‘مظہر الاسلام’ کے قاری ایک خاص کیفیت سے خوب واقف ہیں جو اس نام اور قلم کے ساتھ جُڑی ہے۔ آپ نے پہلی کہانی سترہ سال کی عمر میں لکھی۔
وہ کون ہیں؟ انھیں پڑھنے والے اکثر اس تلاش میں ان کی کتابیں کھنگالتے ہیں۔ مظہر الاسلام سادہ اسلوب میں گنجلک بات لکھنا جانتے ہیں۔ ان کے پاس کرداروں کی بہتات ہے اور وہ کسی بھی معمولی چیز یا صورتحال سے کہانی بُننے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کے تخیل کی اڑان اپنے آپ میں انفرادیت کی حامل ہے۔
“خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر” 157 صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ جس میں 24 مختصر کہانیاں، 5 سفری کہانیاں اور قصہِ مختصر کے زیرِ عنوان 33 گِنی چُنی سطروں والی کہانیاں بھی شامل ہیں۔
مختصر کہانیاں:
اچھوتے عنوانات کی مختصر کہانیوں میں پوشیدہ موضوع، طرز فکر اور بیانیہ گہرا اثر قائم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر سادہ اور قلیل الفاظ کے ذریعے تحریر میں پیچیدگی پیدا کی جائے، سوالات اور جستجو ابھاری جائے تو آپ جان جائیں گے کہ وہ یقینا مظہر الاسلام کی کہانیاں ہیں۔
آپ کے قلم کا خاصہ اور میری پسندیدگی کا سب سے اہم پہلو “تشبیہات اور استعارے” ہیں، یہ عام زندگی سے چنے گئے ہیں مگر پڑھتے ہوئے تعجب میں مبتلا ضرور کرتے ہیں اور قاری سوچتا ہے کہ کیا ایسے بھی سوچا جا سکتا تھا؟ ہر سادہ کیفیت کو کسی دوسری چیز سے منسلک کر کے مسحور کن احساس سے روشناس کروایا ہے۔ یہ طے ہے کہ بالفرض کہانیاں بھول بھی جائیں مگر منفرد استعارے اور تشبیہات نہیں بھولی جا سکتیں۔
مشاہدہ/رائے:
چند “مخصوص کردار” کہانیوں میں یا مصنف کی مختلف کتابوں میں دہرائے گئے ہیں لیکن آپ ہر مرتبہ کردار کو نئے روپ میں پائیں گے، جیسے دنیا میں ایک ہی نام کے بے شمار لوگ پائے جاتے ہیں مگر ان سے مل کر مختلف رائے قائم ہوتی ہے۔
ہاں مگر کچھ معاملات کی تکرار دورانِ مطالعہ فطری بہاؤ میں رکاوٹ بن کر دلچسپی بھی کم کر دیتی ہے۔
آپ کی تحریروں میں ایک پُر اسرار قسم کی خاموشی اور تنہائی بھٹکتی ہے، جی چاہتا ہے لیکھک کے خیالات کی تہہ تک پہنچا جائے کہ یہ لکھتے ہوئے اس نے کیسا محسوس کیا؟ ان سطروں میں کہیں خاموش احتجاج چُھپا ہے، کہیں بے چینی اور انتظار لیکن یہ محض ایک تاثر بھی ہو سکتا ہے۔
سفری کہانیاں:
پانچ سفری کہانیاں یا سفرانچے کہیے بے حد دلکش ہیں۔ دوسری کہانیوں سے جدا، جیسے روداد کو خوبصورت منظر نگاری اور دلچسپ افسانوی انداز میں خوش اسلوبی سے ڈھالا گیا ہو۔ اختتام میں اِنھیں پڑھ کر یہ خواہش ہوئی کہ سفری کہانیاں مزید ہونی چاہیے تھیں۔
قصہ مختصر:
قصہ مختصر میں انوکھے موضوعات پر مبہم تحریریں جَڑی گئی ہیں جو اس گوہر نایاب فن کے مالک مظہر الاسلام کے قلم پر چمکتا نگینہ محسوس ہوتی ہیں۔
اس کتاب سے چند غیر معمولی کہانیاں جیسے کہ:
جاگتے سمندر کے کنارے سوئی ہوئی کشتیاں، آنکھیں نیند سوچتی ہیں، ایک کہانی بھلا دینے والی، شام باتوں میں چابیوں کا ذکر، سفر کہانی، مرحوم کے گھر رات کھانے پر اور سڑک کی تصویر، میری پسندیدہ کہانیوں میں شمار ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباسات:
٭”جب بھی کہیں فرشی نشست ہوتی ہے اور لوگ جوتے اتار کر اندر چلے جاتے ہیں تو میں ان جوتوں سے بندھا کہانیوں کا سفر کھولتا رہتا ہوں۔ جوتا پہننے والے کی شخصیت کو پڑھتا رہتا ہوں۔ اوچھے اور بھڑکیلے جوتے، بے سفر جوتے، سفر کی مار کھائے ہوئے جوتے، کار والوں کے جوتے، پیدل چلنے والوں کے جوتے، بے منزل جوتے۔ پختہ ارادوں والے جوتے، نا امید جوتے، ایک طرف کو جھکے ہوئے اور تکبر سے سہمے ہوئے جوتے۔ صاف پیروں کے جوتے، گندے پیروں کے جوتے۔ محبت کرنے والوں کے جوتے، خوبصورت پیروں کے جوتے، بھدے پیروں کے جوتے۔”
(جاگتے سمندر کے کنارے سوئی ہوئی کشتیاں)
٭”میرا خیال ہے شہر میں تھوڑی سی درد مندی ضرور ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شہر قہقہوں میں ڈوب جائے تو اس کی زندگی تھوڑی رہ جاتی ہے۔”
(کاغذ کے ایک شہر کا قصہ)
٭اس نے آگے بڑھ کر مجھے کندھے پر اٹھا لیا اور بڑی کوشش سے مجھے قبر میں لٹا دیا۔
ہم دونوں چپ تھے۔۔۔اس نے دوسری رسل رکھی تو بولا:
“کیا تم نے سب کو بتا دیا تھا کہ تم آہستہ آہستہ مر رہے ہو؟”
“ہاں میں نے سب کو بتا دیا تھا۔۔۔مگر وہ یہی کہتے رہے کہ تم نہیں مرو گے۔”
“اور تم مر گئے۔”
” بالکل۔۔۔ اب میں تمھاری کسی بات کا جواب نہیں دوں گا۔”
(ایک کہانی بھلا دینے کے لیے)
٭”وہ مجھے سمندر کی طرح بلاتا رہا مگر میں ڈری اور سہمی ہوئی سی کشتی کی طرح کنارے سے لگتی جا رہی تھی۔”
(جاگتے سمندر کے کنارے سوئی ہوئی کشتیاں)
٭”ایک کنوپی کے نیچے پڑی اکیلی کرسی مجھے اپنی طرح تنہا اور اداس لگی تو میں اس پر بیٹھ گیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ تنہائی کا کوئی ایک وطن نہیں ہوتا۔ تنہائی تو انسان اپنے حصے کی آگ کی طرح اپنے ساتھ اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے اور تنہائی کا تعلق شہر کی رونق سے نہیں، من کی رونق سے ہوتا ہے۔”
(سفر کہانی)
٭شادی کیسی بھی ہو، شادی ہوتی ہے۔ شادی ایک انوکھا بندھن ہے۔ زندگی کی چادر پر اپنے ہاتھوں سے کاڑھا ہوا ٹیڑھا پھول۔ جس کے رنگ کبھی ذرا دیر سے اور کبھی بہت جلد پھیکے پڑ جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اس پھول کے رنگ آزمائش کی دو دُھلائیاں بھی نہیں سہتے اور کھر جاتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک بار جب میں بہت چھوٹی تھی تو میرے والد نے میرے اصرار پر مجھے چھوٹی سی رنگین چھتری خرید کر دی تھی۔ مگر جونہی بارش شروع ہوئی اور میں نے چھتری تانی تو اس کے سارے رنگ کھر کر میرے چہرے، بدن اور لباس پر پھیل گئے تو میں رو پڑی۔
بس شادی بھی ایسی ہی ہے۔ شوق سے خریدی ہوئی رنگین چھتری جس کے رنگ بہت جلد کھر کر سارے بدن اور لباس کو اپنی مرضی کے بھدے، چبھنے والے بے ترتیب رنگوں میں لپیٹ لیتے ہیں۔
(جاگتے سمندر کے کنارے، سوئی ہوئی کشتیاں)

مصنف: مظہر الاسلام
اشاعت: لیو بکس
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں