گوتم بدھ جی، آپ سے مل کر خوشی نہیں ہوئی/زیف سید

’ہم سری پترا کے پیچھے پیچھے چلتے جھونپڑی میں داخل ہوئے جہاں بیٹھے ہوئے سب لوگ ہمارے سواگت کے لیے کھڑے ہو گئے، سوائے بدھ کے جو اپنی چٹائی پر بیٹھے رہے۔ مجھے اس وقت معلوم ہوا کہ انہیں سنہرا‘ کیوں کہا جاتا ہے۔ وہ کیتھی (چین) کے کسی باشندے کی طرح زرد رُو تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ آریائی نہیں تھے، بلکہ دراوڑی بھی نہیں تھے۔ لگتا ہے کسی زمانے میں کیتھی کا کوئی قبیلہ ہمالہ پار کر کے گوتم کی شاخ کا بیج بو گیا تھا۔

’بدھ کا بدن مختصر، پتلا اور لوچ دار تھا۔ وہ چٹائی پر بالکل سیدھے بیٹھے تھے، ان کی ٹانگیں ان کے بدن کے نیچے تہہ کی ہوئی تھیں۔ ترچھی آنکھیں اتنی مہین تھیں کہ بتانا مشکل تھا کہ کھلی ہیں یا بند۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بدھ کی آنکھیں اتنی درخشاں ہیں جتنا گرمیوں کی رات کا آسمان۔۔ مگر میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی سن رسیدہ جلد جھریاں سے اَٹی تھی مگر ان سے صحت چھلکتی تھی، اور ان کا منڈا ہوا سر سنگِ مرمر کی طرح چمکتا تھا۔ جب تک میں ان کے پاس رہا، انہوں نے اپنا سر یا جسم شاذ ہی ہلایا۔ ان کی آواز دھیمی اور خوشگوار تھی، اور وہ دائیں ہاتھ ہلا کر بات کرتے تھے۔ ‘
یہ احوال ہم نے گور وڈال کے اچھوتے ناول ’Creation‘ سے لیا ہے جو 1981 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناول میں وڈال نے سائرس سپیتاما نامی ایک شخص کی کہانی بیان کی ہے جو چھٹی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت کا سفیر گزرا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی بین البراعظمی سلطنت تھی جس کے ڈانڈے دریائے سندھ سے لے کر دریائے نیل تک پھیلے ہوئے تھے، اور اس سلطنت کے سفیر کو معلوم دنیا کے مختلف اور متنوع علاقوں کی سفر و سیاحت کا مثالی موقع ملتا رہتا تھا۔

سپیتاما نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اپنی 75 سالہ زندگی میں وہ جن جن لوگوں سے ملے، ان کی فہرست سر چکرا دینے والی ہے: زرتشت ان کے دادا تھے، وہ دارا اول اور خشایارشا (Xerxes) کے ہم جماعت تھے، یونان میں انہوں نے سقراط، سوفوکلیز، اناکساغورث، دیموقریطس سے کندھے بھڑائے۔ مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، جب سپیتاما دارا اول کی جانب سے ایک ظاہراً سفارتی مگر اصلاً جاسوسی مشن پر ہندوستان پہنچے تو یہاں ان کی ملاقات بھلا کس سے ہوئی؟ پہلے گوپالا سے، پھر مہاویر سے اور آخر میں خود گوتم بدھ سے۔ اس کے بعد انہیں چین جانے کا موقع ملا تو پھر وہ تاؤ مذہب کے بانی لاؤ زو اور کنفیوشس سے تبادلۂ خیالات کا موقع بھلا کیوں ہاتھ سے جانے دیتے؟

اس میں شک نہیں کہ گور وڈال نے یہ ناول لکھنے کے لیے عمیق تحقیق کی اور کئی برس ان تمام مشاہیر کے زندگیوں کے بارے میں پڑھنے اور ان کی تعلیمات، پیغام اور فلسفے کو سمجھنے میں بتائے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان عظیم شخصیات سے انصاف کر پائے؟ کیا انہوں نے اپنے ناول میں سقراط، کنفوشس اور گوتم بدھ کے کردار جس طرح پیش کیے، وہ قاری کی توقعات پر پورا اترتے ہیں جو انہوں نے ان شخصیات کے بارے میں قائم کر رکھی ہیں؟

یا یوں کہنا چاہیے کہ گور وڈال کو ایک طرف رکھیے، کیا دنیا کا کوئی ادیب ان کوہ پیکر انسانوں کی کردار سازی اس طرح سے کر سکتا ہے کہ پڑھنے والا کہہ اٹھے، ہاں، گوتم بدھ ایسے ہی چلتے پھرتے ہوں گے، کنفیوشش کی آواز اس طرح کی ہو گی، زرتشت کی شکل و صورت ایسی ہی ہو گی؟

چھوٹا منہ بڑی بات آ گئی ہے، لیکن ذاتی مثال صرف بات واضح کرنے کے لیے دے رہا ہوں۔ میں نے کچھ سال قبل ایک ناول ’آدھی رات کا سورج‘ لکھا تھا جس میں آٹھویں صدی سے لے کر 15ویں صدی کے اندلس میں سرگرم بعض شخصیات کو احاطے میں لینے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ چنانچہ اس ناول میں ابن رشد، ابنِ بطوطہ، المعتمد، زریاب، عبدالرحمٰن الداخل، وغیرہ خود اپنی زبان سے اپنے واقعات بیان کرتے ہیں۔

ابن العربی بھی اسے دور میں گزرے ہیں اس لیے ان کو شامل کیے بغیر چارہ نہیں تھا، اس لیے میں نے ایک باب ابن العربی کی زبانی لکھا جس میں وہ ابنِ رشد سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال اور اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد اگلا منظر ابنِ رشد کی موت کا ہے جب ابن العربی قرطبہ کی شہر پناہ پر اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ ابن رشد کی لاش گدھے پر لادی قرطبہ لائی جا رہی ہے، اور کس حال میں کہ ایک طرف لاش ہے، اور دوسری جانب وزن پورا کرنے کے لیے انہی کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔

دونوں واقعات بڑے پرکشش تھے، اور ان میں فکشن نگاری کی اچھی خاصی گنجائش تھی، لیکن اس باب کو مختلف پہلوؤں سے لکھنے کے باوجود ہر بار تشنگی محسوس ہوتی رہی: ابن العربی کے تاثرات یہ نہیں ہو سکتے، ان کا اسلوب یوں نہیں ہو گا، وہ یہ لفظ نہیں استعمال کر سکے، ان کی نشست و برخاست یوں نہیں ہو گی۔ کئی بار کی قطع و برید کے باوجود مجھے معلوم ہو گیا کہ ابن العربی جیسے ’جنّات‘ کو گرفت میں لینا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ آخر یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑنا پڑا، اور ایک ڈیڑھ ماہ کی عرق ریزی کے باوجود یہ باب ناول میں شامل نہیں ہو سکا، حالانکہ آج بھی مجھے شدت سے احساس ہے کہ اس باب کے بغیر ناول ادھورا ہے۔

اس کی کیا وجہ ہے؟ مجھے تو ایک طرف رکھیے، لیکن گور وڈال ایڑی چوٹی کی کوشش کے باوجود ہمارے سامنے جیتا جاگتا گوتم بدھ کیوں نہیں پیش کر سکا؟ آخر گوتم بدھ ہماری اور آپ کی طرح کے انسان ہی تو تھے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم تاریخی واقعات کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے سامنے کبھی بھی اصل تاریخ نہیں ہوتی، بلکہ اصل تاریخ کا ’تصور‘ ہوتا ہے جس کی مخصوص رنگین عینک سے دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوا ہو گا۔ گزرتی ہوئی صدیاں اس تصور میں یوں رنگ آمیزی کر ڈالتی ہیں کہ ’حقیقت‘ (اگر اس لفظ کا کوئی معروضی وجود ہے بھی) تو بالکل بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

ابنِ رشد کا ذکر آ ہی گیا ہے تو بورخیس کے شاہکار افسانے ’ابنِ رشد کی تلاش‘ کا ماجرا بھی سن لیجیے جس کے ایک حصے میں کلاسیکی عرب شاعر زبیر ابن ابی سلمیٰ کی شاعری کے بارے میں مکالمہ پیش کیا گیا ہے، جس میں حصہ لیتے ہوئے ابنِ رشد کہتے ہیں کہ ’وہی وقت جو محلات کو اجاڑ دیتا ہے، وہ شاعری کو تقویت دیتا ہے۔‘

یہاں اصل میں جاہلی دور کے عرب شاعر زہیر بن ابی سلمیٰ کا ایک شعر موضوعِ بحث ہے جس میں اس نے تقدیر کو اندھے اونٹ سے تشبیہ دی ہے جو انسانوں کو روند دیتا ہے۔ افسانے میں ابنِ رشد اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جب زہیر نے صحرائے عرب میں شعر کہا ہو گا تو اس نے دو چیزوں کو آمیز کیا تھا، یعنی تقدیر اور بوڑھا اونٹ۔ لیکن آج جب یہ سطر دہرائی جاتی ہے تو ساتھ ہی زہیر کی یاد بھی دلاتی ہے اور ہمارے اپنے مصائب کو اس کب کے مرے ہوئے اعرابی کے مصائب کے ساتھ نتھی کر دیتی ہے۔ اس وقت اس پیکر کے دو اجزا تھے، اب چار ہیں۔ وقت نے ان اشعار کا حلقہ وسیع کر دیا ہے۔‘

یہی بات شاعری سے کہیں زیادہ تاریخی شخصیات پر لاگو آتی ہے۔ کیا ہومر، افلاطون، ارسطو، سائرس اعظم، سکندر، سیزر، قلوپطرہ، رستم و سہراب، حاتم طائی، قیس مجنوں، خسرو، سعدی، رومی، میر، غالب، واقعی ایسے ہی تھے جیسے وہ ہمیں اپنے تصور میں دکھائی دیتے ہیں؟ میں صرف قلوپطرہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کیوں کہ ان کی مثال سے بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ قلوپطرہ کو اساطیری جمال کی مالکہ ملکہ سمجھتے ہیں، اور آج بھی کسی کے حسن کی مثال دینا ہو تو قلوپطرہ کو یاد کیا جاتا ہے۔ فرانسیسی فلسفی بلیز پسکال کا فقرہ مشہور ہے: ’قلوپطرہ کی ناک: اگر یہ تھوڑی چھوٹی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا۔ ‘
لیکن کیا قلوپطرہ واقعی تاریخ ساز ماڈل حسینہ تھیں؟ اتفاق سے ہمارے پاس قلوپطرہ کے دور کے سکے اور پینٹنگز موجود جن میں ان کی شبیہ دکھائی گئی ہے۔ ان میں قلوپطرہ کی ناک لمبی اور ٹیڑھی ہے اور ٹھوڑی بھی ضرورت کچھ زیادہ ہی ابھری ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ ان کی گردن پر چربی کی تہوں سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ گلہڑ کی بیماری کا شکار ہوں۔

یہی نہیں بلکہ قلوپطرہ کے دور سے قریب گزرنے والے تاریخ دانوں نے بھی ان کے حسن کے قصیدے نہیں لکھے۔ مشہور مورخ پلوٹارک قلوپطرہ کے بارے میں لکھتا ہے: ’اس کا حسن اتنا بےمثال نہیں تھا کہ دیکھنے والوں پر کوئی گہرا تاثر چھوڑتا،‘ اور یہ کہ ’قلوپطرہ کی جسمانی خوبصورتی سے زیادہ ان کی شخصیت دیکھنے والوں کو متاثر کرتی تھی۔‘

اس کے باوجود اگر قلوپطرہ حسن کی دیوی سمجھی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے حسن کے قصے ہمیں تاریخ نے نہیں پڑھائے بلکہ ان کی ترسیل دوسرے، زیادہ موثر اور دور رس ذرائع سے ہوئی ہے۔ قلوپطرہ کے بارے میں ہمارا مجموعی ثقافتی تاثر قلوپطرہ کے بارے میں لکھے گئے ڈراموں، پینٹنگز، مجسموں، ناولوں، نظموں اور ہالی وڈ کی فلموں نے قائم کیا ہے۔ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں شیکسپیئر کے مکالمے گونجنے لگتے ہیں، مشاہیر کی اقوال اس کے خدوخال ابھارتے ہیں، اس کی شخصیت مصنفوں اور شاعروں کی اس کے بارے میں تراشی ہوئی تشبیہات و استعارات کے جال میں سے چھن کر ہم تک پہنچتی ہے، یہی نہیں بلکہ ہالی وڈ کی صوفیہ لارین اور الزبیتھ ٹیلر جیسی ساحرائیں تک ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ تو جب ہم لفظ ’قلوپطرہ‘ پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں، تو ہمیں اس گوشت پوست کی اس اصل، تاریخی، حقیقی، جیتی شخصیت سے کم ہی سروکار ہوتا ہے جو 69 قبل مسیح میں پیدا ہو کر 39 سال کی عمر میں دنیا سے چل بسی تھی بلکہ اوپر بیان کردہ سارے انسلاکات ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھتے چلے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس تحریر کا سکوپ اتنا نہیں کہ اس میں تاریخی شخصیات کے بارے میں لکھے گئے تمام فکشن کا احاطہ کیا جا سکے، اس کے لیے شاید پوری کتاب بھی کم پڑ جائے گی، اس لیے میں کوئی فہرست بھی نہیں دینا چاہتا، البتہ ایک اور کتاب کا ذکر کروں گا جو اتفاق سے گور وڈال کا ناول پڑھنے کے چند ہی ہفتے بعد میری نظر سے گزری۔

یہ بنگالی ناول نگار ربی شنکر بل کا ناول ’دوزخ نامہ‘ ہے جسے انعام ندیم نے بڑی نفاست سے اردو میں ڈھالا ہے۔ ناول میں غالب اور منٹو آمنے سامنے ہیں۔ غالب اپنی کہانی منٹو کو سنا رہے ہیں اور منٹو اپنی کہانی غالب کو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ربی شنکر نے بہت محنت کی ہے، منٹو اور غالب کی زندگیوں کو پوری طرح سے پرکھا ہے اور جانچا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک بنگالی ادیب، جسے بقول اس کے اردو نہیں آتی، وہ اردو شعریات، رسومیات اور تہذیب کو چھونے میں کامیاب رہا ہے، اور وہ کام کر گزرا ہے جو کسی اردو ادیب کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود کیا اس ناول کے صفحوں میں سے جو غالب جھلکتا ہے کیا یہ وہی غالب ہے جو ہمارے خیالوں اور سوچوں کا غالب ہے؟ مثلاً بغیر کسی کاوش کے، ناول کے صفحے یونہی پلٹ کر یہ پیراگراف سامنے آیا ہے:
’کوئی نہیں کہہ سکتا منٹو بھائی کہ ایک نقطہ کب اور کہاں ظاہر ہو گا یا کب اور کس رخ پر اس نقطے سے لکیر کھینچی جائے گی۔ پر آپ لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اچھا تو مجھے ذرا سوچنے کی مہلت دیجیے۔ میں اس پر دوبارہ غور کرتا ہوں، مجھے ضرور پتہ چل جائے گا کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے۔ مجھے ذرا سی مہلت دیجیے۔
’ہاں، مجھے شاہجہان آباد آمد کی بات پہلے بتانا چاہیے تھی۔ وہ سب ابھی ابھی مجھے سے بات کر کے گئی ہیں۔ وہ روحیں، دلی آتے ہوئے جن کی آوازیں میں نے سنی تھیں، انہوں نے کہا ہے احمق کہیں کے، اگر تم نے پہلے ہماری بات نہ بتائی تو تمہاری بات کوئی نہیں سنے گا۔‘

کیا آپ کو ان لفظوں کے پیچھے غالب جھلکتا دکھائی دیتا ہے؟ کیا غالب اس طرح باتیں کرتے ہوں گے؟ مجھے تو نہیں لگتا۔ شاعری کے علاوہ غالب کے خط بھی ہمارے سامنے ہیں، ان سے غالب کی جو شخصیت ابھرتی ہے، یہ وہ غالب تو نہیں۔

اس تحریر کا آغاز گوتم بدھ سے ہوا تھا، اختتام بھی انہی پر ہونا چاہیے۔ ہم نے شاکیہ منی کی جو پینٹنگز دیکھی ہیں ان میں سے اکثر ایسی ہیں کہ ان میں بدھ کے سر کے گرد ہالہ دکھائی دیتا ہے۔ ٹیکسلا کے عجائب گھر میں ان کے جو مجسمے پڑے ہیں ان میں بدھ کو دیوقامت اور حواریوں کو بونے دکھایا گیا ہے جو ان کے قدموں میں سکڑے بیٹھے ہیں۔ ہم نے ان کی حکایتیں اور کہاوتیں پڑھ رکھی ہیں جن کی ہر سطر میں اتھاہ حکمت کے سمندر ہلکورے لیتے ہیں۔

ان سب کی روشنی میں کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ گوتم بدھ کو چلتے چلتے ٹھوکر لگ گئی ہو گی، یا وہ کوئی بات بھول گئے ہوں گے، یا آج ان کے دانت میں درد تھا، یا ان کو بھوک لگ رہی تھی، یا انہیں زکام ہوتا ہو گا، یا ان کا موڈ خراب ہو گا، یا وہ مایوس ہوتے ہوں گے، انہیں کسی بات پر دکھ ہوتا ہو گا، یا وہ کسی بات پر کھلکھلا کر ہنستے ہوں گے؟

اگر مستقبل میں کبھی ٹائم مشین ایجاد ہو جاتی ہے، اور کوئی شخص اس میں بیٹھ کر ڈھائی ہزار برس پیچھے جا کر گوشت پوست کے گوتم بدھ سے ملتا ہے تو میرا اندازہ ہے کہ اسے سخت مایوسی ہو گی۔ ڈھائی ہزار برس کی حاشیہ آرائی، رنگ آمیزی اور داستان طرازی نے گوتم بدھ کی شخصیت کے گرد ایسا ہالہ پینٹ کر دیا ہے کہ ہم نے ان سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کہ اصل گوتم بدھ کو بھی ان پر پورا اترنے میں دشواری ہو گی۔

julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply