یہ 22 اکتوبر کی شب تھی جب ایک تہلكہ خیز ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر ہوئی نشر ہوئی اور جنگل میں آگ كی طرح پھیل گئی ، ہر طرف سے گونج اٹھی ، شدید الفاظ میں مذمتیں ہوئیں ، سخت تنقیدیں بھی ہوئیں کیونکہ ویڈیو ہی ایسی تھی ، ویڈیو کیا تھی بس ایک بڑے نامور جامعہ کے مہتمم صاحب کے صاحب زادے کی سختی کی ایک جھلک تھی ، ایک ویڈیو کال کے ذریعہ کسی کو بلوایا گیا اور بچے کو خوب پٹوایا گیا ، آخر میں بد دعا بھی کی گئی۔۔۔اب یہ حرکت یوں بھی کافی غیر مناسب ہے پھر جب کسی مسند پر بیٹھے ہوں تو معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے ، اور اسی لئے تنقید بھی خوب ہوتی ہے۔۔۔۔
یقینا اصلاح اور تنقید سے بالا ہم میں سے كوئی نہیں ، اور خاص كر جن كو رب نے منزلت دی ہے ، كسی مقام پر پہنچایا ہے ، علومِ نبویہ كا وارث بنایا ہے ان كی طرف سے ایسے تكلیف دہ رویے كچھ زیادہ افسوس ناک ہوتے ہیں۔۔۔اور اس سے بھی زیادہ غم كی بات یہ كہ نا حق كو جانشین بنا دیا گیا تو معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا ۔۔۔۔۔۔اور كیا ہی اچھا ہوا كہ مدرسے میں ہونے والے اس مسئلے پر سب سے زیادہ ایكشن بھی مدارس والوں نے ہی لیا ، علماء وطلباء نے ہی سب سے زیادہ غصے كا اظہار كیا۔۔۔۔اور ایسے معاملات كا حق بھی یہی ہے۔
لیكن اب اس ایک معاملہ كو لے كر جو كچھ طوفانِ بد تمیزی بپا ہو رہا ہے ، كہ تمام ہی مدارس وجامعات كو ایک ہی لاٹھی سے ہانكے جانے والا برتاؤ كیا جا رہا ہے یہ بھی قابلِ توجہ بات ہے ، اس ایک مسئلہ كی آڑ میں كتنے ہی مدارس پر بے جا تنقیدیں كی جا رہی ہیں اور كتنے جامعات پر بكواسات كے پلندے الٹائے جا رہے ہیں۔۔۔۔پھر بات وہی ہے كے نا قابلِ اصلاح یعنی كامل ومكمل كوئی نہیں لیكن اس كا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں كہ ساری ہی سب وشتم كے قابل ہیں ، كہ سالہا سال سے نكلنے والے ثمرات كو بھلا دیا جائے اور بے جا تنقید كی زد میں سب كو لپیٹ دیا جائے۔۔۔
كچھ تحریروں میں مدرسے میں ہونے والے مظالم كی فہرستیں بھی مرتب كی گئیں ہیں ، تو كچھ فارغ التحصیل افراد نے حقِ نمک اس انداز سے بھی ادا كیا ہے كہ تمام تر نفرت آمیز باتوں اور حرکتوں كو یكجا كر كے یوں سامنے ركھ دیا ہے كہ جیسے ان برائیوں كے علاوہ كبھی كوئی اچھائی اس طرف سے نكلی ہی نہ ہو۔۔۔۔گویا كہ ہمیشہ سے بادِ سموم كے تھپیڑے ہی پڑے ہوں اور باہر نكل كر ہی معلوم ہوا ہو كہ بادِ صبا كا رخ كسی اور جانب تھا۔۔۔
یاد ركھیں!
كسی بھی جگہ سے مكمل اتفاق یا مكمل اختلاف بہت مشكل امر ہے ، لیكن ہمیشہ فیصلہ ان باتوں پر ہوتا ہے جن كا پلڑا بھاری ہو ، اگر آپ كے ادارے میں اچھائیوں كا پلڑا واقعتا ہوا میں ہے اور برائیوں كا پلڑا بھاری ہو چكا ہے تو بلا شبہ آپ اپنے ادارے كے پرخچے اڑا دیجئے ۔۔۔۔لیكن صاحب یہ تو كہیں كا انصاف نہ ہوا نا كہ ان كو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبنے پر تُلے رہیں جو ان چیزوں سے پاک ہیں۔۔۔
میں ذیل میں ایك فہرست دے دیتا ہوں ، یقین جانیں آج جامعہ میں پڑھتے ہوئے آٹھ سال كا طویل عرصہ ہو گیا ہے ، اس عرصے میں طویل عرصہ ہاسٹل میں بھی گزارا ہے لیكن ہمیں بھی یہ باتیں پڑھ كر ایسا لگا كہ كسی نئی دنیا سے متعارف ہو رہے ہوں۔۔۔۔چند ایک آپ بھی ملاحظہ كیجئے:
1۔مدراس میں احترام اور تعظیم کے نام پر طلباء کرام کے عزت نفس کو ختم کرنا ۔۔۔
2۔اداب اور احترام کے نام پر بعض مدارس میں طلباء کو نفسیاتی مریض بنانا ۔۔۔
3۔بزرگوں اور اکابر کی تعظیم میں غلو ۔۔۔۔
4۔طلباء کرام کو اکابر پر اعتماد کے نام پر دماغ بندی کے دلدل میں دھکیلنا ۔۔۔۔۔
5۔مروجہ مناظرین اور ان کے مناظرے ۔۔۔۔
6۔عرب علماء کرام سے علم اور تقویٰ کی نفی کرنا ۔۔۔
7۔مخالف مسالک کے علماء اور متبعین کے لئے طلباء کرام کے دلوں میں نفرت اور حقارت پیدا کرنا ۔
8۔عصری علوم کی بے جا مخالفت ۔۔۔۔
9۔طلباء کرام کو کالج اور یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے دور رہنے کی تلقین کرنا ۔۔۔
10۔تعلیم یافتہ اور سنجیدہ نوجوانوں کو محض چند ظاہری مظاہر کی وجہ سےمغربیت زدہ قرار دینا ۔۔۔۔۔
11۔متقدمین کے علوم سے دانستہ یا نادانستہ طور پرطلباء کرام کو دور رکھنا۔۔۔۔۔
12۔سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرنا ۔۔۔
اب سچ پوچھئے تو یہ فہرست ہمارے لئے بھی ایک نئی دنیا سامنے لے كر آئی۔۔۔۔اب آپ اس فہرست کو بغور دیکھیں تو صرف چار باتیں نظر آتی ہیں۔۔۔
1- تعظیم ، محبت اور غلو۔۔۔
دیکھیں انسان جس کا جا نشین ہوتا ہے اس کا احترام تو کرتا ہے ، لیکن اس احترام میں اندھا ہو جانا واقعی غلط بات ہے اسی لئے نہ ہی تو ہمارے اساتذہ نے تعظیم كو اتنا گھول كر پلایا كہ اپنی عزت نفس جائے یا نفسیاتی مریض بن جائیں اور نہ ہی ایسی تعظیم سکھائی ہے جس سے کسی کی تنقیص در آتی ہو ، چہ جائیکہ اپنے ہی نفس کی ، بلكہ ہمیں تو حوصلہ دینے والے آگے بڑھانے والے اور ہماری عزت كرنے والے اساتذہ نصیب ہوئے ہیں۔
2- مخالف مذہب اور مناظرے
اس حقیقت سے تو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کہ مناظرے ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں ، البتہ ان مناظروں میں آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا یہ قابلِ گرفت بات ہے ، اور یہ ہی وہ دروازہ ہے جو مخالفین کی نفرت کا بیج بوتا ہے۔۔۔تو سچ پوچھئے تو ہمیں نہ کبھی مناظرے سکھائے گئے اور نہ غیر مسلكی علماء كا بغض وعناد گھولا گیا۔۔۔۔بلکہ اپنا تو یہ حال ہے کہ کسی غیر مسلکی عالم کا کوئی انداز ، کوئی بات پسند آ جائے تو وہ بھی سب سے پہلے اساتذہ کو ہی بتاتے ہیں۔۔۔
3- عصری علوم ، کالج یونیورسٹی والے
یہ دعوے کہ ملاقاتوں سے روکا جاتا ہے ہمیں تو ہوائی دعوے ہی معلوم ہوتے ہیں ، ہمارے تو اساتذہ میں خود کالج ، یونیورسٹی میں پڑھانے والے ہیں ، اسی لئے نہ ہی تو ہمیں كسی سے ملاقات سے روكا ، نہ كبھی كسی تعلیم یافتہ كو ہمارے سامنے جھڑكا ، نہ کبھی عصری تعلیم پر قدغن لگائی ، بلکہ ہمیں تو زبردستی عصری تعلیم دی گئی كہ ہم تو آرام كو ترجیح دیتے تھے لیكن ہمیشہ ہمیں دنیا كے ساتھ جینے كی تلقین کی گئی ، اور اسی کے ڈھنگ سکھائے گئے۔۔۔
4- سوال پر ٹوکنا ، اسلاف سے روکنا
ہم نے ان اساتذہ سے تعلیم لی ہے جو کہتے ہیں:
“اسئلو قبل أن تسئلوا” (تم سوال کرو اس سے پہلے کہ تم سے سوال کیا جائے)
اسی لئے ہمیں ہمارے اساتذہ نے نہ سوال پر ٹوكا ، نہ تنقید كرنے پر سزائیں دیں اور نہ اسلاف تک پہنچنے میں رکاوٹیں لگائیں ، بلكہ ہمارے اساتذہ میں تو وہ بھی جنہوں نے ہماری عین اس وقت حوصلہ افزائی كی جب ہم نے اكابر میں سے كسی سے سخت اختلاف كیا۔۔۔اور ساتھ کہا کہ کچھ تم پڑھو ، کچھ ہم دیکھتے ہیں یونہی مسئلہ حل ہو جائے گا۔۔۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سو فیصد درست ہونے کا ہم بھی دعویٰ نہیں کرتے ، خامیاں ، کمیاں کوتاہیاں سب جگہ ہوتی ہیں لیکن جو موٹے موٹے پوائنٹ بنا کر پروپیگنڈے کی صورت میں عام کئے جاتے ہیں ، اس سے کوسوں دور ایک صاف ستھرے ماحول کے ساتھ مدارس و جامعات بھی موجود ہیں۔۔۔۔جس کی ایک مثال ہمارا ادارہ بھی ہے اور اس طرح دیگر کئی ایک ادارے ہو سکتے ہیں۔۔۔
خلاصہ یہ كہ ہر كسی كو ایک جیسا سمجھنا چھوڑ دیں ، تنقید در تنقید سے دامن بچائیں ، غلط كو غلط كہنے كا مقصد یہ نہیں كہ ساری اچھائیاں بھلا دیں اور یک جنبشِ قلم سے سارا وجود ہی نا پاک كر دیں۔۔۔اور اس كیلئے ضروری ہے كہ ہر كام میں راہِ اعتدال كو اپنائیں۔۔۔۔جو ظالم ہے اسے ظالم كہیں اور جو ظلم سے بری ہے س كو الگ فہرست میں ركھیں۔

زید محسن
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں