• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایم ڈی کیٹ کی بے ضابطگیاں : خوبصورت خواب کی بھیانک تعبیر/ڈاکٹر عمران آفتاب

ایم ڈی کیٹ کی بے ضابطگیاں : خوبصورت خواب کی بھیانک تعبیر/ڈاکٹر عمران آفتاب

لاہور کی رہائشی نادیہ ایک محنتی اور ذہین طالبہ تھی، جس کا خواب ڈاکٹر بن کر اپنی والدہ کی طرح مریضوں کی خدمت کرنا تھا۔ اس نے ایف ایس سی کے امتحانات میں شاندار نمبرز حاصل کیے اور اب وہ ایم ڈی کیٹ کی تیاری میں مصروف تھی۔ نادیہ کے والدین نے اسے ایک مشہور اکیڈمی میں داخل کرایا، جس کی بھاری فیس ادا کی گئی۔ اکیڈمی نے وعدہ کیا کہ ان کی تیاری کا طریقہ کار بہترین ہے اور نادیہ کی  انٹری ٹیسٹ میں کامیابی یقینی ہوگی۔

مگر امتحان کے دن نادیہ کو یہ دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی کہ کئی سوالات وہ نہیں تھے جن کی تیاری اسے اکیڈمی میں کروائی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گئی۔ نادیہ کے والدین بہت مایوس تھے، کیونکہ انہوں نے اکیڈمی پر لاکھوں روپے خرچ کیے تھے۔ اسی دوران ایک ایجنٹ نے ان سے رابطہ کیا اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ دلانے کا وعدہ کیا۔ نادیہ کے والد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی ایجنٹ کو دے دی، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایجنٹ جعلی تھا۔ نہ صرف نادیہ کا قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ والدین کی محنت کی کمائی بھی دھوکے کا شکار ہو گئی۔

نادیہ کی کہانی دراصل پاکستان میں ہر سال ہزاروں طلبا اور ان کے والدین کی حقیقی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان میں میڈیکل کالجز میں داخلے ہمیشہ سے ہی پیچیدہ اور مشکلات سے بھرپور رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلبا اور ان کے والدین میڈیکل کے شعبے میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں، لیکن اکثر یہ خواب بے ضابطگیوں، اکیڈمی مافیا، اور بیرون ملک و پاکستانی نجی میڈیکل کالجز میں داخلے کے نام پر لوٹ مار کی نذر ہو جاتے ہیں۔

جب طلبا ایف ایس سی کے امتحان دے کر مئی یا جون میں فارغ ہوتے ہیں، تو ان پر اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اکیڈمیز کا ایک مافیا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگے کوچنگ کورسز فراہم کرتا ہے۔ ان اکیڈمیز میں ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، اور والدین اپنی زندگی کی بچت صرف اس امید پر خرچ کرتے ہیں کہ ان کا بچہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے گا۔ لیکن بدقسمتی سے، اکثر ان اکیڈمیز میں غیر معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے، اور طلبا کو وہ تیاری نہیں ملتی جو کامیابی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

ایم ڈی کیٹ میں ناکامی یا میرٹ پر نہ آنے والے طلبا کے والدین اکثر بیرون ملک یا پاکستان کے نجی میڈیکل کالجز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ بعض کالجز کے مبینہ نمائندے یا خود کو ایجنٹ ظاہر کرنے والے ٹاؤٹ انٹر نیٹ پر مختلف جعلی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا ایپس پر پیجز بنا کر داخلوں کا جھانسہ دیتے ہیں۔ بسا اوقات سادہ لوح والدین سے بھاری رقوم بٹور کر ان کی بچوں کو میڈیکل کالج میں داخلے کروانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ والدین اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے بچوں کو بیرون ملک یا پاکستانی پرائیویٹ میڈیکل کالج میں ایڈمشن کروانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اکثر یہ دھوکا نکلتا ہے۔ اندرون ملک پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اکثریت ایسے کسی بھی فراڈ ایجنٹ سے لا تعلقی کا اظہار کرتی ہے ۔ جعلی ٹاوٹس اور ایجنٹ داخلے کے نام پر والدین سے پیسے اینٹھتے ہیں، اور جب طلبا کو داخلہ نہیں ملتا تو وہ اپنی شکایات لے کر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، جو ایک طویل اور مہنگا عمل ہے۔

جب کہ وسط ایشیا اور روسی ریاستوں کے اکثر میڈیکل کالجز غیر معیاری ہوتے ہیں اور کئی بار والدین جعلی ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں۔ معصوم والدین اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر کے بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے بچے کو اعلیٰ معیار کی تعلیم ملے گی۔

2024 کے ایم ڈی کیٹ میں شامل طلبا کی تعداد 2024 میں تقریباً 2 لاکھ طلبا نے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دیا، لیکن ان سب کے لیے میڈیکل کالجز میں نشستیں دستیاب نہیں تھیں۔ اس بڑے مقابلے کو سنٹرلائز کرنے کے فیصلے نے داخلے کے عمل کو مزید  پیچیدہ  بنا دیا ہے اور اکیڈمی مافیا اور بیرون ملک غیر معیاری میڈیکل کالجز کے ایجنٹ اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ایم ڈی کیٹ امتحانات کی بے ضابطگیاں ایم ڈی کیٹ کا امتحان طلبا کے لیے پہلا اہم قدم ہوتا ہے، مگر اس میں موجود بے ضابطگیوں نے طلبا کے اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔ تکنیکی مسائل، سوالات کے معیار میں کمی، اور نتائج میں تاخیر نے طلبا اور والدین کو مایوس کیا ہے۔ 2023 میں ہونے والے امتحانات میں بھی یہی مسائل سامنے آئے تھے، جس کے نتیجے میں طلبا کو عدالتوں کا رخ کرنا پڑا۔

عدالتوں کے احکامات اور طلبا کا ضائع ہوتا قیمتی وقت عدالتی فیصلے بعض اوقات داخلے کے عمل کو منسوخ یا دوبارہ امتحان لینے کا حکم دیتے ہیں، جیسے کہ پچھلے سال لاہور ہائی کورٹ نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کو کالعدم قرار دیا تھا۔ یہ فیصلے وقتی طور پر نظام میں شفافیت لانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان سے طلبا کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، کیونکہ وہ دوبارہ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ جس سے ان کی صحت اور ذہنی صلاحیتوں پر شدید دباؤ پڑتا ہے۔

وقت کا بے جا ضیاع بھی اس طویل اور لا یعنی مشق کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔ پیر ا میڈیکل کے طلبا جب مئی یا جون میں ایف ایس سی سے فارغ ہوتے ہیں، تو انہیں اگلے سال مارچ یا اپریل تک میڈیکل کالج میں داخلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران تقریباً ایک سال کا قیمتی تعلیمی وقت ضائع ہو جاتا ہے، جو ان کی تعلیمی کارکردگی اور مستقبل کی پلاننگ پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔

آگے کا راستہ یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اکیڈمی مافیا، بیرون ملک کالجز کے ایجنٹوں اور جعلی ٹاؤٹ مافیا کی بے ضابطگیوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ طلبا اور والدین کا استحصال بند ہونا چاہیے، اور میڈیکل کالجز میں داخلے کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنایا جانا چاہیے۔ طلبا کا مستقبل ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے داؤ پر لگا ہوا ہے، اور اس کا تدارک ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میڈیکل کی معیاری تعلیم کسی بھی قوم کی صحت اور ترقی کا بنیادی ستون ہے، اور اس میں بے ضابطگیوں اور استحصال کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اداروں کو طلبا کی محنت، وقت اور والدین کی مالی قربانیوں کا خیال رکھتے ہوئے فوری اور مضبوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسائل مستقل طور پر حل ہو سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply