’’ میں‘‘ کا شکار شخص بظاہر خود کو کامیاب، باکمال اور ہر طرح سے برتر سمجھتا ہے، لیکن اس کی خودپسندی کے پردے کے پیچھے ایک گہری محرومی چھپی ہوتی ہے جسے وہ خود بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں پاتا۔ دنیا میں اپنی اہمیت اور برتری کے گمان میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ محبت، عزت اور حقیقی رفاقت اس ’’ میں‘‘ سے کہیں زیادہ وسیع اور عمیق جذبے ہیں۔ یہ احساس کہ ہر کوئی اس کی دنیا کا محور ہے، دراصل ایک خام خیالی ہے جو اس کی روح کو تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔ ایسا شخص ہر وقت دوسروں کی تعریف کا طلبگار ہوتا ہے، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ وقتی پذیرائی ایک کھوکھلی تسلی ہے۔ اس کے اندر ایک نہ بھرنے والا خلا ہوتا ہے جو محبت، ہمدردی اور سچی دوستی کی طلب سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ بلند و بالا اور دوسروں سے منفرد سمجھتا ہے، وہ دل کی گہرائیوں میں کسی بھی تعلق کی بنیاد پر قائم حقیقی وابستگی سے محروم رہتا ہے۔
درحقیقت، یہی اس کی سب سے بڑی محرومی ہے۔اس کی زندگی کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف خود کو توجہ کا مرکز سمجھتے ہوئے، اپنی ذات میں قید ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی دنیا میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اپنے اردگرد موجود محبت، دوستی اور خلوص کی روشنی کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ یہ نہیں جان پاتا کہ زندگی کی اصل خوشی دوسروں کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے جڑنے اور ان کے ساتھ بانٹنے میں ہے، نہ کہ اپنے آپ کو ہر وقت سب سے اعلیٰ ثابت کرنے میں۔ یوں’’ میں‘‘ کا شکار شخص ظاہری کامیابیوں کے باوجود اندر سے ایک بے حد تنہا اور نامکمل انسان ہوتا ہے۔ وہ کبھی اپنی روح کے اس حصے کو مطمئن نہیں کر پاتا جو محبت، قبولیت اور سچے تعلقات کی طلب کرتا ہے۔ دنیا کے سامنے وہ جتنا بھی خود کو کامیاب اور خوشحال ظاہر کرے، اس کے دل میں ایک ادھوری پیاس، ایک انجانی تشنگی ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔یہ شخص، جو دنیا کی نظر میں شاید بلند مقام رکھتا ہو، اپنے اندر کی گہری محرومیوں کا قیدی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ انسان کی اصل عظمت اس کے دل کی فراخی میں ہوتی ہے، نہ کہ اس کی ’’ میں‘‘ کے قلعے میں۔ اور یوں، وہ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز،سچا تعلق اور محبت سے محروم رہتا ہے۔
خود پسندی کا شکار افراد نہ صرف اپنے اردگرد کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اگر ایسے لوگ سیاست جیسے اہم شعبے میں داخل ہو جائیں تو پورے معاشرے کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایک سیاستدان جو خود کو عقلِ کُل سمجھتا ہو، اس کی اولین ترجیح خود کی اہمیت اور طاقت کا تسلسل ہوتا ہے، نہ کہ عوام کی بھلائی یا قومی مفاد۔ ایسا شخص نہ صرف غلط فیصلے کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے بلکہ اپنے ہی فیصلوں پر اندھا اعتماد کرنے کے باعث دوسروں کے تجربات اور مشوروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ سیاسی قیادت کے لیے ایک بنیادی صفت عاجزی اور دوسروں کی آراء سننے کی صلاحیت ہے۔ اگر کوئی لیڈر خودپسندی کے مرض میں مبتلا ہو، تو وہ عوامی مفاد کو نظرانداز کر کے اپنی ذات اور اقتدار کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کا ماننا ہوتا ہے کہ اس نے جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ اس کی ذاتی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کا نتیجہ ہیں، اور باقی لوگوں کے خیالات محض بے وقعت ہیں۔ ایسے سیاسی رہنما عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنی طاقت کو مضبوط کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جب ایسے شخص کو سیاسی قوت ملتی ہے، تو وہ خود کو تنقید سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اس کی خودساختہ عظمت اسے عوامی یا ماہرین کی رائے کو قبول کرنے سے روکتی ہے، جس سے جمہوری عمل متاثر ہوتا ہے۔ مشاورت اور اجتماعی فیصلوں کی جگہ خود مختارانہ فیصلے لے لیتے ہیں، جو اکثر عوامی مسائل کو نظرانداز کر دیتے ہیں یا انہیں مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ ایک خودپسند سیاستدان نہ صرف مخالفین کو بلکہ اپنے اتحادیوں کو بھی نظرانداز کرتا ہے، اور اپنے ہی دائرہ میں فیصلے کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی رائے کو حقیر سمجھتا ہے اور خود کو ہمیشہ درست مانتا ہے۔ جب وہ غلطیاں کرتا ہے، تو وہ انہیں تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرتا ہے یا صورتحال کو مزید بگاڑتا ہے۔ اس کی یہ روش جمہوریت کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ اس کے اردگرد موجود تمام ادارے اور افراد صرف اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں، اور حقیقی مسائل نظرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
ایسے شخص کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کے حل سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ ان کی تکالیف، مسائل اور خواہشات کو سمجھنے کے بجائے اپنی ذات کی تشہیر میں لگا رہتا ہے۔ اس کا مقصد عوامی خدمت نہیں ہوتا بلکہ اپنی خود پسندی کی تسکین ہوتی ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی مقبولیت کم ہو رہی ہے، تو وہ اپنی پوزیشن کو بچانے کے لیے ایسے فیصلے کرتا ہے جو معاشرتی تقسیم اور فساد کا باعث بنتے ہیں۔مثال کے طور پر، اگر کوئی خود پسند سیاستدان اپنی طاقت میں کمی دیکھتا ہے، تو وہ قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی بجائے اختلافات کو ہوا دینے لگتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ اپنے حقیقی مسائل سے ہٹ جائے اور وہ اپنے مخالفین کو کمزور دکھا سکے۔ یہ روش معاشرتی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کے لیے زہر ثابت ہو سکتی ہے۔اس قسم کی قیادت کا خطرہ یہ ہے کہ ایسے لیڈر اپنے ملک کو خود پسندانہ فیصلوں کے ذریعہ تنہائی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی، وہ اپنی انا کو ریاستی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، جس سے ملک کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے لیڈر عالمی فورمز پر دوسروں کی آراء کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنی بات کو ہی حرفِ آخر سمجھتے ہیں، جس سے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔
نتیجتاً، ایسے خودپسند افراد کا سماج میں اثر و رسوخ پورے معاشرے کو عدم استحکام اور نقصان کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ سیاست میں موجود ان کی خود پسندی جمہوری اصولوں، اجتماعی دانش اور عوامی مفاد کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کو سیاسی میدان میں محدود کیا جائے، اور عوامی قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو دوسروں کی بات سننے اور عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ سماج کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے خودپسند افراد کو اپنے رہنماں کی صف میں شامل کرنے سے گریز کرے تاکہ ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کا سفر جاری رہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں