لفظوں کے دیوتا کی موت/عامر حسینی

ملتان کی مٹی ہمیشہ سے کہانیوں اور رازوں کا بوجھ اٹھاتی آئی تھی۔ یہ وہ شہر تھا جہاں لفظوں کا دیوتا صدیوں سے اپنی کہانیاں لکھتا آیا تھا، جہاں عشق اور غم کی داستانیں گلیوں میں سرگوشیوں کی صورت بکھرتی تھیں۔ آج، یہ مٹی پھر ایک بار کہانیوں کے بوجھ تلے دبی جا رہی تھی، لیکن یہ کہانی محض الفاظ کی نہیں تھی۔۔یہ خواب، حقیقت، اور عشق کے ٹوٹنے کی ایک داستان تھی۔
لفظوں کا دیوتا اور عشق کا راز۔۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ میری محبوبہ، ملتان کی قدیم گلیوں میں رہنے والی، اُس کے عشق کا راز فاش ہو گیا تھا۔ وہ محبت، جو ہمیشہ ہماری سانسوں کے درمیان خاموش رہی، آج سب کے سامنے بے نقاب ہو چکی تھی۔ اُس کے گھر والے، جو اس محبت سے ناواقف تھے، اس رات اُسے ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔

اُسی رات، لفظوں کا دیوتا، جس نے ہمیشہ اِن گلیوں کو الفاظ سے بھرے رکھا تھا، اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اُس کے ہونٹوں سے نکلنے والے آخری الفاظ ہوا میں تحلیل ہو گئے، جیسے یہ شہر اب کہانیوں کا آخری گواہ تھا۔

محبوبہ کے گھر کی وہ رات خوفناک تھی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ اُس کے گھر والے اُسے سوتے میں قتل کر دیتے ہیں۔ اس کا خون زمین پر بہتا ہے، اور اُس کے ساتھ ہی محبت کا وہ خواب بھی ختم ہو جاتا ہے جو ہم دونوں نے مل کر دیکھا تھا۔ ملتان کی مٹی، جو کبھی عشق کے گیتوں سے بھری ہوتی تھی، اُس رات خاموش ہو گئی۔

ولیوں کی ہجرت اور ملتان کی ویرانی۔۔
محبوبہ کی موت کے ساتھ ہی ملتان کی روحانی فضاؤں میں ایک عجیب سی بے چینی چھا گئی۔ وہ ولی، غوث، قطب، اور ابدال، جو صدیوں سے اس شہر کی حفاظت کر رہے تھے، اُس عشق کے قتل کو برداشت نہ کر سکے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ سب اپنی قبروں سے نکلے، جیسے ملتان کی مقدس مٹی نے خود اُنہیں جگایا ہو۔

اُن کی آنکھوں میں غم تھا، جیسے وہ جان چکے ہوں کہ یہ شہر اب وہ نہیں رہا جو کبھی تھا۔ وہ سب ملتان سے ہجرت کر گئے، اپنی قبروں سے نکل کر کسی اور دنیا کی طرف روانہ ہو گئے۔ اُن کے جانے کے بعد ملتان کی مٹی بے جان ہو گئی، جیسے شہر کی زندگی کا مرکز ہی ختم ہو گیا ہو۔

اُسی لمحے، لفظوں کا دیوتا آخری سانس لیتا ہے۔ اس کے الفاظ، جو کبھی شہر کو معنوں سے بھرتے تھے، اب خاموشی کے بھنور میں گم ہو گئے۔ وہ الفاظ، جو کبھی پہاڑوں کی طرح مضبوط تھے، اب ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے۔ دیوتا کی موت کے ساتھ ہی ملتان کا ہر آم کا باغ، جو کبھی زندگی کا نشان تھا، سوکھنے لگا۔ آم کے درخت جھڑ گئے، اُن کی شاخیں ٹوٹ کر زمین پر گر گئیں، اور ملتان کی وہ خوشبو جو آموں سے بھرپور ہوا کرتی تھی، ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی۔

ایک نیا ملتان: کنکریٹ اور قہر۔۔
خواب میں مَیں نے دیکھا کہ ولیوں کی ہجرت کے بعد، ملتان کی وہ زمین، جو کبھی سبز و شاداب تھی، اب ایک کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے لگی۔ آم کے باغات کی جگہ اب ڈی ایچ اے بننے لگا۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں اور سڑکیں بننے لگیں، اور ہر طرف مشینوں کا شور تھا۔ وہ شہر جو کبھی کہانیوں اور عشق کی سرگوشیوں سے بھرا ہوا تھا، اب بے روح کنکریٹ میں بدل چکا تھا۔
ملتان کے لوگوں کے دلوں سے وہ عشق اور کہانیوں کا احساس چھن چکا تھا۔ لفظوں کے دیوتا کے مرنے کے بعد کوئی بھی اب وہ کہانیاں نہیں سناتا تھا، کوئی بھی اب عشق کی باتیں نہیں کرتا تھا۔ محبت کی جگہ لالچ نے لے لی، اور کہانیوں کی جگہ خاموشی اور خالی عمارتوں نے۔۔سورج، جو ہمیشہ ملتان پر اپنی روشنی اور گرمی نچھاور کرتا تھا، اب قہر بن کر برسنے لگا۔ زمین اتنی گرم ہو گئی کہ دراڑیں پڑنے لگیں، جیسے یہ مٹی بھی محبت کے قتل اور کہانیوں کے اختتام پر رو رہی ہو۔ ملتان کا ہر گوشہ، جو کبھی ولیوں کی دعاؤں سے محفوظ تھا، اب قہر کی لپیٹ میں آ گیا۔

خاموشی کی بازگشت: دیوتا کی آخری سمفنی
محبت کے قتل اور دیوتا کی موت کے بعد، ایک ایسی خاموشی چھا گئی جس میں سب کچھ گم ہو گیا۔ راوی، جو ہمیشہ کہانیاں سناتا تھا، آج بھی ملتان کی گلیوں میں گھومتا تھا، لیکن اُس کے ہونٹ خاموش تھے۔ دیوتا کی آخری سمفنی اب ہواؤں میں گم ہو چکی تھی۔
لیکن پھر بھی، اُس خاموشی کے بیچ میں ایک مدھم سی بازگشت تھی۔ وہ بازگشت نوراں، رشید، دینا، اور بازار حسن کے لوگوں کے دلوں میں زندہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ الفاظ کا دیوتا چلا گیا، لیکن اُس کے الفاظ کا سایہ اب بھی ہر سانس کے درمیان تیرتا ہوا موجود تھا۔
راوی نے گلیوں میں چلتے ہوئے کہا، “دیوتا تو مر گیا، محبت کا قتل ہو گیا، لیکن یہ شہر کبھی مکمل خاموش نہیں ہو سکتا۔ ملتان کی مٹی ہمیشہ کہانیوں کو جنم دیتی رہے گی، چاہے ولی اور غوث یہاں سے چلے جائیں۔”

آخری منظر: خواب اور حقیقت کا ملاپ
ملتان کے کنکریٹ کے جنگل میں، سورج قہر برساتے ہوئے، میں نے خواب اور حقیقت کو آپس میں گڈمڈ ہوتے دیکھا۔ آم کے سوکھے درختوں کے بیچ ایک بچہ، جو کبھی کہانیوں کا دیوانہ تھا، زمین پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ وہ الفاظ، جو دیوتا نے چھوڑے تھے، اب اُس بچے کے ہاتھوں میں زندہ ہو رہے تھے۔ شاید وہ بچہ، ملتان کی نئی نسل، دیوتا کے ادھورے الفاظ کو مکمل کرے گا، اور محبت کی وہ کہانی، جو ہمیشہ ختم ہوتی دکھائی دیتی تھی، ایک دن دوبارہ جنم لے گی۔
ملتان آج بے جان لگتا تھا، لیکن اُس کی مٹی میں اب بھی کہانیوں کے بیج دفن تھے۔ شاید ایک دن پھر وہ بیج اُگیں گے، اور ملتان پھر سے وہ شہر بنے گا، جہاں الفاظ اور عشق ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

نظم کی بازگشت:
لفظوں کے دیوتا کی موت
شہر کی گنجان بھیڑ میں، ایک خاموش لمحے میں،
لفظوں کا دیوتا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔
اس کے ذہن کی شام کے کونے پر
کون سے خیالات بکھر رہے ہیں؟
کون سی آیتیں طوفان کی لہروں میں تحلیل ہو رہی ہیں،
کس طرح اس کے مرتے شعور کے کنارے پر الفاظ کے بھنور بنتے ہیں؟
وہ الفاظ، جو کبھی پہاڑ تھے،
اب ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل جاتے ہیں،
اور دیوتا خود خلا کی بے کراں وسعتوں میں بکھرتا ہے،
ایک نہ ختم ہونے والے ملبے کی طرح—
نہ راکھ کی صورت،
بلکہ ایک نامکمل سمفنی کی شکستہ دھن کی مانند،
ایسی دھن جو کبھی لکھی ہی نہیں گئی،
جو ہوا میں تحلیل ہوتی،
معنی کے بوجھ سے آزاد،
ایک ابدی، لا متناہی سکوت کی گہرائیوں میں گم ہو جاتی ہے۔

julia rana solicitors

دیوتا کی موت، محبوبہ کی موت، اور ملتان کا گنجا پن۔۔یہ سب ختم ہو چکا تھا، لیکن ایک دن یہ کہانیاں پھر سے جنم لیں گی، کیونکہ کہانیاں کبھی مکمل نہیں مرتیں، وہ صرف نئی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply