سرسوں کا پھول/افضل حیدر

ہاسٹل کے کمرے سے خوش گپیوں اور قہقہوں کی گونج ساتھ والے کمروں سے دو تین لڑکیوں کو اس کے کمرے میں آنے پر مجبور کر چکی تھی۔

یہ اس کا پہلا دن تھا جب وہ اپنے گاؤں سے باہر کسی ہاسٹل میں پڑھنے کی غرض سے آئی تھی، شہر پرایا ہونے کی وجہ سے اس کے لیے تمام چہرے پرائے پرائے سے تھے۔اس سب کے باوجود اس کا اعتماد دیدنی تھا، وہ ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں پاس بیٹھی لڑکیوں کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔اس کی باتوں اور لہجے میں بلا  کی اپنائیت تھی۔یہی وجہ تھی کہ سب لڑکیاں رات دو بجے تک اس کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی رہیں۔

اورینٹیشن کے بعد یہ یونیورسٹی میں اس کا پہلا دن تھا۔ اس نے پیلے رنگ کی قیمض جس پر ہاتھ کی کڑھائی سے ایک پھول جو بائیں کندھے سے شروع ہو کر جھولی میں پھیل جاتا تھا زیب تن کر رکھا تھا۔
“پیلا رنگ کتنا عجیب لگ رہا ہے،یہ کیسی چوائس ہے آپ کی”
اس کی روم میٹ جو اس وقت اس کے ساتھ والی چیئر پر ہی بیٹھی تھی، نے اس پر طنز کیا۔
اس کے طنز کے بعد اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا “سرسوں کے پھولوں سے گلاب جلتے ہیں”
اس لڑکی نے جھینپ کر کہا۔
“تم اتنی گہری باتیں کیسے کر لیتی ہو؟

گہرائی سے کوئی تعلق نہیں۔۔ باتیں بس باتیں ہوتی ہیں۔اس کے لہجے میں حد درجہ شوخی تھی۔

کلاس سے فراغت کے بعد وہ سب سہیلیوں کے ساتھ کینٹین پر گئی۔ اس نے پہلی بار اتنی کُھلی اور رنگوں سے بھری دنیا دیکھی تھی۔وہ ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہے اور ان سب جیسی نہیں ہے۔یہ احساس اس کے اندر ہی اندر کہیں پنپ رہا تھا۔اپنی سخت مزاجی اور دیہاتی پن کی وجہ سے وہ دوسروں سے دور رہنا پسند کرتی تھی۔ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے اس سے بات چیت میں اجتناب برتتے تھے۔

ایک دن وہ فوٹو کاپی شاپ سےواپس آ رہی تھی کہ اسے کسی انجان لڑکے نے سلام کہا۔
وہ بوکھلا سی  گئی اسے کچھ سجھائی نہ دیا کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نکلے ۔اس نے کچھ لمحے کے لیے نگاہ اٹھا کر اس لڑکے کی جانب دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔

وہ ہاسٹل آ کر اسی لڑکے کے متعلق سوچتی رہی۔وہ حیران تھی کہ ایک انتہائی بہادر لڑکی ایک لمحے کے لیے اس انجان لڑکے کے سامنے بھیگی بلی کیوں بن گئی۔

اگلے دن وہ صبح سویرے اٹھی نماز ادا کی اور یونیورسٹی کے لیے معمول سے تھوڑا جلدی تیار ہوگئی ۔اس نے وہی پیلے رنگ کی قمیض نکالی اور پہن لی۔ آج وہ اپنی سہیلی کے اٹھنے سے پہلے ہی اکیلے یونیورسٹی کے لیے نکل پڑی۔وہ اس دن ڈیپارٹمنٹ جانے کی بجائے سیدھا فوٹو کاپی شاپ گئی اور سامنے پڑی بینچ پر بیٹھ گئی۔
یہ سب عمل اس نے ایک غیر اضطراری کیفیت سے دو چار ہو کر کیا تھا۔یہ سب کچھ اس کی سہیلیوں کے لیے حیرانی کا باعث تھا۔اس دن وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ نہیں گئی۔اس کی دوست سدرہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ اسے کیا ہوا ہے ۔۔ اس نے اسے آکر کندھے سے پکڑ کر ہلایا “سیمی، سیمی” وہ ایسے اٹھی جیسے کوئی ڈراؤنے خواب کے بعد اٹھتا ہے اور سدرہ کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی۔

کافی دیر بعد جب وہ کچھ سکون میں آ گئی، تو سدرہ اسے کینٹین پہ لے گئی۔ اسے گرم سنیکس کے ساتھ چائے پلائی۔وہ سدرہ کے سامنے ابھی بھی کہیں کھوئی کھوئی سی تھی۔اسی دوران ایک مانوس سی آواز اس کے کانوں سے چھو کر گزری،آواز کی گونج کانوں پر پڑتے ہی وہ کچھ بوکھلا سی گئی۔

وہ بے اختیار وہاں سے اٹھی اور اس آواز کے تعاقب میں بھاگنا شروع کردیا۔وہ کافی دور تک گئی مگر بے سود۔۔

آوازوں اور سایوں کے پیچھا بھاگنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی۔۔لیکن کون سمجھتا یہ بات جب وہ خود سمجھنے کے لیے تیار نہ تھی۔
ہاسٹل کے جس کمرے میں سب سے زیادہ شور ہوتا تھا قہقہے گونجتے تھے۔وہاں سناٹا اور ویرانی تھی۔ سب لڑکیاں پریشان تھیں کہ آخر یہ کیا ماجرہ ہے ہر وقت زندگی کو بھرپور انداز میں جینے والی سیمی کو آخر ہو کیا گیا ہے۔کوئی آکر پوچھتا تو کہہ دیتی مجھے کیا پتہ۔۔۔جب پتہ چلا تو بتا دوں گی۔

وقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک منہ زور گھوڑے کی طرح دیوانہ وار بھاگتا جا رہا تھا۔وہی مانوس آواز جو اسے صرف دو بار سنائی دی اب ہر وقت اس کی پرچھائی بن چکی تھی۔وہ اس سے متعلق سوچ کر لطف اٹھاتی تھی۔وہ ہر روز دو بار فوٹو کاپی شاپ اور کینٹین کا چکر لگاتی مگر اس سریلی آواز والے کا کہیں پتہ نہ چل سکا۔
آخری سمسٹر شروع ہو چکا تھا۔جنوری کی سرد شام اس نے سوتے میں خواب دیکھا کہ ایک پھول جس نے ایک تتلی کے کان میں شرارتاً سرگوشی کی اور پھر خاموش ہوگیا تتلی اسی پھول پر بیٹھ کر سرگوشی کرنے والے کو تلاش کرتی رہی اور مزید الجھ گئی۔

مسلسل ڈپریشن میں رہنے کی وجہ سے اب وہ خاصی بیمار رہنے لگی تھی۔چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا آنکھیں اندر کو دھنستی جا رہی تھیں۔سب سہیلیوں کے لیے اس کی یہ حالت پریشان کن تھی۔
اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہونے کے قریب تھی۔

پھر ایک دم سے اس کی زندگی میں نیا موڑ آیا۔۔
اگلے دن اس کا آخری پیپر تھا، اس کے بعد اس نے ہمیشہ کے لیے گھر واپس چلے جانا تھا۔ شام کے وقت ہاسٹل کی چھت پر سدرہ کے ساتھ بے معنی سی گفتگو میں مصروف تھی کہ اسی دوران موبائل فون کی گھنٹی نے باتوں کے تسلسل کو توڑ ڈالا۔دوسری طرف اس کی بڑی بہن نوشین تھی جس نے اسے بتایا کہ تمہارا رشتہ ماموں کے بیٹے جرار کے ساتھ طے  پا گیا ہے اور تمہارے واپس آتے ہی شادی کے دن رکھ دیے جائیں گے۔ فون کے کٹتے ہی اس نے کوئی ردعمل نہیں دیا البتہ سدرہ خوشی سے جھوم اٹھی۔وہ خوش تھی کہ برسوں پہ محیط اس کی اذیت ختم ہونے کی آخر کوئی سبیل نکلی۔
دوسرے دن وہ صبح سویرے اٹھی اس نے الماری سے وہی پیلے رنگ کی قمیض نکالی اور پہن لی آج وہ سرسوں کے پھول کی مانند زیادہ کھلی کھلی لگ رہی تھی سدرہ اسے دیکھ کر حیران تھی کہ کوئی ان کپڑوں میں اتنا حسین بھی لگ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ سب سے پہلے کمرہ جماعت میں آئی اور بیگ رکھ کر فوٹو کاپی شاپ کے سامنے پڑی بینچ پر بیٹھ گئی۔آنکھیں بند کرکے اسی مانوس آواز کو دل و دماغ میں بٹھا کر کسی گہری سوچ میں ڈوبی رہی۔اس کی سہیلیاں حیران تھیں کہ آخر اس نے پیپر کیوں چھوڑا۔۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کے اوپر سرسوں کے پھولوں کی برسات ہو رہی ہے۔اچانک سے ایک تتلی آئی اور اس کے کندھے پر بیٹھ گئی۔اس نے لمبی گہری سانس لی اور آنکھیں میچ کر مسکراتی رہی۔اسی دوران وہ تتلی وہاں سے اڑی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply