کہا ترمیم کا ڈر ہے، کہا ترمیم تو ہو گی/ انعام رانا

اگر کوئی چھبیسویں آئینی ترمیم پہ بطور قانون کا طالب علم ‘میری رائے مانگے تو میں عرض کروں گا کہ مجھے خوف ستائیسویں ترمیم سے ہے۔ چھبیسویں ترمیم کا مقصد فقط ایک شخص کا راستہ روکنا تھا جس میں وہ کامیاب رہی۔

جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک جب فقط افتخار بحالی کلب بن گئی اور نتیجہ “پاپا کا ارسلان چور ہے” آیا تو عدلیہ نے وہ راستہ پکڑ لیا تھا جس کی آخری منزل گہرا گڑھا ہوتی  ہے۔ خواجہ شریف جیسے جج “چین آف کمانڈ” کی نوید دیتے یہ بھول گئے کہ کمانڈ میں گاؤن   سے زیادہ سٹک مضبوط نکلتی ہے کہ ایک کی طاقت فقط اخلاقی ہی ہوتی ہے۔ اس اخلاقی طاقت کے حصول کے  لیے  عدلیہ سے جس بلند اخلاق کی توقع کی جاتی ہے، اسے صلیب افتخار چوہدری نے چڑھایا اور ثاقب نثار نے تو مردے کا کفن بھی نوچ ڈالا۔

عدلیہ کو آئین نے چند اختیار دئیے تھے جن کا مقصد چیک اینڈ بیلنس کی قانونی ڈاکٹرائن کا نفاذ تھا۔ مگر عدلیہ وہ اختیار کسی من پسند اداکارہ سے برآمد    شراب کی بوتلیں   تک پہ کرنے پر اتر آئی اور پھر ضد پکڑ لی کہ چیک میٹ بھی کرے گی اور بیلنس بھی نہیں  رکھے گی۔ تمام عمر احساس کمتری کے مارے ثاقب نثار جیسے جج فیصلوں سے زیادہ ہیڈ لائنز اور سوشل میڈیا رسپانس میں دلچسپی لینے لگے۔ ججز قابل وکلا سے زیادہ کورٹ رپورٹرز کی سننے لگے۔ اسی اثناء  میں ملک کے دائمی مختار محکموں (جنھیں جانے کیوں ادارہ کہنے کی غلطی کی جاتی ہے) کو یہ احساس ہوا کہ توجہ کے شوقین ان ججوں کو استعمال کر کے وہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں جو کبھی انھیں عزیز ہم وطنو کی بانسری بجا کر ملتے تھے۔ ثاقب نثار کو نجات دہندہ ہونے کا یوں احساس دلایا گیا کہ وہ واقعی سیریس ہو گئے اور انصاف کا چشمہ چھوڑ ڈیم والا بابا بن گئے۔

ثاقب نثار کی ننگی بوٹ پرستی کے دور میں البتہ عدلیہ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ وہ معاون نہیں مرکزی کردار ہے۔ خیر اِن دنوں کئی کردار ایک ہی خاکی کاپی کے صفحے پہ بکھرے حروف تھے تو ویسے ہی آنکھ کانی کر لی گئی جیسے کبھی امریکہ نے ہمیں ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کرتے ہوئے  دیکھ کر کی تھی۔ خاک میں اَٹی خاکی قیادت کو ہوش تب آیا جب مشکل وقت میں عدلیہ اِسی پہ خاک اُڑانے لگی۔ آذر کو احساس ہوا کہ اس کے ہی تراشے اس پہ بھگوان بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھر کئی سو سال تک سیاستدانوں کو قابو رکھنے کےلیے  مخصوص چیمبرز اور انکے پیاروں کی اتنی بڑی فوج بنچ پہ بیٹھی تھی کہ کوئی پی سی او بھی کام نہ  آتا۔ ایسے میں جن سیاستدانوں کا علاج کرنے کو یہ   سب انتظام کیا گیا تھا وہی اپنے مطلب کو سپیشلسٹ ڈاکٹر بن گئے۔

محترم جسٹس منصور علی شاہ میرے اُستاد ہیں۔ وہ آج بھی پچھلے سال لندن میں ہوئی ملاقات تک اتنے ہی زندہ دل، شفیق اور با مروت ہیں جتنے پچیس سال قبل بطور استاد تھے۔ ایک انتہائی ذہین قانون دان، عدلیہ میں جدّت لانے کی انتھک کوششیں کرنے والے ایسے جج جو شاید ہمارے عدالتی نظام کو انٹرنیشنل عدلیہ کے مقام تک لے آتے۔ پاکستان کی قانونی تاریخ میں یہ بدقسمتی لکھی جائے گی  کہ وہ چیف جسٹس نہ بن سکے۔ مگر جسٹس چوہدری کے دور سے شروع ہوئی نحوست، چند ٹک ٹاکر صحافیوں کی باہمی گروہ بندی اور ایک سیاسی جماعت کی ان سے بے جا توقعات ان کی کشتی میں سوراخ کر گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر چھبیسویں ترمیم فقط ابتدائیہ ہے۔ سمجھدار قاری اسی سے ستائیسویں ترمیم کا متن سمجھ جائیں کہ لکھاری جو شکاری ہے، فقط واچ ڈاگ کا انتظام کرنا چاہتا تھا تاکہ شکار شروع ہو تو رخنہ اندازی نہ  ہو سکے۔ 2007 کی عدلیہ/افتخار بحالی تحریک بھی جنگِ عظیم اوّل کی مانند ہے، مسلسل بچے دئیے جا رہی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply