گزشتہ دنوں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں نے کھانے پینے کی اشیاء میں “تھوک” اور “پیشاب” ملانے کے مبینہ واقعات کو روکنے کے لیے سخت حکم نامے جاری کیے ہیں۔ پولیس نے ہوٹل کے عملے کی لازمی تصدیق اور باورچی خانے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا بھی حکم دیا ہے۔ اُتراکھنڈ کی پُشکر سنگھ دھامی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ خوردنی اشیاء میں تھوکنے کے جرم پر ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہی، یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت نے اُتر پردیش میں ایسی ہی سخت ہدایات جاری کی تھیں۔یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ عملے کی صحیح شناخت کروائی جائے تاکہ ہوٹل یا ڈھابوں میں کوئی درانداز یا غیر قانونی غیر ملکی چُھپ نہ سکے۔ انتظامیہ کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اقدامات کھانے پینے کی اشیاء میں انسانی فضلے یا کسی بھی قسم کی آلودگی کو روکنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔اگرچہ ان ہدایات پر مزید نکات تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ اقدامات کس کے خلاف استعمال ہوں گے۔ ایسے حکمنامے ایک فرقہ وارانہ سازش کا حصہ ہیں، جو محکوم طبقات، بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں کو معاشی طور پر مزید کمزور کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ فیصلہ سماج میں پہلے سے موجود تعصبات کو اور زیادہ ہَوا دے گا اور چھوت چھات اور نسل پرستی کو بڑھاوا دے گا۔ یہ فیصلہ مساوات کی تحریک کو کمزور کرے گا اور رجعت پسند طاقتوں کو تقویت فراہم کرے گا۔
اگر بی جے پی حکومتوں کی نیت صاف ہوتی تو اسے “تھوک جہاد” کے خلاف مہم نہ کہا جاتا۔ دراصل “تھوک” اور “جہاد” کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ دینِ اسلام کے ماہرین آپ کو جہاد کے بارے میں بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں۔ تاہم، ہم میں سے اکثر اس بنیادی حقیقت سے واقف ہیں کہ جہاد کا نہ تو تشدد سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ غیر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والا کوئی ہتھیار ہے۔ آسان الفاظ میں جہاد کا مطلب کسی جائز اور نیک مقصد کے لیے کوشش کرنا ہے۔ ناانصافی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا ہی جہاد ہے۔ اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈا پھیلایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب انہیں غیر مسلموں اور “کافروں” کے خلاف پُرتشدد جہاد کا حکم دیتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر محمد ﷺ صاحب نے غیر مسلمانوں سے دوستی اور معاہدات کیے اور جنگ کو ہمیشہ ٹالنے کی کوشش کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں بھی غیر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا اور انہیں اپنے دھرم پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی گئی۔
سچائی یہ ہے کہ جہاد کے اعلان کے پیچھے کئی شرائط ہوتی ہیں۔ کوئی بھی شخص یوں ہی کسی دن اُٹھ کر جہاد کا اعلان نہیں کر سکتا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مسلمان ایسے ضرور ہوں گے، جنہوں نے تصورِ جہاد کی غلط تشریح کی ہوگی اور اس کا سیاسی استعمال کیا ہوگا، لیکن ہم انہیں کسی بھی طرح اسلام کا نمائندہ نہیں مان سکتے۔ ہر مذہب میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں، لہٰذا تمام مسلمانوں کو “جہادی” کہنا سراسر غلط ہے۔ جہاں تصورِ جہاد کا ایک حصہ دنیاوی معاملات سے متعلق ہے، وہیں اس کا دوسرا اور اہم ترین حصہ نفس سے متعلق ہے۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کی اصلاح کرنے سے پہلے اپنے اندر جھانکیں اور اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ اگر ہمارے اپنے اعمال درست نہیں ہیں، تو ہمیں اپنی اندرونی برائیوں کے خلاف بھی جہاد کرنا ہوگا۔ مگر سیاسی فائدے کے لیے فرقہ پرست عناصر جہاد کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ وہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے بارے میں گمراہ کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو رہا ہے۔بھارت میں بھی صورتِ حال کچھ بہتر نہیں ہے۔ یہاں بھی مسلم مخالف تعصب بڑھتا جا رہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کی بات تو الگ ہے، سیکولر جماعتوں کے اندر بھی مسلم مخالف تعصب کا زہر موجود ہے۔ ابھی حال کے دنوں میں کانگریس کی حکمرانی والی ہماچل پردیش کے ایک وزیر نے بھی ہوٹلوں اور ڈھابوں میں کام کر رہے عملے کو اپنا نیم پلیٹ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
جب سے آر ایس ایس اور بی جے پی اقتدار میں آئی ہیں، انہوں نے بیرونِ ملک چلنے والے جہاد سے متعلق پروپیگنڈے کو نہ صرف اپنایا ہے بلکہ اس میں کچھ مزید باتیں بھی شامل کر کے اسے اور زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔۱۹۹۰ کی دہائی میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کا خوف پھیلایا گیا ۔اس پروپیگنڈے کی تنقید کرنے کے بجائے، ہندوستان میں دائیں بازو کی قوتوں نے اسے مسلم مخالف ایجنڈا پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ہندوتوا کی طاقتیں مغرب میں بیٹھے اسلام اور مسلم مخالف مصنفین کی تحریروں کو پڑھتی ہیں اور پھر وہ کوڑا بھارت میں پھیلاتی ہیں۔
ملک کا میڈیا بھی فرقہ پرستوں کے اشارے پر جہاد سے متعلق بہت سے نفرت انگیز پروپیگنڈے کو پھیلانے میں شامل ہے۔ مثال کے طور پر، ایک معروف ہندی نیوز چینل کے اینکر نے جہاد پر ایک خصوصی پروگرام کیا تھا اور جہاد کی مختلف اقسام گنوائی تھیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کے بیانیے کو دہراتے ہوئے، مذکورہ اینکر نے کہا کہ مسلمان معیشت، تاریخ، میڈیا، موسیقی، نغمے، سیکولرزم، آبادی، محبت، اور تعلیم جیسے کئی حلقوں میں جہاد کر رہے ہیں۔ اینکر کے مطابق، مسلمان جہاد کے ذریعے ہندوؤں کو ہر میدان میں کمزور کرنے اور ان کی شناخت مٹانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اب “تھوک جہاد” کا شوشہ بھی اسی نفرت انگیز مہم کا ایک نیا حربہ ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینوں مظفر نگر پولیس نے ایک نوٹس جاری کیا، جس میں دکانداروں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے نام ظاہر کریں تاکہ ہندو یاتریوں کے درمیان کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ اسی دوران آگرہ میں بیان دیتے ہوئے، اتر پردیش کے ایک وزیر نے بھگوا طاقتوں کے تفرقہ انگیز ایجنڈے کو واضح طور پر پیش کیا اور کہا کہ ہندو عقیدت مندوں کو مسلمانوں کے ہوٹلوں میں بیٹھنے اور کھانے سے گریز کرنا چاہیے، اس لیے مسلمان دکانداروں اور عملے کو اپنے نام ظاہر کرنے چاہئیں۔ نسل پرستی اور مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ پر مشتمل اس فرمان کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی اس فرمان کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور اس پر پابندی لگا دی، کیونکہ ایک سیکولر ملک میں ایسی فرقہ پرست پالیسیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے، بی جے پی کی حکومتیں خوردنی اشیاء کی آلودگی کو روکنے کے نام پر مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسیاں بنا رہی ہیں۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ان دنوں بہت سی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، جن میں کوئی نہ کوئی مسلمان دکاندار یا اسٹاف کھانے میں تھوکتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ طویل عرصے سے فرقہ پرست یہ افواہ پھیلاتے رہے ہیں کہ مسلمان ہندوؤں کو کھانا کھلانے سے پہلے اس میں تھوک دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت، دلتوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیاز جیسی ہی ہے، جن کے ساتھ کھانا پینا انہیں ناگوار گزرتا ہے۔اعلیٰ ذات کے کھانے پینے کی دکانوں پر ہر کوئی جاتا ہے، لیکن اونچی ذات کے کچھ لوگ وہاں جانے سے کتراتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دکان کسی دلت یا مسلمان کی ہے۔ چھوت چھات کی سماجی برائی کی وجہ سے دلتوں کو کاروبار کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور “تھوک جہاد” کا پروپیگنڈ ا اس مشکل کو مزید بڑھا دے گا۔
بی جے پی حکومت کی طرف سے ہوٹل مالکان اور عملے کے نام ظاہر کرنے کے پیچھے اصل مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ کون سی دکانیں دلت اور مسلمان چلاتے ہیں۔ اس طرح کے قوانین کا اصل مقصد صارفین کی صحت کی حفاظت یا خوردنی اشیاء کو آلودگی سے بچانا نہیں ہے، بلکہ پہلے سے کمزور مسلم کمیونٹی اور دلتوں کو معاشی طور پر مزید کمزور کرنا ہے۔جو حکومت صارفین کو “تھوک” اور “پیشاب” سے پاک کھانا فراہم کرنے کے لیے اس قدر بے چین ہے، وہ کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتی کہ ہوٹلوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اجرت کیا ہے اور وہ کن غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا۔ مزدوروں کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا یہ کڑوا سچ کسی سے پوشیدہ ہے کہ اکثر ہوٹلوں اور ڈھابوں میں بچہ مزدوری پائی جاتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس پر روک لگانے کے لیے حکومت کیوں سنجیدہ نظر نہیں آتی؟ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہوٹلوں میں زیادہ تر بہوجن برادری کے لوگوں کا استحصال ہو رہا ہے، جو دن رات برتن دھونے پر مجبور ہیں اور ان کی انگلیاں بھی پانی سے سڑ جاتی ہیں؟ بی جے پی حکومت مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتی؟
آخر میں مَیں پھر سے یہ کہنا چاہوں گا کہ نام نہاد تھوک جہاد کے خلاف بنائے جا رہے قوانین کا اصل مقصد صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانا یا کھانے کو آلودگی سے بچانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد پہلے سے ہی کمزور مسلم کمیونٹی اور دلتوں کی معاشی کمر توڑنا ہے۔ جس طرح پہلے حلال فوڈ پر حملہ کیا گیا تھا، اسی طرح یہ نئی ہدایات بھی سماجی دوریوں کو مزید بڑھانے کی ایک سازش ہیں۔ جمہوریت پسندوں اور سیکولر طاقتوں کو ایسی تفرقہ انگیز پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
ڈاکٹر ابھے کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں