ڈولی چڑھن میری مجبوری ہا،پر اوکھے ذہن توں لہسو۔
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں کسی کام میں ہاتھ ڈالوں اور وہ سُکھ شانتی سے ہو جائے۔لندن سے پرواز بھرنے سے پہلے بھی قریب ڈیڑھ گھنٹے کا ڈرامہ ہوا تھا،واپسی پہ بھی جہاز کمپنی کا میسج آ گیا تھا۔اس روز میکروسافٹ کا سسٹم ڈاؤن تھا،ساری دنیا میں پروازیں لیٹ اور کینسل ہو رہی تھیں۔سو اپنی بھی ہو گئی۔شام آٹھ بجے جانے والا جہاز اب گیارہ بجے جائے گا۔اسی رات بارہ بجے میرا ویزہ بھی ختم ہونے والا تھا۔
واپسی کی فلائٹ کے حساب سے چونکہ بارسلونا شہر کی گلیاں ناپنے کا ارادہ تو ترک کر چکے تھے اب بیچ اور وہاں سے بیچوں بیچ کوئی نیا پلان ترتیب دینا تھا۔بارسلونا ائیرپورٹ سے کوئی دس میل کے فاصلے پہ سٹگس (سٹگز،Sitges) ٹاؤن جانے کا پلان ترتیب پایا۔اس ترتیب کی دو وجوہات تھیں،ایک تو یہ کہ یہاں سے واپسی ائیرپورٹ پندرہ منٹ کا راستہ تھا دوسری وجہ میرا گوگل میپ تھا۔
میں اپنے ویہلے ٹائم میں بلاوجہ مختلف ملکوں کے نقشے پہ شہر اور قصبے سیو کرتا رہتا ہوں۔سعودی عرب جانے سے پہلے جوجو شہر یا جگہ میپ پہ سیو تھی میں تین سالوں میں چُن چُن کے وہاں پہنچا ہوں،پھر چاہے وہ کوئی شہر ہو،قصبہ ہو یا کوئی کھابہ۔سٹگز بھی ایسے ہی کبھی میپ پہ سیو کیا تھا اور یہ موقع بھی شاندار تھا۔
سٹگز کی پوری فلمی وائب ہے۔ایک طرف سمندر اور سمندر کے ساتھ ایک چھوٹی سڑک بل کھاتی جا رہی ہے اور سڑک کے ساتھ پہاڑی سلسلہ ہے۔یہاں باقاعدہ بیچ پہ پارکنگ بھی بنی ہوئی ہیں مگر سڑک کے ساتھ ساتھ بھی شارٹ سٹے کے لیے جگہ مختص ہے۔ہم نے بڑی پارکنگ میں جا کے وقت برباد کرنے سے مناسب سمجھا کہ شارٹ سٹے میں گاڑی کھڑی کرکے دوپل گزارے جائیں۔گاڑی پارک کی اور پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے پہاڑ پہ ذرا بلندی پہ جا بیٹھے۔یہاں سے خاموش نیلا پانی اور اس میں تیرتی کشتیاں بڑا شاندار منظر پیش کر رہی تھیں۔جوانی میں اگر کبھی عشق کا سلسلہ ہوتا تو وہاں لازمی پرانا پیار جاگتا۔اب مگر اس نیلے پانی کی خاموشی،سمندر کی وسعت اور سڑک پہ بھاگتی گاڑیاں دیکھ کے سرگودھا سے پنڈ جاتی اجنالہ روڑ یاد آ رہی تھی۔اس لیے نہیں کہ دونوں میں کوئی مماثلت تھی،اس لیے کہ کہاں ویگنوں پہ دھکے کھانے والے آج سپین کے اس قصبے میں پہاڑی سے پاؤں لٹکائے آسمان کی سی وسعت والے نیلے پانیوں کو دیکھ رہے ہیں۔

سورج ڈھل رہا تھا جب ہم گاڑی میں آ بیٹھے اور گاڑی کا منہ ائیرپورٹ کی طرف کر لیا۔گاڑی کے بیرونی شیشوں سے سورج غروب ہوتا نظر آرہا تھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ غروب نہیں ہورہا بلکہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔جیسے جیسے ائیرپورٹ قریب آرہا تھا میرے ذہن میں پچھلے چار دن فلم کی طرح چل رہے تھے۔ایک بہت خوبصورت ٹور کا اختتام ہورہا تھا۔پھیکے رنگوں والے ولایت میں واپس آنا ویسے بھی کوئی آسان نہیں ہوتا ،پھر جب آپ فرانس کے پھول اور بارسلونا کی کھلی سڑکوں پہ کھجور کے درختوں پہ اترتی سورج کی روشنی دیکھ کے آ رہے ہوں، تو ولائت اور بھی ڈپریسنگ لگتا ہے۔
رات گیارہ بج کر کُچھ منٹ پہ جہاز نے پرواز بھری تو فرانس کو لے کے میرے من میں یہی خیال آرہا تھا۔۔
ڈولی چڑھن میری مجبوری ہا،پر اوکھے ذہن توں لہسو۔
کسی اور ملک کے کسی اور شہر سے کوئی اور کہانی سنانے پھر آؤں گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں