اِس تصویر میں دو محبت کرنے والے ایک درخت کی ڈالیوں تلے مل رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ یہ اُن کی پہلی ملاقات ہے یا آخری؟ چہروں پر پایا جانے والا تناؤ اشارہ دیتا ہے کہ یہ شاید آخری ملاقات ہے۔ لیکن یہ پہلی ملاقات بھی نہیں کیونکہ درخت کی چھال پر ’’Amy‘‘ (لفظی مطلب محبوبہ) لکھا ہوا ہے اور عشقِ پیچاں کی بیل نے اِسے نیم ڈھانپا ہوا ہے۔ لہٰذا اُن کی دوستی یا محبت کافی عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ مرد غریب ہے اور عورت امیر، کیونکہ مرد کا لباس نفیس نہیں۔شاید وہ کسی پادری کا معاون ہے۔ عورت یا لڑکی امیر ہے اور والدین اُسے غریب عاشق سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
یہ انگلش وکٹورین عہد کی تصویر ہے جس میں مالی استحکام شادی کی بنیاد تھا۔ اِس پینٹنگ میں پوری کہانی موجود ہے جو وکٹورین عہد کے لوگوں کو بہت پسند آئی ہو گی اور اب بھی ادب اور فلموں (مثلاً ٹائی ٹینک) کا پسندیدہ ترین موضوع ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ عورت غریب آدمی کی ہو جائے، کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ غریب ہی ہوتے ہیں۔ البتہ آرٹ امیروں کی دیواروں پر سجتا ہے اور شاید اُنھیں اُسی طرح تسکین دیتا ہے جیسے سونے کا تاج پہننے والا پوپ غربت کی باتیں کر کے تشفی پاتا ہے۔
کرسٹوفر جونز کے مطابق بڑے آرٹسٹ تھوڑی سی اختراع کے ساتھ گزرتے وقت کو بھی پیش کرنے کے قابل ہوئے، حالانکہ پینٹ کو اکثر ایک جامد اور غیر متحرک میڈیم خیال کیا جاتا جو منجمد لمحات کی تصویر کشی کے قابل ہے۔ مجھے تو یوں لگا جیسے وقت میں کوئی کھڑکی کھلی ہے اور سامنے ایک کہانی موجود ہے۔ وقت کی اس کہانی میں کئی علامات ہیں۔ فطرت اپنے جوبن پر ہے جو ازدواجی مسرت کا وعدہ لگتی ہے۔ اُن کے پیچھے گلابوں والی ایک جھاڑی ہے۔ خوشبودار پھول اور نوکیلے کانٹے محبت کی مسرتوں اور دکھوں کا استعارہ ہیں۔ دو گلہریاں کنبے کے لیے گھونسلا بنانے کی تیاری میں ہیں اور شکوک کے شکار عاشق اور معشوق کا تضاد پیش کرتی ہیں۔ جوڑے کے پیروں میں موجود کتا بھی ازدواجی استحکام اور وفاداری کی علامت ہے۔
اگر آپ پینٹنگ کے کسی ایک حصے پر بھی غور کریں تو نئی نئی تفصیلات سامنے آنے لگتی ہیں۔ ہم سب مرد اور عورت کو سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔ مجھے خود کتے کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ آپ کو عشق پیچاں کے پتوں پر چمک نظر آئے گی، عورت کا لباس بھی دمک رہا ہے، مرد کے اوپر موجود ڈالی کے پتوں کا سایہ اُس کے سینے پر نمایاں ہے (نچلے پتوں پر بھی اوپر والے پتوں کا سایہ نوٹ کریں)، عورت اور کتے کے بال نہایت ریشمی ہیں، عورت نے دونوں ہاتھوں میں مرد کا دایاں ہاتھ تھام رکھا ہے اور دوسرا ہاتھ اوپر اٹھا ہے، درخت کے نچلے حصے پر کائی جمع ہے۔ شاید مصور اِن تفصیلات کے ذریعے محبت کو مزید اجاگر کرنا چاہتا ہے۔
آرتھر ہیوز (Hughes) کی پینٹنگ ’’طویل اقرار‘‘ 1859ء کی ہے۔ یہ وقت کو تصویری انداز میں دکھاتی ہے۔ یہ لطیف سی علامت ایک وسیع موضوع ہے: رومانوی محبت کے پہلے ریلے کو وقت کے غلبے کا خدشہ ہے۔ آرتھر ہیوز کے رافیلی مکتب فکر نے پینٹنگز کو فطرت کے ساتھ براہِ راست ملاقات میں پیش کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اُنھوں نے دنیا جیسے ملی، اُسے ویسے ہی پینٹ کیا۔

1859ء میں لندن میں رائل اکیڈمی آف آرٹس کی سالانہ نمائش میں اِس پینٹنگ کو رکھا گیا۔ مصور نے چوسر کا ایک جملہ بھی لکھا تھا: ’’وہ شخص مٹھاس کو کیسے جان سکتا ہے، جس نے کبھی کڑواہٹ نہ چکھی ہو۔‘‘ شاید مصور بھی محبت کرنے والوں کا خوش کن انجام چاہتا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں