کامریڈ اسٹالین ، پرولتاری مزاحمت کا استعارہ- 2

کامرید اسٹالین کی کامیابیوں کا اعتراف اس کے ایک بڑے مخالف لیون ٹراٹسکی کا نامور پیرو اور چوتھی انٹر نیشنل کا روحِ رواں ٹیڈ گرانٹ یوں کرتا ہے ’’ 27ملین افراد کے قتلِ عام کے باوجود سوویت یونین ہٹلر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا اور 1945 کے بعد ایک مختصر عرصے میں اپنی تباہ و برباد معیشت کو دوبارہ ترقی دیکر دنیا میں دوسری عظیم طاقت بنکر ابھرا۔ 1917 میں ایک پسماندہ ،نیم جاگیردارانہ اور ناخواندہ افراد کی ایک بڑ ی آبادی والا ملک سوویت یونین ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن گیا ۔جس میں دنیا کے چوتھائی حصہ سائنسدان موجود تھے ۔ صحت اور تعلیم کا تو ایسا نظام تھا کہ یا تو یہ ملک مغربی ممالک کے برابر تھا یا اُن سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا ۔ اس نے پہلا خلائی سیارہ تیار کیا اور پہلے انسان کو خلا میں پہنچایا ۔‘‘(ٹیڈ گرانٹ۔روس انقلاب سے ردِ انقلاب تک ۔ صفحہ 35)
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جب امریکا بہادر کے زیر پا سرد جنگ کا آغاز ہوا تو کامریڈ اسٹالین نے تجارتی ،اقتصادی اور سفارتی ناکہ بندیوں سمیت ساری سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ۔
کامریڈ اسٹالین کاایک اور مخالف آندرے گرومیکو جو خروشچیف سے لے کر گوربا چوف کے عہد تک اہم عہدوں پر متمکن رہا ،1985سے1988تک سپریم سوویت کی مجلس عاملہ کا صدر رہا اور اسی نے پارٹی سیکریٹری جنرل کے لیے گوربا چوف کا نام تجویز کیا ، وہ لکھتا ہے کہ ’’ اسٹالین نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر لینن کی وفات کے بعد بڑی کامیابی سے کمیونسٹ پارٹی کا شیرازہ سمیٹے رکھا اور تیس سال تک ایک بڑی قوت کے سربراہ کی حیثیت سے اہم ذمہ داریوں کا سامنا کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔سرخ فوج کے سپاہی اسے سراہتے تھے اور مزاحمتی جنگجو اس کا نام ہونٹوں پر لیے اپنی جانیں قربان کرتے تھے ۔‘‘ ( یاداشتیں ، از آندرے گرومیکو، صفحہ123)
کامریڈ اسٹالین بجا طور پر نہ صرف سوویت یونین بلکہ عالمی سوشلزم کا معمار تھا جس کی سعی پہیم سے کئی ایک خطوں میں سوشلزم فتحیاب ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماؤزے تنگ، ہوچی منھ، کم ال سنگ، انوار ہوژا سمیت عالمی کمیونسٹ تحریک کے قائدین نے ہمیشہ اپنے استاد کا ذکر احترام سے کیا ہے۔ ماؤزے تنگ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ آج بنی نوع انسان کی غالب اکثریت مصائب کا شکار ہے اور بنی نوع انسان صرف اسٹالین ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر اور ان ہی کی مدد سے ان مصائب سے چھٹکارہ حاصل کر سکتی ہے ۔ایسے دوست جو ہمارے ساتھ حقیقی ہمدردی رکھتے ہیں اور ہمیں بھائیوں کی طرح سمجھتے ہیں ،یہ کون لوگ ہیں ؟ سوویت عوام اور اسٹالین ۔کوئی دوسرا ملک چین میں اپنی مراعات سے دستبردار نہیں ہوا ، صرف سوویت یونین نے ہی ایسا کیا ہے‘‘۔ ( چینی عوام کا دوست اسٹالین۔ منتخبات ماؤزے تنگ صفحہ 486)
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سوویت یونین نے راکھ کے ڈھیر سے تعمیر کا آغاز کیا ۔ 9 فروری 1946 کو تیسرے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا اور اس منصوبے نے بھی اپنے اہداف مقررہ وقت سے پہلے 1950میں حاصل کر لیے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی سامراج ایٹمی قوت کے نشے میں بدمست تھا مگر 1949 میں کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں سوویت یونین نے پہلا ایٹمی دھماکہ کر کے اس میدان میں اس کی برتری ختم کر دی ۔ 1950میں جب امریکی سامراج کی ایماء پر مقبوضہ کوریا ( جنوبی کوریا) کی کٹھ پتلی افواج نے عوامی جمہوریہ کوریا پر حملہ کیا تو یہ کامریڈ اسٹالین ہی تھے جنھوں نے عوامی جمہوریہ کوریا کو مدد فراہم کی ۔ دیگر سامراجی ممالک کی افواج کے ہمراہ جب یانکی سامراج نے عوامی جمہوریہ کوریا پر باقاعدہ جارحیت کی تو سوویت یونین کی مدد سے چینی رضاکار کامریڈ کم ال سنگ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے ۔ یہاں تک کہ 1953میں امریکا کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کامریڈ اسٹالین کی وفات کے بعد پارٹی میں سرائیت کر جانے والے روسی ترمیم پسندوں اور منحرفین کے سرغنہ خروشچیف نے ان کی وفات کے تین سال بعد فروری 1956میں بدنام زمانہ سات گھنٹے کی ’’ خفیہ تقریر‘‘ میں اسٹالین کی کردار کشی اور بے سروپا اتہامات کی ہر ممکنہ کوشش کر ڈالی جنھیں مغربی سامراجی میڈیا نے مزے لے لے کر شایع کیا ۔ البتہ اسی ماسکو میں لینن اور اسٹالین کے فکری وارث البانوی انقلاب کے روحِ رواں اور ترمیم پسندی کے سیلاب کے سامنے ڈٹ جانے والے کامریڈ انور ہوژانے نومبر 1961 میں اکیاسی کمیونسٹ اور مزدور پارٹیوں کے اجلاس میں خروشچیف اورمقتدر ٹھگوں کے ٹولے سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’البانیہ کی مزدور پارٹی نے اسٹالین کے سوال پر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ۔ ایک ایسے عظیم مارکسی کی بابت یہ درست اور احسانمدانہ رویہ تھا جس کی زندگی میں تو ہم میں سے کوئی بھی شخص ’’ اتنا بہادر‘‘ نہ تھا کہ سامنے آئے اور اس پر تنقید کرے مگر جس کے انتقال کے بعد اس پر کیچڑ اچھالی جانے لگی اور کیچڑ اچھلنے سے یہ تاثر پیدا کیا جانے لگا کہ سوویت یونین کے اس شاندار دور کا کوئی رہنما ،کوئی کھیون ہار نہ تھا جس میں دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست وجود میں آئی، جب سوویت یونین بلوان بنا اور اس نے سامراجیوں کو شکست دے کر ٹراٹسکی نوازوں ،بخارن نوازوں اور زمینداروں کے پورے طبقے کی طاقت چھینی، جب بڑے پیمانے کی صنعت لگی اور معیشی اجتماعیت کی فتح ہوئی ۔ غرضیکہ وہ دور جب سوویت یونین ایک عظیم الشان طاقت بنا اور سوشلزم رائج کرنے میں کامیاب ہوا ، جب اس نے دوسری عالمی جنگ لڑنے اور فاشزم کو شکست دینے میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے جس کی داستانیں ہو شربا ہیں ۔ وہ دور جب سوویت یونین نے ہماری اقوام کو آزاد کرایا اور ایک طاقتور سوشلسٹ برادری قائم کی ۔ اس دور کے کارنامے بے شمار ہیں ،مگر کیا اس دور میں قیادت کرنے والا کوئی نہیں تھا ؟۔ البانیہ کی مزدور پارٹی سمجھتی ہے کہ اس سارے دور کے ذکر سے اسٹالین کے نام اور عظیم کام کا ذکر خارج کرنے کی جو نئی ریت چلی ہے یہ نہ درست ہے اور نہ مارکسزم کے مطابق ہے ۔ ہم سب کو اسٹالین کے اچھے اور لازوال کام کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے ۔ جو نہیں کرتا وہ موقع پرست اور بزدل ہے ۔‘‘ا ور پھر اسی اجلاس میں کامریڈ انور ہوژ انے خروشچیف کے گل میخ میکو یان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ میکویان نے کہا ہے کہ ہم اسٹالین پر ان کی زندگی میں تنقید اس لیے نہیں کر سکتے تھے کہ اسٹالین ہمارے ہاتھ کاٹ ڈالتے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری کھلی تنقید کی پاداش میں اب خروشچیف ہمارے ہاتھ نہیں کاٹیں گے ۔‘‘
بہر کیف ان الزامات کا پوسٹ مارٹم برسوں بعد 2011 میں امریکا کے ممتازانقلابی دانشور پروفیسر گروورفر سوویت آرکائیوز کی مدد سے کرتے ہیں اور اپنی کتاب میں اسے جھوٹ کا پلندہ ثابت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سوویت آرکائیوز کا کوئی نام نہیں لیتا کہ ان دستاویزات سے کامریڈ اسٹالین اور سوویت یونین کے خلاف برسوں کیے گئے سامراج اور اس کے شامل باجوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی تصدیق نہیں ہوتی ۔جھوٹ کا وہی پلندہ جس کے بارے میں کامریڈ اسٹالین نے خود کہا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ میری موت کے بعد میری قبر پر جھوٹ کا پلندہ ڈھیر کیا جائے گا لیکن تاریخ جلد یا بدھیر بے رحمی سے اس کا صفایا کر دے گی ۔ ‘‘
خروشچیف سے لے کر گوربا چوف اور بورس یلین تک ترمیم پسندی اور انحرافات کی یہی دیمک تھی جو سوویت یونین کی بنیادوں کو چاٹ گئی، درآں حالیکہ 1991 میں سوویت یونین سمیت سوشلسٹ بلاک ہی منہدم ہو گیا ۔ مارکس ، اینگلز ،لینن اور اسٹالین کے مجسمے گرائے گئے ، تاریخ کے خاتمے جیسامضحکہ خیز اعلان کیا گیا ، سرمایہ داری کی دائمی فتح کی نوید دی گئی اور لبرل جمہوریت جس کی پور پور خون میں ڈوبی ہے اسے واحد شافی نسخہ قرار دیا گیا ۔ آج 1903 میں مستردہونے والے اور بیس کی دہائی میں متروک ہونے والے افکار کو سوشلزم کے نئے ورژن کے طور پر پیش کرنے کی ترمیم پسندانہ ریت بھی چلی ہے لیکن لا حاصل۔ بھوک ، غربت ،جنگیں، قتل عام ، مذہبی انتہا پسندی ،فسطائیت ہی لبرل سرمایہ داری کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔ وقت کی کھسوٹی پر مارکس ، اینگلز ،لینن اور اسٹالین کے افکار ہی کھرے ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ اس انقلابی ورثے کے مقابل جتنے ’’دیو پیکر‘‘ اصنام تراشے گئے اور تراشے جا رہے ہیں ان کی وقعت نقش بر آب بونوں سے زیادہ نہیں ۔ طبقاتی مبارزے کے نئے میدانوں اور نئی حکمت عملیوں میں بھی ان انقلابی اساتذہ کے افکار بنیادی ماخذوں کا کام دیتے رہیں گے ۔پرولتاری مزاحمت کے نشان کے طور پر کامریڈ اسٹالین کی یاد تابندہ رہے گی ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply