ڈسکہ کے خاندان کی بربریت کا واقعہ سن کر نا صرف دل دہلا ، کلیجہ بھی متلانے لگا۔ حسد اور لالچ انسان کو کس طرح حیوان بنا دیتے ہیں اس کی زندہ مثال ڈسکہ کے اس خونی خاندان نے قائم کی۔ مقتولہ زارا کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی نہیں جاتی۔ اس کے اندوہناک قتل کا تصور کر کے جھرجھری آ جاتی ہے۔ قتل کے بعد لاش کو جس طریقے سے ٹھکانے لگایا گیا ،سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کے بارے میں شاید کوئی جلاد بھی نہ سوچ سکے۔ مگر اس حیوانی خاندان کی حیوانی عورتوں کے دل ایک بار بھی نہ کانپے۔ تشدد ، تشدد ، تشدد۔ کہیں مرد عورتوں پر تشدد کرتے ہیں اور کہیں سسرال والے ، اور کہیں اپنے ہی گھر والے۔ کہیں عورت خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور کہیں محبت کی پاداش میں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہے۔ کہیں جوے میں ہار دی جاتی ہے تو کہیں دو قبیلوں کے درمیان صلح صفائی کے معاوضے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں یا سسرال والوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنتی ہیں اس کے زیادہ تر قصوروار اس عورت کے اپنے والدین ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کو مجبور کرتے ہیں کہ حالات کچھ بھی ہوں زندگی سسرال میں ہی بسر کرنی ہے۔ ایسا زیادہ تر غریب طبقے میں ہوتا ہے مگر لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس افراد کی ذہنیت بھی ایسی ہی ہے۔ یہ تو بہت عام سی بات ہے کہ بیٹی آ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ دکھ سکھ سانجھے کرتی ہے، جیسے سسرال والوں کی شکایت کرے یا اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں اپنے والدین کو آگاہ کرے تو بجائے یہ کہ وہ اپنی بیٹی کی بات کو مانیں اور اس کے سسرال والوں سے معاملہ طے کریں ،ماں باپ بیٹی کو ہی سمجھا بجھا کر واپس اس کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ اور اگر بیٹی زیادہ شکایت کرے تو اپنی بیٹی کو ہی قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں کہ تم میں برداشت نہیں اور تم ہی زبان دراز ہو۔سسرالوں میں اس قسم کے جھگڑے ہوا کرتے ہیں لہذا اس کی عادت ڈال لو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے گو کہ اب آہستہ آہستہ طلاق اور علیحدگی کے بارے میں لوگوں میں کچھ سمجھ اور قبولیت آ گئی ہے۔ اگر اس کے باوجود والدین اپنی مالی حیثیت کا اندازہ کرتے ہوئے اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ بیٹی اپنے سسرال میں ہی رہے تاکہ اس کا اور اس کے بچوں کا خرچہ پانی اس کا شوہر اٹھاتا رہے اور والدین پر اس کی کسی قسم کی، خصوصا ً مالی ذمہ داری عائد نہ ہو۔ اور اگر وہ لڑکی والدین کے گھر آ کر بیٹھ جائے تو اس کے بھائی بھابھی بلکہ بعض اوقات تو اپنی سگی ماں بھی اسے اور اس کے بچوں کو برداشت نہیں کرتی اور اس کو بوجھ تصور کرتے ہیں۔
مقتولہ زارا کی تصویر دیکھ کر ہر کسی نے دکھ کیا کہ کتنی خوبصورت لڑکی تھی۔ کیا دکھ اس بات کا ہے کہ خوبصورت لڑکی کا قتل ہوا۔ ؟یا صرف ایک لڑکی یا عورت اس بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنی۔ اور اگر وہ خوبصورت نہ ہوتی تو کیا اس کا اتنا دکھ نہ ہوتا۔ وہ ایک انسان تھی کسی کی بیٹی تھی بہن تھی اور بیوی تھی، ماں بھی بننے والی تھی ڈسکہ کے خاندان نے دوہرا قتل کیا ہے۔ ان سب کے لئے پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔ اور وہ تمام والدین جو اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو ایسے سسرال کے جہنم میں جھونک دیتے ہیں ان سے منت ہے کہ اپنی بیٹیوں کی زندگی اور جان کی حفاظت کریں، ان کو ہرگز مجبور نہ کریں کہ وہ کسی بھی قسم کا ظلم برداشت کریں۔ بلکہ ان کو تعلیم دلوائیں، ہنر سکھائیں ان کو معاشی طور پر خود کفیل بنائیں ، تاکہ ان کو شوہر کے دیے ہوئے معمولی خرچے کی بھیک پر زندگی نہ گزارنی پڑے اور نہ ہی ساس اور نندوں کے حسد کا نشانہ بننا پڑے، نہ ان کی جلی کٹی سہنا پڑے۔ خدا کے لیے اپنی بیٹیوں سے محبت کریں اور ان کی بات پر یقین کریں ان کی عزت کریں۔
اس دردناک حادثے سے ایک حقیقت اور ثابت ہو گئی ہے کہ اپنے، پرائے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر یہ سوچ ہے کہ بیٹی اپنے خاندان میں بیاہیں گے تو سکھی رہے گی تو اب یہ سوچ بھی ختم ہو گئی ہے، چاہے کوئی رشتہ دار ہو یا غیر ، کسی بھی وقت رنگ بدل سکتے ہیں۔صرف والدین ہی اپنی بیٹی کو مکمل تحفظ دے سکتے ہیں۔ لہذا خدا کے لیے تمام والدین سے التماس ہے کہ اپ کی بیٹی کی جان اور خوشی سے بڑھ کر کوئی رشتہ یا کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔ بطور باپ آپ کا فرض ہے کہ بیٹی دکھی ہو تو اس کو اپنے سینے سے لگا لیجیے ، بیٹی واپس آنا چاہے تو ماں کو چاہیے اس کو اپنے پروں میں سمیٹ لے، ایسے رشتوں کے دکھوں اور تکلیفوں سے اپنی بیٹی کو بچا لیجیے۔ کاش زارا کے والد نے ایسا سوچا ہوتا تو زرا سسرال والوں کے ظلم کی بھینٹ نہ چڑھتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں