زندگی نے بھی جیسے عہد کر لیا ہو کہ اسے مجھے آزماتے جانا ہے۔ ایک راستہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، بس ہر موڑ پر طوفان ہے، اور میں۔ میں تو جیسے اپنے آپ کو انہی طوفانوں میں ڈھونڈتا ہوں، جیسے یہ طوفان میری تقدیر کا حصّہ ہوں۔
چار برس۔۔ فقط چار برس ،کہنے کو تو کچھ نہیں، پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ برس نہیں، صدیاں ہوں۔ میں اُس رولر کوسٹر پر سوار ہوں جو بس کبھی ٹھہرتا نہیں۔ کسی نے سچ کہا کہ زندگی کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ وقت کی رفتار نے مجھے وطن کی مٹی سے جدا کر دیا، اور جب سایہ نہ ملا تو خود کو دھوپ سے ہی اپنا نا سیکھ لیا۔
لوگوں کو لگتا ہے، واہ! کیا خوب زندگی ہے، قہقہے، ہنسی، رنگینیاں۔ پر کوئی کیا جانے، کس کس درد کو سینے میں چھپائے، کس کس بوجھ کو ہنسی میں لپٹائے پھرتا ہوں۔ یہ ہنسی بھی ایک چادر ہے، اور اس کے نیچے دل کے کتنے گھاؤ چھپے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔
مجھ سے پوچھو کہ درد کیسے سہنا ہے، کہ مجھے تو اس سفر میں یہ ہنر سیکھنا پڑا۔ ہاں، بہت کچھ کھویا۔۔ وہ سب جو بے مثال تھا، جو قیمتی تھا، پر جو پایا ہے، اُس کی بھی قیمت کچھ کم نہیں۔
کبھی کبھی زندگی کے جھٹکے نہیں، زلزلے لگتے ہیں، پر میرا حوصلہ ہے کہ ڈگمگانے نہیں دیتا۔ میں جانتا ہوں، یہ وقت کا چکر ہے۔ جب دکھ اپنی حد کو چھوتا ہے تو خوشیوں کی بارش اُسی وقت آتی ہے۔ اور میں۔۔ مَیں تو اپنے یقین کے ساتھ ہر درد کو اڑا دیتا ہوں، کہ درد بھی سوچتا رہ جائے کہ کس شخص کے سر لاد کر آیا ہوں۔
زندگی کو ہنستے ہوئے گزارنے کا خود سے وعدہ کیا ہوا ہے، کہ جو دکھ بھی ہو، ہم اسے اپنے قہقہوں میں چھپا کر، ایسے گزاریں گے جیسے یہ بھی ہمارا کوئی پیارا ساتھی ہو، اور پیارے سے ساتھی سے بھی بھلا کوئی ہاتھ چھڑا کر بھاگا ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں