• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنگ آزادی گلگت لداخ 1947 میں کرنل مرزا حسن خان کا کردار اور سازشوں کا جال/شیر علی انجم

جنگ آزادی گلگت لداخ 1947 میں کرنل مرزا حسن خان کا کردار اور سازشوں کا جال/شیر علی انجم

ہر سال یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت بلتستان باقاعدہ سرکاری سطح پر شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا  ہے،لیکن خطے کے 25 لاکھ عوام آج بھی بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔ یہاں پُرامن سیاسی جدوجہد ایک طرح سے جرم تصور کی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت خطے میں دو درجن سے زائد بنیادی سیاسی حقوق کی جدوجہد کرنے والے کارکن اور رہنما ایک ایسےقانونی  فورتھ شیڈول کے تحت پابند ہیں جو پاکستان میں مذہبی اتنہاپسندی اور فرقہ واریت کے  خاتمے کیلئے بنایا تھا۔ نہیں معلوم یہ کونسی آزادی تھی جسے حاصل کرنے کے  بعد گلگت بلتستان نا  مکمل پاکستان کا حصہ بن سکے اور نہ ہی اس خطے کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں متنازع  حیثیت کے مطابق حقوق ملے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہےکہ اس آزادی  کے  اصل کرداروں کو نہ صرف ان کی زندگی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُنکی  اولادوں کو بھی اس آزادی کی سزا بھگتنی پڑی ،اور برطانوی سامراجی ایجنٹ کو گلگت لداخ کی آزادی کا ہیرو بنا کر اُن کی وفات کے کئی سال بعد ستارہ امتیاز سے نوازا۔ جوکہ یقیناً گلگت بلتستان کے عوام کیلئے لمحہ فکریہ اور تاریخ کے ساتھ دھوکہ ہے۔

اس حوالے سے راقم نے کوشش کی ہے کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں وہ سچ عام آدمی تک پہنچاؤں جو کسی تدریسی کتاب میں نہیں لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کی نئی نسل کو اپنے خطے کی تاریخ  کا علم ہی نہیں۔ یقیناً جس قوم کو اپنی تاریخ اور ہیروز کے بارے میں علم نہ ہو وہ قوم دنیا میں اپنا مقام کھو دیتی ہے اور وجود برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔آج گلگت بلتستان کی طویل تاریخ میں انقلاب گلگت کے بعد کے واقعات کے حوالے سے زیادہ تر سرکاری کاتبوں کی  تحاریر کو بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے مستند  مانا جاتا ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان  کی تاریخی معاملات میں تحقیقی صحافت کا عنصر موجود ہی نہیں۔ سرکاری اشتہارات پر چلنے والے اخبارات میں تاریخ پر سچ لکھنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

جنگ آزادی گلگت بلتستان لداخ میں جن شخصیات کا نام آتا ہے اُن میں کرنل مرزا حسن خان ،جو جموں کشمیر آرمی کے آفیسر  سر فہرست  ہیں ۔ وہ اور اُ ن کے بیٹوں نے اس انقلاب کے عوض قید بند اور پابندیوں کے صعوبتوں میں  زندگی گزاری ۔ کرنل مرزا حسن خان کا تعلق گلگت سے تھا اور وہ 19 فروری 1919ء کو پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام مرزا تاج محمد اور خاندانی طور  پر مقامی زبان میں رونو اور کشمیر ی زبان میں جرال راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل  کی اور میٹرک کیلئےجموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر چلے گئے۔ اُنہیں ہائی اسکول میں داخلے لئے بھی مختصر عرصہ ہوا تھا کہ   والد  وفات پا گئے۔یوں اُنہیں پونچھ کے ایک وزیر میر حسن شاہ اپنے ہمراہ پونچھ لے گئے اور اپنی نگرانی میں جے  وی ہائی سکول میں داخل کروا دیا۔ 1934 میں  میٹرک کے سالانہ امتحانات میں انہوں نے اوّل پوزیشن حاصل کی ،تو انہیں خصوصی سکالر شپ پر ایس پی کالج سرینگر میں داخلہ مل گیا۔ 1936ء میں آپ نے ایف اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ 1937ء میں آپ کشمیر آرمی میں بحیثیت کیڈٹ آفیسر بھرتی ہو گئے۔ چنانچہ ٹریننگ کے لیے دھیرہ دون اکیڈمی بھیج دیئے گئے۔ 1941ء کو انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ 1943ء کو  وہ  بحیثیت میجر ترقی پا کر انڈین آرمی میں محاذ جنگ پر خدمات سرانجام دینے چلے گئے۔ 1946 میں برما کے محاذ پر لڑی جانے والی دوسری جنگ عظیم کی فیصلہ کن لڑائی میں انگریزی فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے انہوں نے بہادری اور ہمت کا زبردست مظاہرہ کیا۔ اسی بنا  پر انہیں ملٹری کراس کا اعلیٰ فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ برما کے محاذ پر جنگ بندی کے بعد وہ واپس آ گئے  اور ریاستی افواج میں خدمات سرانجام دینے لگے۔ تقسیم برصغیر کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیاریاں شروع کیں، جس کے نیتجے میں انقلاب گلگت لداخ برپا ہوا۔

انقلابی کونسل کا قیام
کرنل مرزا حسن خان مرحوم اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک کے صفحہ نمبر 127 میں لکھتے ہیں کہ 1946 کے اوائل میں چند فوجی افسرحالات کا رُخ دیکھتے ہی یہ بھانپ گئے تھے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی غفلت اور سوشلسٹوں کی غداری بالآخررنگ لاکر رہے گی۔ اس کے تدارک اور حالات کو لگام دینے کیلئے اُنہوں نے خفیہ  طور پر سر جوڑ لیا ،جس کی فوج میں سخت ممانعت تھی۔وہ لکھتے ہیں جموں اور کشمیر میں اُس وقت ڈوگرہ فوج کا گڑھ تھا،شروع میں راقم کے ساتھ صرف میجر راجہ محمد افضل خان تھے، اس کے بعد میجر اسلم خان کو بھی میں اعتماد میں لیا۔بعد میں کرنل محمد منشاء،میجر شیر،میجر محمد دین اور میجر سید غضنفر علی شاہ سمیت کئی جونیئر مسلمان افسران بھی ان کے ساتھ مل گئے اور ان تمام معاملات  میں سینئرافسران سے اپنے آپ کو دور رکھا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ بڑے غور و خوض کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے مہاراجہ کا تختہ اُلٹا دیا جائے گا۔اور ارادہ تھا کہ جب تاج برطانیہ کی ذمہ داریاں تقسیم ہند کے بعد ختم ہوں گی تو کشمیر کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر فوراً  پاکستان  کیساتھ الحاق کا اعلان کریں گے۔ اس کتاب میں اُنہوں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کرنل حسن خان پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کیلئے لڑنے پر فخر کرنے والے   فوجی افسر تھے۔

میجر براؤن کے نام سے منسوب بغاوت گلگت کی حقیقت 
قارئین کیلئے یہ بات حیران کن   ہوگی کہ برطانوی سامراجی ایجنٹ میجربراؤن جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم کردار ہونے کے ساتھ مشکوک بھی رہے ہیں۔اُنکی کتاب بغاوت گلگت اُن کی وفات کے  14  سال بعد انگریزی زبان میں منظر عام پر آئی اور لکھنے والوں نے اُس کتاب کی بنیاد پر اُسے گلگت بلتستان کا ہیرو بناکر پیش کیا۔گلگت بلتستان کے سرکاری دانشوروں نے اس کتاب کی بنیاد پر حسن خان کے خلاف تحاریر اور کتابیں لکھیں  اور سرکاری سطح پر ایوارڈ حاصل کیے ۔اسی طرح میجر براؤن کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلی امان اللہ خان مرحوم اپنی کتاب (جہد مسلسل) ـ جلد  سوئم کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ“میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان جن کو گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق ہے،کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب سے متعلق دستاویزات مانگنے کیلئے فون کیا تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری۔ مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہاڑ جیل میں پھانسی کا دکھ تھا۔ (مقبول بٹ ایک کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کا بانی تھا جن کو ہندوستان کی حکومت نے نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا)۔اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے مجھے فرصت نہیں ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کرسکوں۔ بعد میں فرصت ملتے ہی میں نے میجر براؤن کا پتہ کیا تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ میجرصاحب کا حال ہی میں پانچ دسمبر 1984ءکو انتقال ہوا ہے۔میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز براؤ ن نے کہا کہ ”کچھ دستاویزات تو رائٹرز نیوز ایجنسی والے لےکر گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں اور اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے(حوالہ بشکریہ ایڈوکیٹ اشفاق احمد)۔ اور مزید براؤن  کی کتاب کے انگریزی ورژن کے صفحہ 15 میں صاف الفاظ میں لکھا ہےکہ ولیم براؤن کی گلگت سے واپسی یعنی کم از کم 1948ء تک اپنے پاس ایک ڈائری رکھتے تھے جو کھو گئی (بظاہر چوری ہوگئی تھی)۔ انہوں نے اسے بیانیہ انداز میں لکھا تھا اور ان کا ارادہ اسے چھپوانے کا تھا۔ لیکن آخر میں ارادہ ترک کیا اور بعد میں اس کی اصل ٹائپ شدہ مسودہ بھی کھو گئی تھی۔ مگر کاربن کاپی سے کام چلایا گیا جس کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے میجر براؤن کی یادداشت کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ“اشاعت کیلئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی اور وہ گروپ کیپٹن  شاہ خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں( جو ایک طرح سے حسن خان مخالف افسر کے طور پہچانے جاتے تھے) جنہوں نےگلگت بلتستان میں1947-1948 کے واقعات سے متعلق اس یادداشت میں شامل مواد کی تصدیق کرنے میں مدد کی۔

کرنل مرزا حسن خان پر شیعہ ریاست کے  قیام کا الزام 
بلتستان سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین اور مصنف مولانا حق نواز اپنی کتاب جنگ آزادی گلگت بلتستان اور کشمیر میں لکھتے ہیں کہ میں نے جب قائد اہل جماعت سنت گلگت بلتستان مکتب دیوبند قاضی نثار احمد اور مرحوم پروفیسر عثمان علی خان سےمذکورہ کتاب لکھنے کیلئے اجازت طلب کرنے کی غرض سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ مرحوم پروفیسر عثمان علی خان کرنل حسن کو ہیرو تو کیا بطور ایک مجاہد بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ ایک خط کا حوالہ دیکر یہ سمجھ رہا تھا کہ کرنل حسن خان چونکہ اس خطے کو شیعہ ریاست بنانے کا ارادہ رکھتے تھے جس میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔لہذا انہیں ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہیے  اور نہ ہی اسکے بارے میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔مصنف مزید لکھتے ہیں کہ مرحوم پروفیسر عثمان علی خان جو خود ایک مشہور اور معروف شخصیت کے حامل ایک عظیم  انسان تھے ان کا کرنل حسن خان کے بارے میں کتاب لکھنے سے منع کرنا تعجب کی بات تھی۔ وہ نا  صرف کرنل حسن خان کے مخالف تھے بلکہ میجر براؤن کو انقلاب گلگت کا بانی سمجھتے تھے۔ مصنف مزید لکھتے ہیں کہ کئی بار کی ملاقاتوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم وہی گھسی پٹی باتیں جو مخالفین کی طرف سے گھڑی ہوئی تھیں ، انہی باتوں پر یقین کر بیٹھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز اور ڈوگروں کے ایجنٹوں کیلئے کرنل حسن خان کے ہر قسم کا کردار ناقابل برداشت تھے۔ اللہ تعالی نے اپنی مہربانی سے حکمت کے ذریعے ان کرداروں کے ایک اہم کردار کو ہمارے سامنے غیرمتوقع طور پر ظاہر کردیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو آزاد کرانا انگریزوں کے عزائم کو خاک میں ملانا کتنا بڑا   جرم تھا ،مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کتاب کو  سطر بہ سطر  پڑھنے سے معلوم ہوجائے گا کہ فرقے کے نام پر آپس میں لڑانے والے کون تھے اور ہیں، کیونکہ اُس نقلی خط کو میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ کچھ ایسا ہی میجر براؤن کے نام سے منسوب کتاب بغاوت گلگت(اُردو) کے صفحہ نمبر 183 میں درج ہے ، جس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ حسن خان نے اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ تم پاکستان کے  وفادار ہو،تمام پاکستانی پاکستان کے وفادار ہیں ،لیکن ہماری پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش نہیں ہے۔ہمارا ارادہ  یہ ہے کہ ہم آزاد اسلامی ریاست بنائیں گے جس کا نام ریاستہائے متحدہ گلگت ہوگا۔اگر چہ ہم پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھیں گے لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ  اہلِ تشیع  نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے سر ہلاہا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جو شخص 1946 میں پوری ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کیلئے ریاستی فوج میں رہ کر منصوبہ بندی کر رہا ہو وہ کس طرح ریاست کے ایک حصے کو ڈوگرہ فوج سے الگ کرنے کے بعد الگ ریاست کا سوچ سکتا ہے۔ اس بات کا حسن خان نے برملا اپنی کتاب میں اظہار کیا ہے کہ مقامی اور انگریز سازشوں نے انقلاب گلگت کے بعد ٹیبل کے بجائے سازشوں اور فرقہ واریت کا سہارا لیا جس کے نتیجے میں ایک تحصیلدار پولیٹیکل ایجنٹ کی صورت میں گلگت بلتستان مسلط ہوگیا۔

یہاں یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ براؤن کے نام سے منسوب کتاب میں فرقہ واریت کی بنیاد پر حسن خان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں حسن خان کو انقلابی کونسل میں اہلسنت اور اسماعیلی افسران مکمل تعاون حاصل تھا  ،وہیں انقلاب گلگت میں باغی افسران سے تعاون کیلئے قاضی عبدالرزاق کا فتویٰ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح حسن خان کے پلاٹون میں اکثریت اہلسنت جوانوں کا ہونا اور  اُن پر اعتماد کرنا اس بات کو واضح کرتا  ہے کہ حسن خان سے خائف براؤن نے فرقہ واریت کی  بنیاد پر حسن خان  کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ تاریخی کاکتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی  ہے کہ تقسیم    ِ کشمیر کے بعد انگریز گلگت ایجنسی کو برطانوی بفر اسٹیٹ یا کالونی بنانے کی خواہش رکھتے تھے لیکن حسن خان کی آمد نے اُن کے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔

گلگت لداخ کے گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کا واقعہ 
معروف مصنف احمد شجاع اپنی کتاب مسئلہ کشمیر کے صفحہ نمبر 172 میں لکھتے ہیں کہ گلگت کے کیپٹن حسن خان اسلام پرست تھے۔دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد جب 1946 میں واپس وطن لوٹے تو اُنہیں اُن کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا۔حسن خان نےکشمیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی قریب سے دیکھی  تھی  اور اُنہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے پہلے ہی بغاوت کامنصوبہ بنایا تھا۔ اُن کا پروگرام تھا کہ اگر مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کرتے ہیں توبغاوت کردی جائے گی اور جموں سرینگر اور نوشہرہ جیسے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا جائے گا۔اُن کے عزائم کا مہاراجہ کو علم ہوا تو اُنہیں  گلگت ٹرانسفر کرکے پیچھے اُن کی گرفتاری کیلئے کرنل عبدالمجید کی نگرانی میں جموں کشمیر رجمنٹ کی کمپنی بھیج دی گئی۔لیکن ہوا یوں کہ حسن خان کے بجائے  خود کرنل مجید کو حسن خان نے گرفتار کرکے اسکاؤٹس ہاؤس گلگت میں نظربند کردیا۔ اس عرصے میں ریاست جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوگیا تھا اورایک طرح سے گلگت اسکاؤٹس کی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔ کتاب گلگت اسکاؤٹس کے مصنف شاہ خان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر126 میں لکھتے ہیں کہ انقلاب سے ایک دن پہلے انقلابیوں نے میجر براؤن کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا تھا اور اُنہیں  بتایا تھا کہ اگر براؤن انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیتے ہیں تو اُنہیں بحفاظت پاکستان روانہ کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اُس وقت براؤن کی حیثیت ایک مجبور لیکن چالاک سازشی افسر سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی ۔
گلگت بلتستان میں یہ بات تمام سرکاری دانشورں کی جانب سے ہمیشہ زور دیکر کہتے ہیں کہ گھنسارا سنگھ کی گرفتاری میں حسن خان کا کوئی کردار نہیں بلکہ صوبیدار میجر برابر خان نے براؤن کے حکم پر اُنہیں گرفتار کیا۔ اُن کی آنکھیں کھولنے کیلئے جن تاریخی حوالہ جات کا راقم نے ذکر کیا ،کافی ہیں۔لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ولیم براؤن کو جب معلوم ہواکہ گلگت کا معاملہ اُن کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور گلگت اسکاؤٹس میں اُن کے ماتحت افسران حسن خان کے ساتھ ملا ہوا ہے تو اُنہوں نے گورنر کو اطلاع کردی تھی۔یوں گورنر نے اپنی حفاظت اور بغاوت کو کچلنے کیلئے بونجی سے سکھ فوج طلب کی اور کیپٹن بلدیو سنگھ کی کمپنی  میں گلگت آنے کیلئے تیار ہوئے۔لیکن حسن خان نے ایساہونے نہیں دیا اور خود گلگت کی طرف روانہ ہوئے۔ اس واقعے کی مزید وضاحت کریں توکرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر164 میں لکھتے ہیں کہ 31 اکتوبر 1947 کو سہ پہر چار بجے سب ضروری سامان لیکر اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ ہمارا مقصد گلگت پر چڑھائی کرکےگورنر کی گرفتاری کی  راہ میں جو بھی مشکلات آئیں اُن سے نمٹنا تھا۔       کسے معلوم کہ آخری وقت کون اس منصوبے پر مخلص ہو اور کون آخری وقت میں چھوڑ کردشمن سے ملے اورجاگیروں کا طلب گار ہوگا۔ اسی صفحے پر وہ اپنے اور بابر کے درمیان تعلقات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصل بوجھ میرے اور بابر کے کاندھے پر تھا (کیونکہ بابر گلگت اسکاوٹس کا افسر ہونے کے  ساتھ ساتھ  اُن کا    سا تھی نہیں تھا  جبکہ حسن خان پوری کمپنی لیکر آرہا تھا)۔ادھر گورنر اس اُمید سے بیٹھا تھا کہ بونجی سے سکھ کمپنی بلدیو سنگھ کی قیادت میں گلگت آرہا ہے لیکن حسن خان نے گلگت پہنچ کر بابر کے ذریعے گورنر کو لکھ کر اطلاع کی کہ بلدیو نہیں میں حسن خان آیا ہوں۔ یوں گورنر گھنسارا سنگھ گرفتار ہوئے اور گلگت لداخ سے مہاراجہ آف جموں کشمیر کی حکومت ختم ہوکر آزاد کردہ علاقہ جات کہلائے۔ اس بات کا اظہار گلگت لداخ کے آخری گونرر گھنسا  سنگھ نے اپنی کتاب گلگت 1947 سے پہلے میں بھی کیاہے۔ لیکن بدقسمتی سے انقلاب گلگت کے اس عظیم ہیرو کو تمغے بجائے پنڈی سازش کیس میں غداری کا لقب ملا۔یوں تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب گلگت کوئی حادثہ نہیں بلکہ جامع حکمت عملی کے بعد اچانک رونما ہونے والا واقعہ تھا جس کی بنیاد پر قدرتی وسائل،معدنیات،جنگلات اور آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں کشمیر کا اہم حصہ گلگت بلتستان ہندوستان کے قبضے میں جانے سے بچ گئی اور اس کام کو انجام دینے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے والے شخصیت کا نام کرنل مرزا حسن خان  تھا۔جنہوں نے نا  صرف مہاراجہ کے فوج میں شامل افسران کو اپنے ساتھ ملایا ،بلکہ گلگت اسکاؤٹس کے افسران جن میں بابر خان،سعید درانی وغیرہ  شامل تھے۔ ان تمام واقعات کو خلاصے کے طور پر قوم پرست رہنما نواز خان ناجی کچھ ا س طرح بیان کرتے ہیں کہ 1947 میں ہم کمزور تھے ہمیں سازشوں کے ساتھ پیکج ملا اور آزاد کشمیر کو آئین اور جھنڈا۔

عبوری حکومت کی تشکیل کیلئے حسن خان کا کردار 
کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک کے صفحہ نمبر 171 میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔میں شاہی گراؤنڈکے جھمیلے سے نکل کر سکاؤٹ لائن میں آئے تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب افسر اور گلگت کے معززین جمع تھے اُنہیں جیسے چُپکے سے کسی نے دعوت دیکر بُلایا   تھا ۔یہی حال پریڈ گراؤنڈ کا بھی تھا جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی میٹنگ تھی جو عبوری حکومت کی تشکیل کیلئے بلائی گئی تھی۔کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاضرین کے درمیان انگریز افسر بھی مدعو تھے۔ میرے رفیق اس کار خیر میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے۔ علاقہ بھر کے کرم فرماوں کی اس بڑی بن بلائی غیرنمائندہ جماعت میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی۔ہرابولہوس اس میں مدعو تھااور اگر موجود نہ تھے تو صرف بونجی گیریژن کے انقلابی افیسر،جو کچھ تو بھوپ سنگھ والی پڑی میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے اور کچھ خود بونجی میں محمد خان جرال اور نادر علی خان کے ماتحت میرے انتظار میں رہ گئے تھے۔ انگریز اس میٹینگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی اُن کے ہاں میں ہاں ملائے جارہے تھے کیوں نہ اسکاوٹ افیسر تو اس تربیت میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ میرے لئے اخلاقی چیلنج تھا کہ اکیلا کس طرح اس جمہوری علم پر ردعمل کرتا ہوں۔وہ ہنزہ کےمرحوم میر جمال خان کو اس عبوری حکومت کی صدرات پیش کرنا چاہتے تھے۔۔ بس یہ تھی اُنکی تمنا اور اُنکی دعا،اگر اس تجویز پرعمل ہوتا تو صرف انگریز اور میروں کے لواحقین کا بھلا ہوتا۔تمام علاقہ فیوڈل نظام کے تحت آتا اور راقم رفتہ رفتہ پش پردہ چلا جاتا۔کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کے بعد پاکستان کے بارے میں اُن کا کیا رویہ ہوتا کیونکہ میر آف ہنزہ نے اس واقع سے ایک ماہ بعد Instrument of Accession پر دستخط کئے تھے جبکہ اس سے صرف تین ماہ پہلے مہاراجہ کے ساتھ وفاداری کا اعلان بھی کرچُکے تھے۔یہ ایک ماہرانہ منصوبہ اور نامعقول چال تھی جس کی تائید سوائے گلگت کے عوام کے جو باہر گراونڈ میں نعرے مار رہے تھے،کمرے میں موجود سب نے جمہوری طریقے سے کی تھی، راقم نے اسے تدبر سے رد کردیا اور پستول نکالیا اور مرحوم راجہ شاہ رئیس خان جو گلگت کے ہی ایک شریف بزرگ اور راجہ خاندان کے فرد تھے کو صدربنا دیا۔ اُن سے دیگر میر اور راجے خار کھاتے تھے کیونکہ اُن کے خاندان اور راقم کے خاندان میں قدیم سے تعاون تھا۔سعید دورانی اس انقلابی حکومت میں میرے ڈپٹی مقرر ہوئے لیفٹنٹ غلام حیدرکو ان علاقوں میں پولٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا اور بابر سعید درانی کے نیچے کوارٹر ماسٹر مقرر ہوئے، اُنہیں عملا انقلاب کے دوران فوج کو رسل پہنچانے کے مشکل فرائض اُنکی مرضی سونپے گئے تھے اور حاضرین کی اس تجویز کو اُنہوں نے پسند کیا تھا۔ملک اور قوم کی ہمدرد،اس مجلس مشاورت نے میری کسی تجویز کو رد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی تو مجھے اُن کے دل جوئی کی خاطریہ تجویز ماننی پڑی کہ سول فوجی دونوں معاملات میں دونوں انگریز افسر میرے مشیر ہونگے، جب تک مجلس مشاورت برخاست نہیں ہوئی تھی،میں نے یہ زہر چُپکے سے پی لیااور میٹنگ کے برخاست ہوتے ہی ان دشمنان ملت کو اُن کے بنگلے میں نظربند کردیا اور اسکاوٹس ہی کا پہرہ بٹھا دیا تاکہ یادگار رہے۔ راقم حسب سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جو بھی کہیں مقرر ہوئے،تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پریہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھ سے تعرض نہیں کیا۔جیسا کہ عرض کیا ہے اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرض ہوگیا تھا اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فورا بعد انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دیا، اور اُنہیں اسکاوٹ سرداروں سے گرفتار کروایاجو اُنہیں ساتھ لے آئے تھے اور میرے مشیر مقرر کروا رہے تھے۔ انقلاب بغیرسازشوں کے کامیاب نہیں ہوتے ہیں جانی دوستوں کے آستینوں میں بڑے بڑے سانپ پلتے ہیں سردست کوئی بڑا سانپ ہماری گرفت سے باہر نہ تھا ۔لیکن رینگتے دشمنوں کی کبھی کمی بھی نہیں تھی۔ اس نامعقول مجلس کی ابدی برخاستگی سے پہلے ایک پیغام راقم کی ہی ڈیکٹیشن پر میرے نام نہاد مشیروں نے حکومت پاکستان کو بھیجا تاکہ سول امور میں ہماری مدد کیلئے ارتباطی افسر بھیج دیں جو ہمارے اور اُن کے درمیان رابطہ رکھنے کا ذریعہ بنے۔ اس سے مدعا گلگت کے عوام کو یہ دکھانا تھا کہ اکیلئے نہیں ہیں بلکہ ایک ملک ہماری پشت پر ہے،ہم سب کچھ کشمیر کو اس سے ملانے کیلئے کررہے تھے اپنا کوئی مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن بعد میں یہ پولٹیکل ایجنٹ عملا ان علاقوں کا مالک بن بیٹھا اور ہماری انقلابی جدوجہد کی تحریک خود بخود دم گھٹ کر رہ گئی۔ یوں ان تمام تاریخی حقائق پر پڑھنے کے بعد قارئین فیصلہ کریں کہ انقلاب گلگت کا اصل ہیرو کون؟۔  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کرنل مرزا حسن خان کی تصویر وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاوس کی دفاتر کا زنیت بن جائے لیکن افسوس وہ اور اُن کی پوری ٹیم کی تصاویر گلگت میں چوراہے کی دیوار میں گھاڑ رکھا ہے۔

julia rana solicitors

آج کے گلگت بلتستان کا مسئلہ 
اگرچہ ہر سال یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت بلتستان سرکاری سطح پر شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خطہ آج بھی بنیادی سیاسی معاشی اور ووٹ کے حقوق محروم ہیں۔ اس خطے کے عوام نے جب بھی بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ یہ خطہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں متنازعہ علاقہ ہے اور اُس وقت تک پاکستان میں آئینی اور قانونی طور پر شامل کرنا ممکن نہیں جب تک اقوام متحدہ پوری ریاست جس میں جموں کشمیر،لداخ، آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل، استصواب رائے نہیں کراتے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلوں کے مطابق بھی گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کی تبدیلی ممکن نہیں لیکن مسلہ کشمیر کے تناظر میں طے شدہ حقوق فراہم کرنا اسلام آباد کی ذمہ داری ہے۔ جو آج تک فراہم نہیں کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ وفاق پاکستان گلگت بلتستان کا نظام فیڈریشن میں شامل چاروں صوبوں سے ہٹ کشمیر کونسل کے زریعے چلاتے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرنے کی متعدد مطالبات کے  باوجود  این ایف سی میں یہ خطہ شامل نہیں جس سے اس خطے کی وسائل اور رائلٹیز کا تخمینہ ایک معمہ بنا ہوا ہے جو یہاں کے عوام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ سوسٹ ڈرائی پورٹ، دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی، دریائے سندھ کی رائلٹی،معدنیات،گلیشیرز، کے ٹو کی رائلٹی کیلئے عالمی طور پر وضع قوانین کے مطابق حقوق مطالبہ، اور بلواسطہ ْبلاوسطہ ٹیکسوں کی وصولیوں کی گلگت بلتستان خزانے میں جمع ہونا، آج بھی ہر احتجاج کا اولین مطالبہ ہے۔عملی طور پر گلگت بلتستان معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت پاکستان کے زیر کنٹرول ہے لیکن آج یہاں کی زمینوں کی ملکیت کیلئے سرکاری دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔لہذا ضرور اس امر کی ہے کہ اس خطے مزید بیورکریسی کے رحم کرم پر چھوڑ کر رکھنے کے بجائے اس خطے کے عوام کو حقیقی آزادی کا احساس دلائیں اور معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو بحال کریں، نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کرکےسلامتی کونسل کے قرارداد 13 اگست 1948 پر عمل درآمد کر کے آئین ساز اسمبلی کی قیام کو عمل میں لاکر مسئلہ کشمیر کی حل تک کیلئے آذاد کشمیر طرز کا نظام حکومت دیں تاکہ یہاں کے عوام بھی سرکار کی طرح ہر سال یوم آزادی ایک تہوار کے طور پر منا سکیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply