علمی اور نفسیاتی استحصال /آغر ندیم سحر

اس وقت پورا پاکستان سڑکوں پر ہے۔کوئی سیاسی حقوق کے نام پر، کوئی طلبا استحصال کے نام پر اور کوئی معاشی بد حالی کو پیٹ رہا ہے۔ تمام نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔احتجاج کی کہانی جو لاہور سے شروع ہوئی تھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی۔درجنوں نجی تعلیمی ادارے جل کر راکھ ہو چکے،جو باقی بچ گئے ہیں،وہ بھی سخت سکیورٹی کے حصار میں ہیں۔اس تشویش ناک صورت حال میں ہمارے ریاستی ادارے اور طاقت ور لوگ، سٹوڈنٹس کا یک رکنی مطالبہ ماننے کی بجائے بلاجواز کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔سٹوڈنٹس جو بہت زیادہ مشتعل ہیں اور غصے اور نفرت میں اپنے ہی اداروں اور لوگوں کو مار رہے ہیں،ان سے بات کرنے کی ضرورت تھی،بلاجواز کہانیاں سنانے اور دھمکیاں دینے کی بجائے اس تشویش ناک صورتحال سے انتہائی سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت تھی مگر ہمارے ادارے اور شخصیات،ایک پیج پر اکٹھے ہو گئے،طالب علموں کو سننے کی بجائے ان پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے،انھیں لہولہان کیا اور بدلے میں مشتعل سٹوڈنٹس نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انھوں نے بھی وہی کیا جو اعلیٰ حکام ان سے کر رہے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حالات بہتری کی جانب جائیں گے یا نہیں، آخر سٹوڈنٹس کے یک نکاتی مطالبے کو ماننے میں مضائقہ کیا ہے،یک نکاتی مطالبہ کیا ہے؟ صرف اتنا کہ تعلیمی اداروں میں جاری سٹوڈنٹس کا استحصال بند کیا جائے،اب استحصال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے چاہے نجی ہیں یا سرکاری،وہاں برسوں سے سٹوڈنٹس کا استحصال جاری ہے۔ یہ استحصال صرف جنسی نہیں ہے،علمی بھی ہے اور نفسیاتی بھی۔کیا اس معاملے میں آج تک سنجیدگی سے سوچا گیا،کیا آج تک تعلیمی اداروں میں بیٹھے ان طاقت ور افراد نے ایک مرتبہ بھی سوچنے کی زحمت کی کہ ہم اپنی نئی نسل کوورثے میں کیا دے رہے ہیں؟استحصال صرف جسمانی یا جنسی نہیں ہوتا،بچوں کو نفسیاتی یا علمی طور پر بانجھ کرنے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے جنسی یا جسمانی استحصال کرنے والے ۔ملک بھر میں جاری احتجاج کو صرف ایک واقعے سے جوڑنے کی بجائے تعلیمی اداروں کی مجموعی کارکردگی اوراستحصال کی روایت سے جوڑ کر دیکھیں،آپ کو یہ چیختے چلاتے سٹوڈنٹس بالکل بھی غلط نہیں لگیں گے۔جب تعلیمی اداروں میں بیٹھے اساتذہ ،اپنے منصب کا خیال کرنے کی بجائے بچوں کا استحصال کریں گے تو یہ بچے آخر کب تک خاموش رہیں،کب تک یہ ظلم اور جبر کی سیاست برداشت کریں ،کب تک یہ نوجوان ظالم آقائوں کی گھناؤنی انا کی بھینٹ چڑھیں،کب تک،آخر کب تک؟

پچھلے ایک ہفتے میں ملک کی چار بڑی جامعات اور کالجز میں جنسی ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔فیک نیوز کی وجہ سے ایک نجی کالج بھی اس معاملے میں زیربحث ہے،پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی(چار دن پہلے) ایک بچی نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کی ہے،یہ خودکشی کا واقعہ ہو یا پھر ہراسگی کے درجنوں واقعات،ہمارے تعلیمی ادارے اس حوالے سے اپنا اپنا وقار کھو چکے ہیں،یہ کھویا ہوا وقار آخر کیسے بحال ہوگا؟ سٹوڈنٹس کی بات سننے اورمکالمہ کرنے سے یا پھر پولیس کے لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے؟چلیں مان لیا کہ یہ سٹوڈنٹس ایک گھنائونے پراپیگنڈے کا حصہ بن گئے ہیں اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا مگر کیا یہ حقیقت جھٹلائی جا سکتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں برسوں سے تشنگان ِ علم کا استحصال جاری ہے،کہیں گرلز کا استحصال میل اساتذہ کی طرف سے اور کہیں بوائز کا استحصال فی میل اساتذہ کی طرف سے۔یہ استحصال صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ باردگر عرض کرتا چلوں کہ جنسی یا جسمانی استحصال سے کہیں زیادہ علمی و نفسیاتی استحصال جاری ہے اور برسوں سے جاری اس استحصال اور ظلم و جبر کی وجہ سے جو نسل تیار ہو رہی ہے وہ علمی طور پہ بھی بانجھ ہے اور ذہنی طور پر بھی۔اس میں کیسی دو رائے کہ جب استاد علمی و ذہنی طور پر بنجر ہوگا تو وہ جو نسل تیار کرے گا،وہ بھی دولے شاہ کے چوہوں جیسی ہوگی،یہ سڑکوں پر احتجاج کرتی نسل کا یہی یک نکاتی مطالبہ ہے کہ سٹوڈنٹس پر رحم کیا جائے۔ایسے لوگ تعلیمی اداروں سے دھکے دے کر نکالے جائیں جن کے پاس استحصال، تعصب اورنفرت کے سوا کچھ نہیں۔ ہر سال کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس کے بعد چند دن تک ہمارے دانش ور بڑے پریشان رہتے ہیں،میڈیا پر پے د ر پے پروگرام ہوتے ہیں،اعلیٰ حکام بھی پریس کانفرنس کرتے ہیں اور طاقت ور اداروں کے کرتا دھرتا بھی دکھی ہوتے ہیں مگر افسوس اگلے چند دن بعد ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔کیا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے ہم بلی کے پنجوں سے بچ جائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ہم سڑکوں پر نکلنے والوں کو شرپسند کہہ رہے ہیں،اپنے حق کی بات کرنے والوں پر ڈنڈے برسا رہے ہیں،مکالمے کی دعوت دینے والوں کو ہم دہشت گرد کہہ رہے ہیں اور سوچیں کل خدانخواستہ ہمارا کوئی اپنا اسی ظلم و زیادتی یااستحصال کا شکار ہوا تو ہم کیا کریں گے،کیا ہم تب بھی لاٹھی چارج کریں گے،ہم تب بھی شیلنگ کریں گے اور ریاست کی طاقت کا غلط استعمال کریں گے؟تعلیمی ادارے،چاہے نجی ہیں یا سرکاری،سب کو ایک متفقہ پالیسی بنانا ہوگی جس میں یہ طے کر دیا جائے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں کم از کم جنسی استحصال کا واقعہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔استاد کرپٹ ہو یا پھر سربراہ ادارہ، طالب علموں کا استحصال کرنے پرسب کو سزا ملے گی۔اس پالیسی میں ان کرداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے جو اپنے طالب علموں کو جنسی یا جسمانی کی بجائے نفسیاتی اور علمی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ہراساں صرف میل اساتذہ ہی نہیںکرتے،فی میل اساتذہ بھی اپنی جھوٹی انا پر اپنے طالب علموں کو قربان کر دیتی ہیں۔میل ہوں یا فی میل،ہر اس کردار کو سزا ملنی چاہیے جس نے طالب علموں کو روشنی کی طرف لے جانے کی بجائے تاریکی کا رستہ دکھایا۔ جس نے مکالمہ اور سوال کا گلہ گھونٹا اور طالب علموں کو ذہنی طور پر بانجھ کر دیا،جب تک ہم یہ پالیسی نہیں بنائیں گے‘ ہمارے تعلیمی اداروں سے جنسی‘ جسمانی‘علمی‘نفسیاتی اور ذہنی استحصال کے واقعات ختم نہیں ہوں گے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply