ٹوکیو کی گلیوں سے/عثمان سکران

جاپان میں میرا تین مہینوں پر مشتمل وِزٹ کا دورانیہ پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے جن میں سات دن میں نے یہاں کے دارالحکومت ٹوکیو میں گزارے۔ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تیزرفتار زندگی کا یہ شہر کئی لحاظ سے دنیا کی جدید و قدیم بستیوں میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں کے روایتی گھروں سے لیکر فلک بوس عمارتوں تک، تمام کے تمام صفائی، نفاست اور خوبصورتی میں بے مثال ہیں۔ سَن شائن سِٹی جیسے انتہائی کشادہ مارکیٹوں کا یہ شہر ہر وقت سیاحوں سے اتنا بھرا رہتا ہے کہ یہاں کا شِیبُویا کراسنگ دنیا کا مصروف ترین چوک گِنا جاتا ہے۔ گنجان آباد اور مہنگا شہر ہونے کے باوجود یہاں چوری چکاری کے واقعات شاذ ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں  ۔ ٹوکیو کا میٹرو سٹیشن، نیشنل میوزیم، چڑیا گھر اور کثیر منزلہ شاپنگ سنٹر کی کشِش زائرین کی اتنی بڑی تعداد جاپان لےآتی ہے کہ اس سال یہ شہر  ٹورازم کا مرکز بنا رہا۔

ٹوکیو کا موازنہ اگر جنوبی کوریا کے سیئول شہر سے کیا جاۓ تو دونوں شہروں میں کافی حد تک مماثلت سامنے آجاتی ہے۔ سیئول سرسبز پہاڑیوں کے درمیان پھیلا ہوا صاف ستھرا شہر ہے جہاں پر درختوں کی بہتات ہے جبکہ ٹوکیو ہموار سطح کا میدانی شہر ہے جو کہ چیری کے پھولوں کیلئے مشہور ہے لیکن اس موسم میں مجھے کہیں بھی چیری کے پھول نظر نہیں آۓ کیونکہ گرمی کے موسم میں یہ نہیں کِھلتے۔ البتہ ٹوکیو سے باہر اویاما شہر میں املوک جِسے پاکستان میں جاپانی پھل بھی کہاجاتا ہے، کے پودے کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملے۔ سیئول کے درمیان میں سے دریاۓ ہان گزرتا ہے جس پر لندن بریج کی طرح فوارے والا رینبو  پُل سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ کر لاتا ہے۔ بِعَینہٖ، ٹوکیو کو بھی یہاں کا دریاۓ سُومیدا کراس کر جاتا ہے لیکن ٹورسٹ اس دریا کو چھوڑ کر وہاں سے بہت دور آبناۓ ٹوکیو پر بنے رینبو پُل کو دیکھنے جاتے ہیں۔ جاپان اور کوریا کی ثقافتوں پر بدھ مت اور کنفیوشس کی تعلیمات کا گہرا اثرا رہا ہے لیکن جہاں سیئول میں بدھ مت کے ایک دو مندر باقی ہیں وہاں ٹوکیو آج بھی اس دھرم کے مندروں اور قبرستانوں سے بھرا پڑا ہے جن میں سینسوجی مندر کی طرف جاتی ہوئی گلیاں استنبول کے گرینڈ بازار کا منظر پیش کرتی ہیں۔ پہاڑی کے اوپر واقع سیئول کے نامسن ٹاور کو اگر برلن کے ٹی وی ٹاور کا عکاس قرار دیا جائے تو ٹوکیو ٹاور بھی بجا طور پر پیرس کے ایفل ٹاور کا ریپلیکا ہے۔ ٹوکیو میں اس سے ایک اونچا اور جدید ٹاور سکائی ٹری بھی ہے جس کی ساخت انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ایک فرق جو دونوں شہروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے وہاں کے شاہی محلات کا ہے۔ سیئول کے شاہی محلات کے کمپلیکس میں کہیں بھی کوئی سبزہ زار نہیں پایا جاتا لیکن ٹوکیو کے ایمپیریل پیلس کے باغات اور اُواینو پارک جاپان کے شاہی خاندان کے چمن آرا ء ذوق کا ثبوت دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹوکیو اور سیئول کی طرزِِ زندگی میں اور بھی کئی  لحاظ سے تطبیق پائی جاتی ہے۔ مثلاً جاپان اور کوریا کا روایتی مشروب سبز چائے  ہی ہے جو بدھ راہب ہندوستان سے لیکر آۓ تھے لیکن دورِ حاضر کے مغربی ثقافتی یلغار کیوجہ سے دونوں شہروں میں امریکن کافی ہاؤس اتنے مقبول ہوۓ کہ یہاں کے ہر کنوینیئنس سٹور پر مختلف اقسام کی کافی ملتی ہے۔ سیئول کے ریستوران مختلف انواع کے ساگ اور کٹھے میٹھے سپائسی چکن کیلئے مشہور ہیں تو ٹوکیو جاپان کے مقبول کھانے سُوشی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔مشہور رامین سُوپ، چاول اور اڈزُوکی کی میٹھائیاں دونوں شہروں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ اسی طرح کیمچی جو کہ کوریا کی اچار سمجھی جاتی ہے جاپانی مینیو میں بھی شامل ہوتی ہے۔ چائنہ اور کوریا کی طرح جاپان میں بھی عموماً لوگ کھانا چوپ سٹیک سے کھاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply