا جیسے ستاروں کی روشنی میں محبوبہ کی آغوش اور قہوے کی مہک میں مماثلت تلاش کر رہا ہو-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply