سرو قد و صدا بہارسراپے پر سنجیدگی، شگفتگی ،تازگی و بشاشت سے سجے پروقار چہرے والے ایک دم سیدھےآدمی پر کچھ لکھنا اتنا مشکل ہو گا۔ مجھے اس کا اندازہ نہ تھا۔اب سوچ رہا ہوں لکھوں تو کیسے لکھوں اور نہ لکھوں تو کیوں نہ لکھوں؟حالانکہ وہ کوئی مشکل پہیلی ہے نہ اُلجھی ہوئی گُتھی۔ لیکن شاید اتنی آسان بھی نہیں کہ میں اس کی حدود اربعہ کا تعین ہی کر سکوں۔ لباس میں، نشست و بر خاست میں، گفت و شنید میں، چال ڈھال میں، سیرت و صورت میں، عادات و اطوار میں کہیں کوئی جھول نظر آتی تو میں اسے مشق ستم بنا کر اپنا اُلو سیدھاکر لیتا۔لیکن اس تلاش میں خود اُلو بن گیا ،کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ایسی پہیلی جس کی خاموشی سے فصاحت و بلاغت ٹپک رہی ہے۔ اسے بوجھنے کے لیے آپ کو کیا کرنا پڑے گا؟ اس کی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ تو کوئی پوچھے، میاں تم اس جھنجھٹ میں کیوں پڑے ہو؟ اپنی اوقات میں رہو، ضروری ہے کہ زمانے بھر پہ ظاہر کرتے پھرو؟ مگر جب دوسرے کی پردہ دری مقصود ہو تو اپنے ستر کی کسے پرواہ ہوتی ہے؟ آپ ہی بتائیے جو آدمی بلا ضرورت بولنے کے فن سے بھی آگاہ نہ ہو ، اس کی فصاحت آپ کے کس کام کی؟ اور اس کی بلاغت سے آپ کی کون سی ہانڈی تیار ہو جائے گی؟ یقین سے کہہ سکتا ہوں پوری زندگی میں اس شخص نے بنا مانگے کسی کو مشورہ تک نہ دیا ہو گا۔میاں ناصح کے عمومی ماحول میں بھی ان کو نصیحت نہیں سوجھی۔ حالانکہ سفید پوش لوگوں پر صدقہ کی فضیلت اور ضرورت مانگنے والوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ہماری اکثریت سفید پوش ہے۔ ہر کوئی اپنی سمت کو قبلہ سمت اور اپنی عقل کو عقل کل سمجھتا ہے۔بلکہ ہر کوئی کل ہے۔جزوآپ کو خوابوں اور خیالوں میں ملیں گے۔ اور میرے موکل کو خواب نہیں آتے۔ میں نے بارہا انہیں خواب آور گولیاں کھلانے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ گولی کھانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ چار آنکھوں اور چار کانوں کے ساتھ وہ ایک حقیقت پسند انسان ہیں۔ورنہ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہوتے۔کشمیر نما ان کی اکلوتی تصنیف ہے۔اپنی یادوں کو جس خوبصورتی اور متاثر کن اسلوب کے ساتھ لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن انہیں وہ یکسوئی اور فرصت دستیاب نہیں جس کی اس کام میں ضرورت پڑتی ہے۔ ورنہ ڈاکٹر صاحب نے جب آنکھ کھولی تو ان کی پہلی نظر قلم پر ، دوسری کتاب پر اور تیسری اپنے والد گرامی پرپڑی۔جو خود ایک بڑی علمی شخصیت تھے۔ وہ ایک دانا و بیناانسان تھے ، ان کی بات سونے کے ترازو میں تولنے لائق تھی۔ وہ علم ودانش کا ایک بہتا ہوا چشمہ تھے۔ عمر رسیدہ ہوئے تب بھی ان کے خیالات میں جدت رہی۔ وہ دین دار بھی تھے اور ترقی پسند بھی۔ وہ شیخ محمود اور ان کے ہم عصر اور ہم مرتبہ لوگوں کے شاگرد رہے اور پھر ایک بڑے استاد بھی رہے۔انہیں یہ اعزازحاصل ہے کہ وہ بڑے لوگوں کے شاگرد اور بڑے لوگوں کے استاد رہے۔
ڈاکٹر صاحب کو وراثت میں جتناملا اتنا کسی نادار کو عمر بھر کی ریاضت سے بھی ہاتھ نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب نے “کشمیر میں اردو نثر ” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ محکمہ تعلیم آزادکشمیر میں بحیثیت لیکچرر عملی زندگی کا آغا زکیا اور ایک تاریخی تعلیمی ادارے کی سرپرستی کے بعد اپنی خدمات سے سبکدوش ہوئے۔ اپنی حکمت عملی اور معاملہ فہمی سے استفادہ کرتے ہوئے راولاکوٹ کے طلاطم خیز ماحول میں اپنے ادارےمیں ڈسپلن کو قائم رکھا۔ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ ہم نصابی و ادبی سرگرمیوں میں ادارہ نے ان کے دور میں نمایاں مقام حاحاصل کیا۔ پرنسپل ڈگری کالج ہجیرہ پروفیسر لطیف صاحب کے بقول ڈاکٹر ممتاز ایک بہترین استاد ہیں۔ پی جی سی راولاکوٹ میں ان کے سٹاف کے مطابق بحیثیت پرنسپل وہ بہترین منتظم رہے۔ میرے مطابق وہ بہترین انسان ہیں۔ کم ازکم میرے لیےنمونہ ہیں۔ ایسا نمونہ جو میں لاکھ کوشش کے باوجود بنا سکوں نہ اسے بیان کر سکوں۔وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ہلکی آنچ پرپکنے والی وہ ہانڈی ہیں جس کی خوشبو اور ذائقے سے بلا شبہ ان کے سینکڑوں طلبہ اور کولیگ مستفید ہوئے ہوں گے۔ لیکن اس خوشبو کو انہوں نے ہوا سے بچا کر ہی رکھا۔ یوں اس کا اظہار عام ہو سکا نہ استہزار۔ڈاکٹر صاحب اپنے والد گرامی کا پرتو ہیں نہ سایہ۔ درمیان میں ہیں۔شاید کچھ چیزوں کی کمی ہو کچھ کی زیادتی ۔مثلاً اندھیرے میں نہیں ڈرتے۔ کسی جنگل میں بھی رات کو اکیلے سفسفر کر لیتے ہیں۔ البتہ اندھیرے سے ڈرتے ضرور ہیں۔ حِس مزاح، جو انہیں اپنی والدہ یا ننھیال کی طرف سے ملی ہے۔بالکل فالتو کی چیز ہے۔لاکھوں ، کروڑوں لوگ ا س کے بغیر بھی اچھی خاصی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن آپ ان کا حسن انتظام دیکھیے کہ اس فالتو چیز کو بھی کام میں لا رہے ہیں۔دراز قد ہیں ، فالتو کی چیز ہے۔ اس کے بغیر زندگی زیادہ ‘سوکھی ‘ ہوتی ہے۔ اپنی بھی ، دوسروں کی بھی۔مُلکی گھر میں ان کے کمرے کا اندرونی دروازہ ، دروازہ نہیں ایک ‘پرغا’ تھا جس سے گزرنے کے لیے بنی اسرائیل کی طرح سر ہی نہیں کمر بھی جھکانا پڑتی تھی اور ٹانگیں بھی فولڈ کرنا پڑتی تھیں۔ہماری پھُو پھی (اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے) تب کہتی تھیں، میرا ممتاز پڑھ پڑھ کر کُبا ہو گیا ہے۔بعد میں انہوں نے اپنے سُکھ کا بندوبست تو کر لیا ۔ لیکن ہر کوئی اپنے دروازے کیونکر اونچے کر سکتا ہے؟ یوں کئی ایک گھروں میں آج تک نہیں سما پائے۔کتنے لوگوں کو انہیں جھک کر ملنا پڑتا ہے اور کتنے لوگوں کو ان سےملنے کے لیے ‘پڑپاوے’ کی ضرورت پڑتی ہے۔
کاروبار کا شوق یا عارضہ بھی انہیں لاحق رہا ، جو یقیناً اب کافی پُختہ ہو چکا ہو گا۔ فرصت کے اوقات میں مجھے اس کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔اللہ حفاظت فرمائے۔ (امین کہیے)۔ نظریاتی اعتبار سے وہ ایک لبرل جماعتیے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں الحاق ختنے کی طرح عین اسلامی شعائر میں سے ہے۔ لہٰذا کشمیر کا ختنہ کرنے کے لیے ایک مدت تک وہ ‘کاکا پہائی’ والا اُسترا جیب میں رکھتے رہے۔ پھر ان کی سیاسی فکر میں تبدیلی آئی اور اُسترا رکھنا چھوڑ دیا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ پٹھانوں کے نیشنلزم سے متاثر تھے۔ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی کی حالت اور اپنے مٹتے ہوئے کلچر اور شناخت کے پیش نظر انہوں نے آزاد کشمیر میں بھی نیشنلزم کو جائز قرار دے دیا۔ان کا ماننا ہے کہ یہاں پرنیشنلزم کی تحریک کو مضبوط ہونا چاہیے۔لیکن اس بات کے بھی قائل ہیں کہ پاور پالٹکس کا خانہ بھی خالی نہیں رکھنا چاہیئے۔۔پشتو روانی سے بولتے ہیں، اردو محبت سے اور پہاڑی اپنائیت سے۔ان کی زبان سے فارسی کے اشعار سننے کا اپنا مزہ ہے۔ البتہ پہاڑی کے مستقبل کے بارے میں امید سے ہیں نہ کوئی حیلہ کرنے کا خیال رکھتے ہیں۔ گفتگو میں پاکستان کی سابق فارن سیکریٹری محترمہ تسنیم اسلم سے زیادہ محتاط ہیں۔ شیریں بیان ہیں ، سنجیدہ اور مزاح سے بھرپور گفتگو کے ماہر ہیں۔ مردم شنا س ، مزاج آگاہ ہیں۔ ہر کسی سے نباہ کر لیتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی میں اپنی روایات کے پاسدار ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔سرو کی مانند صدا بہار ہیں ۔ بے وجہ پریشان نہیں ہوتے ، البتہ بلاوجہ خوش رہنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چائے ان کا پسندیدہ مشروب ہے۔ پندرہ بیس کپ روزانہ کا معمول تھا۔دل کی بائی پاس سرجری کے بعد جسے کم کرنا پڑا ۔ اورسگریٹ اس سےبھی کم، چھپ چھپا کر پی لیتے ہیں۔ قوت مشاہدہ تیز ہے۔ جس سے بچنا محال ہے۔ مگر سراپا ادیب ہیں ۔ آنکھوں سے کلام کرتے ہیں، ناک سے نہ گردن سے۔ البتہ ضرورت پڑنے پر ہاتھ سے کلام کر سکتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت سے ان کے طلبہ بخوبی واقف ہوں گے۔
میرے لیے وہ بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں۔اسی لیے میرا ہاتھ ہولا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی قیمتی آرا اور رہنمائی سے نوازا۔ میرے چھوٹے بھائی ناصر رحیم کے لیے اس پروفیشن کا انتخاب بھی انہی کی رائے پر ہوا۔ وہ ایک بہترین کیرئیر کونسلر ہیں ۔ دستیاب وسائل اور حالات میں خود کو کیسے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے، آگے بڑھا جا سکتا ہے، ترقی کی جا سکتی ہے؟ وہ اس فیلڈ کے کنسلٹنٹ ہیں۔ اور ان کی کوئی فیس نہیں ہے۔ اس ضمن میں وہ خود ایک مثال ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو جس سے کم لوگ آگاہ ہوں گے۔ میرے لیے ایک معمہ ہے۔
وہ پہلو یہ ہے کہ وہ صلح جو ہیں، ہٹ دھرم اور ضدی بھی۔کم سنی میں والد گرامی سے اختلاف ہو گیا۔ حالات خراب ہو ئےتو گھر چھوڑ دیا۔ کپڑے اتار کر صحن میں پھینک دیے ۔ کدال لے کر آراستہ و پیراستہ گھر کے سامنے کھیت میں داخل ہوئے اور کھدائی شروع کر دی۔والدہ حیران ہو گئیں، منانے کی کوشش کی۔ مگر انکار کر دیا۔ والد گرامی کو خوب کوسا اور کہا اب اس کالایا ہوا کپڑا پہنوں گا نہ اس کی لائی روٹی کھاؤں گا۔ اپنا اگاؤں گا، اپنا کھاؤں گا۔ اتنا انقلابی بچہ اس قدر صلح جو کیونکر ہو گیا؟ بغاوت سے زندگی کا آغاز کیا اور خلافت پر خاتمہ۔ خلافت کی گدی پر کون خوش نہ ہو گا۔ یقیناً انہوں نے ایک کامیاب اور بہترین زندگی گزاری ہے۔ وہ باذوق، خوش مزاج و خوش اخلاق ، ملنسار و غمگسار ،جواں سال اور جواں خیال، غرضیکہ ایک خوبصورت انسان ہیں۔ لیکن جو رول انہوں نے بچپن میں ادا کیا وہ ان کی ساری زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ کدال اٹھانا اب ان کے لیے مشکل ہے ۔ مگر ان کے پاس قلم ہے ، علم ہے ، ہنر ہے اور آزادی بھی۔ دیکھیئے وہ کس سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔میری نیک تمنائیں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں