کوہستان کے ایک دور دراز گاؤں سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹا رات پشاور میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ والد صاحب نے اپنی پوری زندگی ایک سرکاری ادارے میں نوکری کی تھی اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے سلسلے میں ہر ماہ پشاور آنا پڑتا تھا۔ کبھی کوئی دستخط باقی ہوتا تو کبھی کوئی فارم۔ اس بار بھی وہ شام کو پہنچے، رات ہوٹل میں گزاری اور سویرے دفتر پہنچ گئے۔ دفتر میں انہیں بتایا گیا کہ صاحب ایک ضروری میٹنگ میں ہیں، اور یہ میٹنگ صبح سے جاری تھی، جس کا ختم ہونا فی الحال ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔
باپ بیٹے نے صاحب کے سیکریٹری کو بتایا کہ والد صاحب کی طبیعت ناساز ہے، اور وہ جلدی کام کروانا چاہتے ہیں، مگر سیکریٹری نے بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک صاحب میٹنگ سے فارغ نہیں ہوں گے، کوئی بھی دستخط نہیں ہو سکتے۔ باہر کئی لوگ، کوہستان اور دیگر دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے، اسی طرح اپنے کاغذات اور فائلوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔
دوسری طرف، اندر صاحب ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ دستخط کر چکے تھے اور اب چائے کا لطف اٹھاتے ہوئے اپنے کالج کے زمانے کی باتیں کر رہے تھے۔ میٹنگ میں شریک ایک پرانا کلاس فیلو بھی موجود تھا، اور دونوں بیرونی دوروں، پرانی یادوں اور اپنے تجربات کے قصے سنا رہے تھے۔ کوئی اہم بات نہ ہو رہی تھی، بس قصے کہانیاں اور گپ شپ۔ باہر بیٹھے سائلین بے چینی سے منتظر تھے کہ میٹنگ ختم ہو اور اُنہیں کوئی ریلیف ملے، مگر وقت گزرتا گیا اور میٹنگ جاری رہی۔
تعلیم کا شعبہ:
حسن گل چارسدہ کے ایک دور دراز گاؤں سے اپنے بیٹے کے ساتھ تعلیمی وظیفے کی درخواست لے کر پشاور کے تعلیمی دفتر پہنچا تھا۔ گاؤں میں سکول کے حالات ابتر تھے، اور بچوں کی پڑھائی میں شدید مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اس نے اپنی درخواست میں ان تمام مشکلات کا ذکر کیا تھا اور سوچا تھا کہ شہر آ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکلے گا۔ جب وہ دفتر پہنچے، تو بتایا گیا کہ صاحب ایک اہم تعلیمی میٹنگ میں ہیں اور میٹنگ کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔
حسن گل نے بیٹے کے تعلیمی مستقبل کے لیے کئی گھنٹے انتظار کیا، بار بار سیکریٹری سے بات کی، مگر جواب وہی ملتا رہا کہ صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں۔ اندر میٹنگ میں صاحب اپنے پرانے کالج کے ساتھیوں کے ساتھ ملکی و بین الاقوامی تعلیمی تجربات پر بات کر رہے تھے، اپنے بچوں کے تعلیمی دوروں اور بیرون ملک کی کہانیوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ جب تک یہ گپ شپ جاری رہی، باہر حسن گل جیسے کئی والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی درخواستیں لیے انتظار میں بیٹھے رہے۔ کوئی کام نہیں ہو رہا تھا، بس باتیں ہو رہی تھیں۔
—
ہسپتال کا شعبہ:
لالہ فرید اپنے بیمار بھائی کو لے کر کوہاٹ سے پشاور کے بڑے ہسپتال پہنچا تھا۔ بھائی کی حالت نازک تھی اور علاج کے لیے ایک خصوصی فنڈ کی ضرورت تھی جو صرف ہسپتال کے ڈائریکٹر صاحب کے دستخط سے جاری ہو سکتا تھا۔ لالہ فرید نے ڈاکٹروں کو بھائی کی حالت بتائی، مگر اسے جواب ملا کہ صاحب ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔ اس دوران لالہ فرید باہر انتظار کرتا رہا، جب کہ میٹنگ کے اندر صاحب اپنے چند ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ بیرون ملک کانفرنسز کے قصے اور علاج معالجے کے تجربات پر بات کر رہے تھے۔
میٹنگ کے بعد ایک وقفہ ہوا، جس میں چائے اور بسکٹ کا دور چلا۔ میٹنگ دوبارہ شروع ہوئی اور مزید گپ شپ جاری رہی، جبکہ باہر مریض اپنے علاج کے منتظر تھے۔ اگر کام کیا جاتا تو شاید لالہ فرید کے بھائی کو بروقت علاج مل جاتا، مگر صاحب کی میٹنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
دیگر محکمے:
نور اللہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ایک گاؤں سے تھا اور وہ زراعتی محکمے میں اپنے گاؤں کے کسانوں کے لیے سبسڈی کی درخواست لے کر آیا تھا۔ کئی دنوں کی محنت کے بعد وہ صبح سویرے دفتر پہنچا، مگر اسے بتایا گیا کہ صاحب کسی اہم میٹنگ میں مصروف ہیں۔ گاؤں میں پانی کی کمی اور کھاد کی قلت کے باعث فصلیں برباد ہو رہی تھیں، اور کسانوں کو مالی نقصان ہو رہا تھا۔ نور اللہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، سوائے انتظار کے۔
اندر میٹنگ میں صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکی زرعی ترقیات اور بیرون ملک کی زراعت پر بات کر رہے تھے، اپنی کانفرنسز اور بیرونی دوروں کی کہانیاں شیئر کر رہے تھے۔ باہر نور اللہ جیسے کسان، جو اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے، انتظار کی حالت میں بیٹھے تھے۔

پاکستان میں اکثر یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ صبح سے شام تک سرکاری دفاتر میں “میٹنگ، میٹنگ” ہی ہوتی رہتی ہیں۔ ان میٹنگز میں چائے، کھانے اور پرانی یادوں کا تبادلہ ہوتا ہے، جبکہ سائلین اور مریض اپنے مسائل کے حل کے لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی عملی کام نہیں ہوتا، اور یہی وجہ ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر نہیں چل پا رہا۔ اگر میٹنگ کے بجائے حقیقی مسائل حل کیے جائیں اور عوام کی خدمت پر توجہ دی جائے، تو شاید ہم اس صورتحال سے نکل سکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں