پاکستان میں لا پتہ افراد کے لئے پہلی آواز ریاستی سطح پر اور مزاحمتی تحریک کی صورت بننے والی پنجاب کی بیٹی آمنہ مسعود جنجوعہ ہیں، لاپتہ افراد کا فنامنا پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا، جب مسعود جنجوعہ کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کی اہلیہ جو ایک گھریلو خاتون تھیں ، سامنے آئیں ، وہ اتنا سخت دور تھا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ اکیلی اپنے بچوں کے ساتھ پولیس کی لاٹھیاں کھاتی تھیں، اس وقت پورے پاکستان میں لاپتہ افراد کی بابت اور آمنہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے کنٹرولڈ میڈیا سے لے کر انسانی حقوق کے دعویداروں تک کوئی بھی ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔
آمنہ مسعود جنجوعہ باقاعدہ تنظیمی سطح پر ان مظلوموں کی آواز بنیں، آمنہ مسعود بلا تفریق نسل اور لسان پرویز مشرف کے عہد سے کام کر رہی ہیں، اور بین الاقوامی سطح تک اس بات کو لے کر گئی، لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان سے پہلی بار بین الاقوامی فورمز پر بات کرنے والی خاتون کا نام آمنہ مسعود جنجوعہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی ساری تحریک آئین پاکستان کے مطابق حقوق کے ضمن میں رہی ہے، اس نے کبھی بھی آئین پاکستان کے خلاف کوئی عمل نہیں کیا، آمنہ مسعود جنجوعہ نے نا صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں اور خصوصاً خیبر پختون خوا کے کتنے ہی مسنگ پرسن کے لیے آواز اٹھائی اور نا صرف آواز اٹھائی بلکہ خیبر پختون خوا کے کتنے ہی گھرانوں کا سالوں تک کفالت کا بیڑا بھی اٹھایا، ان کے لیے قانونی معاونت بھی کی۔ مزید حیرت کی بات ہے کہ ابھی جو ایک جرگہ فضاؤں میں گونج رہا ہے، وہ اپنے ڈیٹا کے لیے بھی آمنہ مسعود جنجوعہ کے بنائے گئے ریکارڈ کا ہی محتاج رہا۔
آج بہت سارے لوگ نعرے تو لگاتے ہیں، لیکن کئی ایجنڈے باطن میں چھپا کے رکھے ہوئے ہیں، آمنہ مسعود واحد خاتون رہی جن کا واحد مقصد صرف لاپتہ افراد کی بازیابی رہی۔ انہوں نے حقیقت میں جو کام کیا وہ اس ملک میں کسی نے بھی نہیں کیا، اب آپ اس کا جس طرح تقابل کریں وہ آپ کی مرضی ہے مگر اس عظیم خاتون کو اگر سراہا نہ گیا تو میں سمجھوں گا کہ زیادتی ہوگی۔ آج ان سب کے لیے شرم کی بات ہے جو صرف پنجابی کو گالی دیتے ہیں، کیونکہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے ہی تمہیں آواز اٹھانا سکھایا، جس وقت خیبر پختونخوا میں لوگ بینفشریز بن کر فائدہ اٹھاتے تھے، اس وقت خیبر پختون خوا کے 80 فیصد لاپتہ ہونے والے افراد کی قانونی معاونت صرف اکیلی خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ کر رہی تھی، اس وقت اِن لاپتہ افراد جو اپنے گھروں کے واحد کفیل تھے، کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کے گھروں کی کفالت بھی پنجاب کی اسی بیٹی آمنہ مسعود جنجوعہ نے ہی کی تھی۔ مجھے شدید صدمہ ہے اور یہ میں برملا یہاں پر لکھ رہا ہوں کہ فرنود عالم جیسا شخص بھی آمنہ مسعود کے خلاف کالم لکھتا رہا ہے، ان کی اخلاقیات اور لبرلزم کی دعویداری مجھے کتنی کمزور نظر آتی ہے۔ جب اپنے حقوق کے لئے آپ گالیاں جسٹیفائی کرنے میدان میں اتر ہی پڑے ہیں تو یقین کریں، ہم بھی جواب دیں گے۔
فرنود عالم کو کوئی یہ بات پہنچا دے کہ وہ اپنے ان کالموں میں ذرا جا کر آمنہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے اپنا موقف دیکھ لیں۔ جس میں وہ آمنہ مسعود جنجوعہ کو الزام دیتے تھے۔ یہ بتانے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ ریاست کے زیر سایہ یہ کام کرتی ہیں، فرنود عالم صاحب جب ایک ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر آمنہ مسعود جنجوعہ کے خلاف لکھتے تھے، اس وقت پنجاب کی بیٹی خیبر پختونخوا کے کسی گاؤں میں لاپتہ افراد کے گھر بیٹھی اس کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کے گھر کی کفالت کا سوچ رہی ہوتی تھی۔ اس وقت انٹرنیشنل فورمز پر پاکستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بابت بات کر رہی تھی۔ عدالتوں میں مزاحمت کرتی تھی، پریس کلب میں بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوتی تھی، پولیس اور سکیورٹی اداروں سے لاٹھیاں کھا رہی تھی، آج فرنود عالم انشاء پردازی کر کے فکشن لکھنے کی طرز پر پنجاب کو گالی دینے کا جواز پیش کر رہا ہے۔ جو آج پنجابی کو گالی دینے کو جسٹیفائی کر رہا ہے، وہ اس وقت ایک ایسی عورت کی مخالفت کر رہا تھا جو پورے پاکستان میں لاپتہ افراد کے حقوق کے لئے لڑ رہی تھی۔

نوٹ؛یہ کالم آزادی اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔مصنف کے خیالات سےس ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں