ذہنی مسائل اور تشویش بیسویں صدی میں انسانوں کی زندگی کا جزو بن کر رہ گئی ہے، خصوصاً شہروں میں۔ ہمارے ذہن چلتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ نیند میں بھی۔ ہمیں کہیں پہنچنے، کمانے اور بچوں کو پالنے کی پریشانی کے علاوہ نوکری میں ہونے والی سیاست سے بھی مسئلہ رہتا ہے۔ دفتر سے گھر آ کر واٹس ایپ گروپ یا فیملی گروپ ہمیں مصروف رکھتے ہیں۔
اس کا ازالہ کرنے کے لیے ہم اِس کا احساس کند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیلفیاں، کھانوں کی تصاویر، چھوٹی چھوٹی ’’کامیابیوں‘‘ کی تصاویر، میمز، ہر قسم کے سیاسی معاملات پر تبصرے وغیرہ ایک مصروفیت تو دیتے ہیں لیکن بہت کچھ مائنس بھی کر دیتے ہیں۔ ایسے معاملات میں اگر کوئی فرائیڈ بھی آپ کے سامنے آ کر بیٹھ جائے تو آپ کا ’’علاج‘‘ نہیں کر سکتا۔ ماہرینِ نفسیات سکون آور گولیاں دے کر سلائے رکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے نفسیات اور ایم اے فلسفہ کرنے والوں کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے۔
سوچیں ہماری اپنی ہوتی ہیں، اور ہمارے اپنے اختیار میں ہوتی ہیں۔ جن کی شادی نہیں ہوئی، اُن کے مسائل جعلی اور مصنوعی ہیں، کیونکہ وہ زندگی کے دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر پانی ٹھنڈا یا گرم ہونے کا گریہ کر رہے ہیں۔ چونکہ خاندان یا فیملی معاشرے کی اکائی ہے، اِس لیے فی الوقت یہی زندگی کا مرکزی دھارا ہے۔ کم ازکم ہمارے معاشرے میں تو ایسا ہی ہے۔
میں خود بھی اینگزائٹی، ڈپریشن اور بے خوابی کا شکار ہوتا ہوں یا رہا ہوں۔ لیکن اِس کا علاج بھی خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ دوستوں یا پوچھنے والوں سے اکثر یہی کہتا ہوں کہ میرے خیال میں اِس کا سبب دبے ہوئے یا دبائے گئے جذبات و احساسات ہیں۔ آپ کسی خاص نظریے یا سیاسی گروہ یا اندازِ حیات کی خواہش رکھتے ہیں، اور اپنی زندگی میں ہی اُسے حقیقت بنتے نہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کی جنسی سرگرمی بھی اِس سے شدید متاثر ہوتی ہے۔ اور کچھ صورتوں میں جنسی سرگرمی کا فقدان (حتیٰ کہ شادی شدہ میں) اِس کا باعث بنتا ہے۔
شادی یافتہ لوگوں کے پاس ایک انسان ایسا موجود ہوتا ہے جس سے آپ کا کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا۔ اور اُسی پر توجہ سب سے کم دی جاتی ہے۔ مگر وہ سالوں آپس میں معاملات کو ’’ڈسکس‘‘ نہیں کرتے اور زیادہ Introvert ہو جاتے ہیں۔ میری رائے اور تجربے کے مطابق اگر آپ ہفتے، مہینے، سہ ماہی، ششماہی یا سال میں ایک بار، خود کو کرۂ ارض سے تھوڑا بلند کر کے خود کو پوری طرح ایک دوسرے کے سامنے کھولیں تو بہت سے بھوت نکل جائیں گے، یا کم ازکم آپ اُنھیں پہچان ضرور لیں گے۔ (میں نے بس اپنے تجربے کی روشنی میں بات کی ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں