ارداہ کر لیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نایئک صاحب پر اب کوئی پوسٹ نہیں کرنی کیونکہ ان کے متعقدین بہت ناراض ہوتے ہیں لیکن پرسوں ایک دانشور دوست کا سوال آگیا تھا اور اس سے وعدہ کیا تھا کہ جواب ضرور دوں گا ۔
دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا حضرت عمر رض ڈکٹیٹر تھے ؟ کیونکہ پچھلے دنوں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ڈکٹیٹر قرآن و حدیث پر عمل کرتا ہے توکوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر اضافی جملہ کہا کہ حضرت عمررض ڈکٹیٹر تھے ۔
اس دوست کا سوال اس لئے تھا کیونکہ ڈکٹیٹر کا ترجمہ کسی بھی انگریزی لغت میں تلا ش کر لیں تو ایک ظالم ایک جابر اور ایک ایسے حکمران کا نقشہ ذہن میں آتا ہے جو آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بزور باز وحکومت پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے اور کسی بھی حکومتی فیصلے میں عوام کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھے ۔ ڈکٹیٹر کے معنوں میں ایڈوولف ہٹلر آتاہے اس کے بعد اٹلی کا موسولینی آتا ہے جس کی لاش عوام نے کئی دن تک چوک میں ٹانگ دی تھی ۔
اس لحاظ سے تو پہلا نقطہ ہی غلط ہے ۔ ایک ڈکٹیٹر قرآن وحدیث پر عمل کیسے کر سکتا ہے کیونکہ وہ تو حکومت حاصل کرتے وقت ہی قرآن کی مخالف کر رہا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اندا زمیں قرآن میں ہے کہ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ.﴿الشوریٰ۲ ۴: ۸۳﴾ ”اور اُن کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔
تو پہلا سوال کیا حضرت عمر ؓنے خلافت خود ہی ہتھیا لی تھی؟ ۔ تو اس کا جواب ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آخری ایام میں مختلف صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا، جن میں حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، اور دیگر بڑے اور معتبر صحابہ شامل تھے۔ مشاورت کے بعد صحابہ کی رائے سے حضرت عمر بن خطابؓ کو خلیفہ مقرر کیا گیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ سے رائے لینے کے بعد باضابطہ طور پر حضرت عمرؓ کا نام بطور خلیفہ تجویز کیا اور عوام کے سامنے بھی ان کا نام پیش کیا۔صحابہ اور عوام کی اکثریت نے اس تجویز کی حمایت کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد، حضرت عمرؓ کو خلیفہ مقرر کیا گیا اور تمام مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔یعنی حضرت عمر بن خطابؓ کا انتخاب صحابہ کے مشورے اور حضرت ابوبکرؓ کی تجویز سے ہوا۔ ان کے دورِ خلافت میں اسلامی ریاست میں جو انصاف پر مبنی نظام نافذ ہوااس کو آج بھی تاریخ میں نشانِ منزل سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا سوال کیا حضرت عمر رض اپنے فیصلے خود ہی کر لیتے تھے اور عوام سے کوئی مشورہ نہیں لیتے تھے ۔ یہ کہنا بہتان عظیم ہوگا کیونکہ حضرت عمر رض ہی وہ شخصیت ہیں کہ جن کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ماضی کی بغیر کسی مثال اور نمونے کے ایک جدید ترین جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی کیونکہ انہوں نے پہلی دفعہ ایک مجلس شوریٰ کا قیام عمل میں لایا ۔ ہر قسم کے حکومتی معاملات کے لئے شوری ٰ کا اجلاس منعقد ہوتا اور ہر کام مشورہ اور کثرت رائے سے عمل میں لایا جاتا۔ اس مجلس شوری ٰ میں مہاجرین او رانصار کے نمائندگان شامل ہوتے تھے ۔ حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعب ؓاور زید بن حارثہ ؓ اس مجلس شوریٰ کے اہم اراکین تھے۔
حضرت عثمان ؓ کے مشورے پر بیت المال کا قیام ، حضرت ولید بن ہشام کی رائے پر محکمہ فوج کا قیام اورحضرت علی ؓ کی تجویز پر ہجری کیلنڈر کا آغاز کیا گیا ۔ الغرض ایسے سینکڑوں محکمے اور عہدے ہیں جو حضرت عمر نے مجلس شوری سے قائم کئے جس میں صوبوں کے تعین سے لیکر اِن کے گورنرز تک ، کاتب، منشی،اکاؤنٹنٹ ، ٹیکس کلیکٹر ، پولیس افسر، فنانس آفیسرجج اور ان سے متعلقہ تمام محکمے مجلس شوری کی مشاورت سے مقرر کیے۔
چلوخیر یہ تو بڑے بڑے کام ہیں جن کو تلاش کرنا اہل علم کا کام ہے وہ تاریخ کے اوراق تلاش کریں گے تو حضرت عمر کے کارناموں کی جگمگاتی شخصیت سامنے آہی جائے گی لیکن دو ایسے واقعات ہیں جو ہم بچپن سے درسی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں جن کے بعد حضرت عمر کی شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے ۔
ایک واقعہ میں جمعہ کے ایک خطبہ کے دوران لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ مال غنیمت میں ہر ایک شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے آپ کا قد اتنا لمبا ہے کہ اس ایک چادر سے آپ کا لباس نہیں بن سکتا تھا ۔ آپ نے اسی چادر کا لباس کیسے بنایا ہوا ہے حضرت عمرؓ نے فوراً وضاحت کی کہ ان کے بیٹے نے اپنا حصہ انہیں دے دیا تھا۔
کیا کسی ڈکٹیٹر کے سامنے کوئی شخص اتنا بے باک سوال کر سکتا ہے ؟؟
ایک اور واقعہ میں آپ نے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ میں عورتوں کے حق مہر کی رقم فکس کرنے لگا ہوں ۔ کیونکہ عورتیں شادی کے وقت زیادہ حق مہر لکھوا لیتی ہیں اور شادیاں مشکل ہورہی ہیں تواسی وقت ایک عورت نے آپ پرکھل کر تنقید کی کہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں جو حق اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورتوں کو دیا ہےاور جس کی حد انہوں نےمقرر نہیں کی ،آپ کون ہوتے ہیں اس کو تبدیل کرنے والے ؟ ۔ حضرت عمر رض نے اسی وقت فرمایا ۔ آج ایک عورت کی فراست نے عمر کو بچا لیا اور اپنا آرڈر واپس لے لیا۔
کیا کسی ڈکٹیٹر کے سامنے کوئی عورت اپنا مقدمہ اس طرح لڑ کر جیت سکتی ہے
شاید ڈاکٹر صاحب حضرت عمر کی قانون کے بارے میں سخت گیری کو ڈکٹیٹر شپ سے نتھی کر گئے ہیں ۔ حالانکہ قوانین کی عملداری کو رول آف لاء کہتے ہیں اور وہ کسی بھی جمہوری حکومت کا حسن ہوتا ہے ڈکٹیٹر تو کہتے ہی اسے ہیں جو قانون کو اپنے گھر کی باندی سمجھتا ہے ۔
نوٹ ۔ ڈاکٹرصاحب نے جو اتنی بڑی بات کہہ دی وہ اگر کسی مخالف فرقے کا شخص کہہ دیتا تو اب تک توہین صحابہ کا بل بنانے والے سرگرم ہو چکے ہوتے لیکن چونکہ یہ ان کے اپنے مسلک کا بندہ ہے تو اس لئے اس پر کوئی آواز کہیں سے نہیں اُٹھی، اسی لئے کہتا ہوں کہ انتہا پسندوں کے کہنے پر لاٹھیاں لیکر باہر نہ آجایا کریں، اپنی عقل کا استعمال کیا کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں