جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟-منصور ندیم

دنیا میں اولاد کے وارد ہونے کا فیصلہ اولاد کا اپنا ہرگز نہیں ہوتا، پھر ہمارے ہاں ہمیشہ “والدین کے حقوق” کی گردان کیوں کی جاتی ہے؟

اصلاً تو اولاد کو دنیا میں لانے کا فیصلہ والدین کا ہے، تو سب سے پہلے “اولاد کے حقوق” شروع ہوتے ہیں, جبکہ اولاد کے جائز حقوق پورے کرنے کو بھی ہم گلیمرائز کرتے ہیں۔ سخت تاکید کرتے ہیں، یعنی کسی کا حق دینا ایک اعلیٰ خوبی کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ تو اس کا بنیادی حق ہے، جسے آپ نے اپنی مرضی سے پیدا کیا ہے، یہ ہر حالت میں والدین کی ذمہ داری ہے۔ پھر جب والدین اپنی اولاد کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے ہوتے، تو کیا وہ شدید ترین ظلم نہیں کر رہے؟ کہ وہ اپنے جیسے مجبور و پریشان انسانوں کو دنیا میں کیوں لائے، جن کی خواہشیں، ضرورتیں، روٹی ، من چاہی کھانے پینے کی اشیاء، کھیل کود کا سامان ان کو  مہیا  نہ کر سکیں؟ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ وہ انہیں ضرورتوں کی دنیا میں لے آتے ہیں، پھر ان کی خواہشوں کو روکتے ہیں، اور ان معصوم ذہنوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ یہ چیز غلط ہے، یا اپنی خواہش کے لئے ضد مت کرو, ہر چیز ہماری دسترس میں نہیں ہے، ہم آپ کے لیے یہ کام نہیں کر سکتے۔ ان کی معصوم خواہشات کا گلا گھونٹا جاتا ہے، کیونکہ والدین ان کی خواہشات پوری کر سکنے کے قابل  نہیں ہوتے، بلکہ اکثر تو بہت عام اور معمولی سی ضروریات بھی نہیں پوری  کرنے کے قابل ہوتے تو خواہشات تو دور کی بات ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اولاد کو کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟

مزید ظلم ہے کہ اولاد کو دنیا میں لانا ایک عظیم کارنامہ سمجھایا جاتا ہے انہیں دنیا میں لانے کی فکر میں پورا خاندان مبتلا رہتا ہے، اولاد کی خواہش میں دادا دادی، نانا نانی، رشتے دار، پڑوسی طعنہ زن بھی رہتے ہیں۔ بلکہ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی کا بندھن پائیدار ہی تب ہوتا ہے جب اولاد پیدا ہو جائے، اس کے بعد دو افراد چاہے جتنے بھی اختلاف میں رہیں گے لیکن اولاد کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اذیت کی زندگی گزارتے رہیں گے، اور وہی لوگ جو ایک شادی شدہ جوڑے سے اولاد کے متمنی ہوتے ہیں، بعد میں اسی اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اس معصوم روح کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ خود سوچیں کہ حقوق و فرائض کے اتنے بھاری بھرکم لاحقوں کے باوجود کیا ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں ہر چیز معاہدے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، تبھی تو آپ دو الفاظ ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں حقوق کے مقابل فرائض یا ذمہ داری، مثلاً جیسے آپ نکاح کرتے ہیں ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح ایک معاہدہ ہے، اس میں دونوں افراد کے مابین حقوق اور فرائض کی  ذمہ داریاں طے ہو جاتی ہیں، آپ کسی مذہب کو فالو کرتے ہیں اس میں بھی تقریباً اسی طرح کا معاملہ ہوتا ہے، آپ کہیں نوکری کرتے ہیں، اجیر اور آجر کے درمیان یہ طے ہو جاتا ہے کہ وہ کتنے اور کس کام کے بدلے میں کتنی تنخواہ یا کیا مراعات لے گا ،یہ دو طرفہ معاہدہ ہوتا ہے، کاروباری لین دین میں بھی دونوں فریقین لین دین کے فیصلے میں کہیں متفق ہوتے ہیں تو کاروباری معاہدہ طے پاتا ہے، حتی کہ آپ اشیاء ضروریہ کے لیے عام سی دکان پر بھی جاتے ہیں کوئی بھی کھانے پینے کی یا ضرورت کی چیز لیتے ہیں تو اس کے بدلے میں آپ کو کوئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

لیکن دنیا میں واحد اولاد کو لانا صرف والدین کی مرضی ہوتی ہے، جس کے بدلے میں آپ اس سے حقوق کا تقاضا کرتے ہیں، کیا یہ انصاف ہوگا؟ حقیقتاً یہ درست ہے کہ بچے کا زندگی میں آنے کے لیے اس کی رضامندی حاصل کرنا ناممکن ہے، دنیا میں والدین اپنی اولاد کو کسی معاہدے کے بغیر لاتے ہے، اس بچے کی خواہش اس میں شامل نہیں ہوتی، اسے آپ قدرت کا فیصلہ کہہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر قدرت کا یہ جال والدین اور اولاد کو اذیتیں دیتا رہتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ زندگی بہت مشکل ہے اور وہ روز بروز عجیب حالت میں ہم پر بے نقاب ہو رہی ہے۔ تناؤ، پریشانی، ڈپریشن، خواہش کے بغیر دوسروں کی مرضی سے جینا پھر دوسرے مسائل کا سامنا جیسے حادثات، قدرتی آفات، بوریت، ذہنی اور جسمانی بیماریاں؟ یاد رہے کہ غیر پیدائشی شخص کو زندگی میں آنے اور تھوڑی سی خوشی اور بہت زیادہ بوریت اور تکلیف میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، خواہش پیدائش کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ اگر دنیا واقعی امتحان ہے تو ایسے امتحان دینے کی زبردستی کیوں ہے؟

بالفرض آپ نے اپنے خوابوں کو خود ہی حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بچوں کا کوئی مستقبل بنایا، آپ بُری طرح ناکام ہو گئے پھر آپ کیسے ان سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض ادا کریں؟ اور وہ دوسرے لوگوں کی طرح خوش رہیں یا آپ پر فخر کریں؟ والدین کے حقوق سے پہلے کیا ہم اگر یہ سوچیں کہ والدین کا اپنے بچوں کا قرض چکانا کبھی ممکن ہوسکتا ہے؟ کیونکہ اولاد پیدا کرنے کا فیصلہ ان کا یکطرفہ فیصلہ تھا، جیسے دنیا میں ہر اعمال کے نتائج ہوتے ہیں لیکن بنیادی طور پر ان نتائج کی قیمت بھی بچے ہی ادا کرتے ہیں، کیونکہ وہ خود ان اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ہم ہر روز جیتے ہیں۔۔ ہمیں اپنے باپ دادا کے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، ہو سکتا ہے ہم اسے تسلیم نہ کریں، لیکن ہر انسان کا ایک حصّہ اس وجود میں اپنے ہر دکھ اور مصیبت کا ذمہ دار والدین کو ٹھہراتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

صدیوں سے تہذیبیں آئیں اور ختم ہو گئیں، نئی تہذیبیں جنم لے لیتی ہیں، ان سب میں ہم کہاں ہیں؟ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہم پیدا ہوتے ہیں، ہم بہت سی چیزوں کا تجربہ کرتے ہیں، ہم کام کرتے ہیں، ہم شاید بہت پیسہ کماتے ہیں، اور پھر ہم بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔ تو اس سب کا اصل مقصد کیا ہے؟ کوئی مقصد نہیں ہے۔ اس زندگی میں ہم رشتوں کو تکلیف دیتے ہیں اور رشتوں سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ جرم کرتے ہیں، فساد کرتے ہیں، خود بھوک میں مبتلا ہوتے ہیں درد میں مبتلا ہوتے ہیں، اور ہم ہی دوسرے لوگوں کو بھوک میں مبتلا کرتے ہیں ان کے درد تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم بچے کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم انہیں کیوں اس عجیب دنیا میں لانا چاہتے ہیں۔  یہ سوال مجھے بہت پریشان کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : والدین کے احترام یا حقوق کا مجھے بالکل اندازہ ہے میں اس کا انکار نہیں کررہا، لیکن صرف والدین کے حقوق کا جب دعویٰ  کیا جائے گا تو زمینی حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ اولاد کے حقوق پورے نہیں ہوتے تبھی مغرب میں ایک خاص عمر کے بعد بچہ والدین کی سرپرستی سے ریاست کی سرپرستی میں منتقل ہو جاتا ہے، آپ کے ساتھ ہونے والے حادثے کی صورت میں بھی ریاست اس کی سرپرست بن جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایسا تو نہیں ہوتا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اسی سوال کو ایک جواز فراہم کرتا ہے کہ اگر والدین واقعی اپنا حق ادا کرتے ہیں تو ریاست کی سرپرستی کا  قانون کبھی نہ بنتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply