منو بھائی باکمال کالم نگار تھے ۔”گریبان “کے عنوان سے کالم لکھتے ،اور الفاظ کے تیشے سے کئی گریبان چاک کرتے ،منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں میجر کے گھوڑے اور اس کے انجام کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا تھا ،لکھتے ہیں ۔۔،
“میجر کے گھوڑے نے تین حوالداروں ،چار صوبیداروں کو لاتیں رسید کرنے کے بعد آخری لات بم کو دے ماری”۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دیکھ کر مجھے میجر کا گھوڑا اور اس کی آخری لات یاد آرہی ہے ،نائیک صاحب انڈیا میں ہندو مت کے مذہبی حوالداروں ،اور یورپ میں کلیساء کے صوبیداروں کو ساری عمر مناظروں میں لاتیں رسید کرتے رہے اور آخری لات دورہ پاکستان کر کے بم کو دے ماری ۔
ذاکر نائیک صاحب نے ساری عمر غیر مسلموں کے ساتھ تکرار کرتے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے گزاری ہے ،کبھی ان کا واسطہ اپنے ہم مذہبوں سے نہیں پڑا ،جن جیسا بننے کی تلقین وہ یورپ میں جاکر غیر مسلموں کو کرتے رہے،ذاکر نائیک کے بڑے سارے سیشن یورپ ،انڈیا وغیرہ میں ہوتے رہے ،جہاں ان کی آڈینس غیر مسلم تھی، وہاں پر بائیبل کے رٹے ہوئے چیپٹر فر فر انگریزی میں اگل دینے سے دوکانداری چل جاتی تھی ،اگر کوئی سوال بھی کردے تو وہ تقابل ادیان کے متعلق ہوتا ،جس کے بعد سوال کرنے والا اکثر شف شف سرکار کے مریدوں کی طرح کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جاتا ۔
مگر اس بار ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے گڑھ میں تشریف لائے ہیں ،ضیاء کے بعد چونکہ اسلام کا گڑھ حجاز سے یہاں منتقل ہو گیا ہے ،ہم عربوں سے مقدار میں کچھ زیادہ ہی مسلمان ہو گئے ہیں یا بقول یوسفی باؤلے ہو گئے ہیں ،ہم مذہبی کے بجائے عاشق ہیں، عشق میں جنون ہوتا ہے ،مذہب سے عشق institutelized religion سے فرار کا نام ہے ،بڑا مذہب ڈسپلنڈ کا تقاضا کرتا ہے ،ڈسپلنڈ سے اکتانے والے لوگ عشق کی راہ لیتے ہیں۔عشق والا معاملہ خاصا حساس ہے ،یا تو ڈسپلنڈ مذہب سے فرار حاصل کرنے والے تصوف میں پناہ ڈھونڈتے ہیں ،یہ بابا بلھے شاہ ،منصور حلاج ،بایزید بسطامی بنتے ہیں ۔اور اگر عشق کے کیمیکل ذرا سے بھی اوپر نیچے ہو جائیں تو پھر کیمیکل کا لوچا ہو جاتا ہے ،وہی والا لوچا جو لگے رہو منا بھائی مووی میں سنجے دت کو ہوجاتا ہے ،جس میں اسے گاندھی جی کے بارے میں زیادہ سوچنے پڑھنے اسے گاندھی جی ہر طرف دکھائی دینے لگتے ہیں اور خیالاتی گاندھی کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے ۔
اسی کیمیکل کے لوچے سے غا زی علم دین ، ممتا ز قادری بنتے ہیں۔
پھر اوتار اور نبی آکر خود بھی کہیں یہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ ہماری تعلیمات نہیں تھیں ۔۔تو کیمیکل لوچے کے شکار لوگ کہیں گے آپ غلط کہہ رہے ہیں ۔۔ہم ٹھیک ہیں!
ذاکر نائیک صاحب اسی کیمیکل لوچے میں مبتلا مسلمانوں کے ملک میں آئے ہیں ،ساری عمر کافروں کو انگریزی میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ،جب اصل اور پیدائشی مسلمانوں سے واسطہ پڑا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ، رقاص سٹیج پر کھلتا ہے، ٹھیک ویسے ہی مبلغ صاحب کی بائبل اور اشلوکوں کے رٹے کی قلعی اپنے ہم مذہبوں کے بیچ اترنی شروع ہو گئی ۔
آئے دن کوئی نہ کوئی بلنڈر وجا رہے ہیں۔
برادر ،سسڑ آسک آ گڈ کوسچین والا سین کا فروں کے دیس میں ہوتا تھا ،جہاں آپ یہ منجن بیچ سکتے تھے کہ اسلام کو دیکھنا ہے تو آج کے مسلمان کو نہ دیکھو ،گاڑی جتنی مرضی اچھی ہو اگر ڈرائیور خراب ہو گا تو گاڑی ٹھوک دے گا ،اس میں قصور گاڑی کا نہیں ہے ڈرائیور کا ہے ۔
حضرت! مذہب گاڑی نہیں ہوتا ،مذہب کتابوں سے زیادہ عادات میں نظر آتا ہے ،مذہب فلسفہ تو ہوتا نہیں جسے کتابوں میں فریم کروا کے رکھ لیا جائے اگر یہ اپنا آپ اقوام کی عادات میں جذب نہ کروا سکے تو قصور ڈرائیور کے ساتھ ساتھ گاڑی کا بھی ہوتا ہے۔
اب آپ بچیوں کو غیر محرم سمجھ کر ان کے سر پر دست شفقت رکھنے سے گریز کریں تو یہ سوچ آپ کو کس نے دی ؟
سنگل وومن کو پبلک پراپرٹی کہہ کر آپ کس منہ سے ایک غیر مسلم عورت کو اسلام کی دعوت دے سکیں گے؟اسلام عورت کے حقوق کا ضامن ہے۔
کیمیکل کا لوچا خاص کر برصغیر کے مذہبی افراد میں پایا جاتا ہے ۔بس اس کے کور وقت کے حساب سے اترتے رہتے ہیں۔ جیسے آجکل ڈاکٹر صاحب کے اتر رہے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں