ٹو ہوم اٹ مے کنسرن/اعظم معراج

(اب جس کے جی میں  آئے ،و ہی پائے روشنی )
برکھا دت کے ذریعے مودی کی منتوں کے بعد ، دادے گورے سے سفارشی رقعہ لے کر چاچے سامو کے لڑکوں کے سامنے ناک سے لکیریں نکال کر اگر امن کا نوبل پرائز اور اقتدار ملتا ہے،تو لے لو۔ بس اس پروجیکٹ کی شروعات مسیحیوں  کی کاغذی نسل کشی سے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تمہارے لئے یہ گناہ بے لذت رہے گا،جب کہ پاکستانی مسیحیوں  کے  لئے ایک ایسا بھیانک المیہ ہے،جس کی موجودہ مسیحی نسل کو تو شاید کوئی پرواہ نہیں لیکن یہ المیہ پکے شواہد و اعدادوشمار   کے ساتھ مسیحیوں  کی اگلی نسلوں کے لئے دستاویز ہوگیا ہے۔ اس لئے جب تک اس دھرتی پر ایک بھی مسیحی رہے گا۔  انکی آنے والی پیڑیاں بھی تمہاری اور اس نسل کشی کے عمل میں شامل تمہارے ساتھیوں کی نسلوں کو بھی یاد دلاتی رہے گی، کہ تمہارے اجداد نے پسے ہوئے مسیحیوں  کے ساتھ یہ کاغذی ظلم کیا تھا  ۔ یہ تمہارے اور تمہارے 2017 کے ساتھیوں کے لئے ہمیشہ ایک کلنک رہے گا۔ اگر سمجھ جاؤ  تو تمہارے لئے موقع ہے، تم یہ اعدادوشمار درست کروا سکتے ہو ۔
ورنہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی نسلوں کے لئے دائمی پچھتاوا پیدا کر جاؤ گے۔
نوٹ۔ اس چھوٹی حرکت کا تمہارے اقتدار و نوبل پرائز کی آس امید پر فرق نہیں پڑے گا۔

julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply